وحشی کی واپسی۔۔۔سید عارف مصطفٰی

جو ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا بدقسمتی سے وہی ہوگیا ہے اور اعظم خان سواتی کابینہ میں واپس آگیا ہے ۔۔۔ یہ امریکا سے پلٹا وہ شخص ہے کہ جس نے اس زمانے میں بھی فرعون کی یاد دلادی تھی اور مغرب میں طویل عرصہ رہ چکے اس شخص پہ وہاں کی تعلیم اور انسانی حقوق سے آگہی بھی اسکے اندر موجود وحشی کو انسان نہ بناسکی تھی ۔۔ اور اب میرا جی یہ چاہتا ہے کہ دو پرچے درج کراؤں ۔۔۔ ایک اغواء کا یعنی ‘تبدیلی’ کے اغواء کا اور دوسرا دھوکا دہی کا اور یہ پرچہ ہوگا انصاف کے لفظ کو مکر وفریب کے تحت استعمال کرکے معصوم عوام کو دھوکا دینے اور ورغلانے کا ۔۔۔۔ اور مجھے یہ دونوں ہی پرچے تحریک انصاف کے خلاف درج کرانے ہیں ۔۔ لیکن اگر مسئلہ صرف ایک ہی ایف آئی آر کی اجازت ملنے کا ہو تو یہ دوسرا پرچہ ہی ٹھیک رہے گا کیونکہ اس دوسرے پرچے کے متن میں پہلے کا مقصد خود ہی سمایا و سمویا ہوا ہے اور ویسے بھی اس پہلے پرچے کے بارے میں کہنے کو اتنا کچھ ہے کہ اسکے لئے ایک کالم سے لکھنا پڑے گا- لیکن اپنی دوسری ایف آئی آر یا دوسرا پرچہ کرانے کے مقصد کو اور اپنی بات کو سمجھانے کے  لیئے میں یہاں اک سادہ مثال کا سہارا لوں گا کیونکہ عموماً گاڑھا فلسفہ اور بقراطیت ناکام رہتی ہے جبکہ دل سے سادگی سے نکلنے والی بات فوراً ہی دل پہ اثر کرتی ہے ۔۔۔ تو اپنی بات سمجھانے کے لیے  اسی سلسلے میں ، میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ ذرا بتائیے کہ کیسا لگتا ہے جو اگر کسی کالی کلوٹی سی نار کا نام حسینہ ہو یا بکری سا دل رکھنے والے کا نام شیر خان ہو ۔۔۔ ؟؟

بس اب مجھے بھی اب تحریک انصاف کا نام سن کے عین ایسا ہی لگتا ہے ۔۔۔ لیکن مزید بات کرنے سے پہلے یہ بھی سن لیجیئے کہ میں اب کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہوں‌اور  ان تمام بچہ جمہورا سیاسی بازیگروں پہ دونوں ہاتھ سے لعنت بھیجتا ہوں کہ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اقتدار کی باریاں لیتے چلے آئے ہیں لیکن جن کے کانوں تک عوام کی دہائیاں و فریادیں کبھی نہ پہنچ سکیں ۔۔۔ میں واپس آتا ہوں تحریک انصاف کے نام سے لفظ انصاف نکلوانے کی اپنی خواہش کی طرف ۔۔۔۔ جسکی وجوہات یوں تو کئی ہیں لیکن ان میں سب سے بڑی وجہ اعظم سواتی کی واپسی ہے ۔۔۔۔ وہی اعظم سواتی کہ جس نے ابھی چند ماہ پہلے اپنی وحشت اور درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فارم ہاؤس  کے سامنے رہائش پذیر ایک غریب محنت کش نیاز محمد اور اسکے کنبے کو ہٹانے کے لیئے اس پہ اپنے غنڈوں سے تشدد کرانے کے بعد گھر کی خواتین سمیت تھانے میں جرم بے گناہی میں بند کروادیا تھا اورگھر پہ دو چھوٹے بچے بے یارو مددگارپڑے بلکتے رہ گئے تھے ۔۔۔ مگرظلم کی یہ داستان صرف یہیں ختم نہیں ہوگئی تھی اور یہیں سے عمران خان کی تحریک انصاف کے انصاف کی آزمائش شروع ہوئی تھی کیونکہ اس غریب خاندان پہ شدید تشدد کرانے اور حوالات میں بند کروا دینے کے بعد بھی اس درندہ صفت شخص کی آتش غضب ٹھنڈی نہ پڑسکی تھی اور اس نے ان غریبوں کے خلاف پکی ایف آئی  آر کٹاکے جھوٹے گواہوں کی مدد سے پکی سزا دلانے کے لیئے مزید کارروائی کے لیئے آئی جی اسلام آباد جان محمد کو کئی بار فون کیئے اور بات نہ ماننے پہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے کہہ  کر اسکا اور ڈی پی اور کا تبادلہ کروادیا تھا اور جب اسکی اس وحشت پہ سوشل میڈیا پہ بہت شور مچا تو قومی میڈیا نے بھی اس پہ خاطر خواہ توجہ مرکوز کردی تھی یہاں تک کہ بالآخر اس وحشی کے خلاف سپریم کورٹ سوموٹو نوٹس لینے پہ مجبور ہوگئی تھی اور چیف جسٹس ثاقب نثار کی ہدایات پہ تشکیل کردہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں سواتی کی درندگی کے خلاف متعدد ناقابل تردید ثبوت مل گئے تھے اور واضح طور ثابت ہوگیا تھا کہ اس شخص نے ایک غریب فیملی کو بربریت کا نشانہ بنایا تھا اور یہ کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے قطعی ناجائز طور پہ اسکی بات مانتے ہوئے آئی جی اور ڈی پی اور کے تبادلے کے احکامات دے کر انکی شدید تذلیل کی تھی اور یوں برسرعام قانون کو پیروں تلے روند ڈالا تھا

یہاں بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ یہ معاملہ عمران خان کے حوالے سے ایک ٹیسٹ کیس تھا کہ جس میں بروقت اور بےلاگ انصاف سے متعلق ماضی میں کیئے گئے انکے دعووں کو انکے عمل کی روشنی میں جانچنے کا وقت آن پہنچا تھا کیونکہ انہوں نے تواپنی سیاسی جدوجہد کے آغاز ہی سے ‘ انصاف ، انسانیت اور خودداری’ جیسے دلپذیر بلندوبانگ الفاظ کو یکجا کرکے انہیں اپنی جماعت کا اساسی نعرہ بنا دیا تھا اور اسی سبب عوام کی بہت بڑی اکثریت کو یقین تھا کہ ہر دم انصاف کی سربلندی کی ضرورت کا نعرہ لگاتے رہنے والے عمران خان سپریم کورٹ کی جے آئی ٹی رپورٹ‌ دیکھتے ہی اعظم سواتی کو فوری طور پہ لات مارکے اپنی کابینہ سے نکال پھینکنے کا قدم اٹھائیں‌ گے اور اور دو فوجداری قوانین اور ایک دیوانی قانون کے صریح اور ثابت شدہ مجرم پانے جانے والے اس شخص کو فی الفور کٹہرے میں لاکھڑا کریں‌ گے اور حسب قانون سخت سزا دلائیں‌ گے اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو اس کی بربریت کی سرپرستی و تعاؤن کے جرم پہ اسکے نیچے سے تخت لاہور کھینچ لیں گے ۔۔۔۔ مگر عملی طور پہ ہوا اسکے قطعی برعکس اور ان دونوں مجرمین کو کوئی سزا دینا تو دور ،کنٹینر پہ چڑھ کے انصاف کی اہمیت کا گانا گاتے رہتے والے وزیراعظم کی ایماء پہ عدالت میں بھی اور سماجی و سیاسی طور پہ بھی تمام وقت ان دونوں مجرمین کا بھرپور دفاع کیا جاتا رہا اور اس مظلوم خاندان ہی کو مجرم ٹھہرانے کی ہرممکن کوشش کی جاتی رہی اور یوں وہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے اس پہلے ٹیسٹ ہی میں بری طرح ناکام ہوگئے اور دولت کی طاقت کے سامنے ڈھیر ہوجانے اورادنیٰ سیاسی مفادات کے سامنے سجدہ ریز ہوجانے کے اس کھلے مظاہرے کے بعد انکے انصاف پسندی کے سب دعوے ہوا میں اڑ گئے ہیں انکے اس طرح اس وحشت و بربریت کے ثابت شدہ مجرم کا ساتھ دینے سے بلاشبہ نبیء کریم کی اس حدیث کی بھی شدید بیحرمتی کی گئی ہے کہ جسکا حوالہ وہ خود آئے روز اپنی تقریروں اور بیانات میں دیتے نہ تھکتے تھے کہ جس کے مفہوم میں یہ کہا گیا ہے کہ ” تم سے پہلے کی قومیں اس لیئے تباہ ہوئیں کہ وہاں امیر اور طاقتور کے لیئے انصاف و قانون میں امتیاز روا رکھا جاتا تھا “ ۔۔۔ْ

Advertisements
julia rana solicitors london

کیونکہ عمران خان نے جہاں اس حدیث کو اپنی سیاسی مہم کو وزنی بنانے اور عوام کی حمایت حاصل کرنے پہ اکسانے کے لیئے استعمال کیا وہاں دوسری طرف طاقتور مجرموں کا ساتھ دے کر عملاً اس حدیث کے مقصد اور منشاء کا مذاق اڑایا ہے ۔۔۔ اب کون ہے جو انہیں اس شدید عملی توہین پہ کھینچ کے کورٹ لے جائے ، عین اسی کورٹ میں کہ جہاں پہ ان مظلوموں کی داد رسی ہوئی تھی اور ایک غریب خاندان پہ تشدد اور ناجائز قید کرانے پہ اس معاملے کی جانچ کے لیئے فوراً ایک جے آئی ٹی بناڈالی گئی تھی اور جسکی رپورٹ کی روشنی میں سپریم کورٹ نے اس وحشت مآب اعظم سواتی اور اسکا ساتھ دینے والے عثمان بزدار کی سخت سرزنش کی تھی اور اسے وزارت اور عوامی منصب کے لیئے نااہل قرار دینے کی کارروائی شروع کرتے ہوئے اس کے خلاف کیس نیب اور ایف آئی کے حوالے کیا تھا جس پہ اعظم سواتی نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت سے استعفی دینے ہی میں وقتی عافیت تلاش کر لی تھی ۔۔۔ لیکن یہ دراصل یہ عمران خان کا ایک وقتی حربہ تھا تاکہ کمزور حافظے والے عوام کی زود فراموشی کا فائدہ اٹھایا جائے اور ہوا بھی یہی ہے کہ اس واقعے پہ ذرا سی گرد پڑنے کے چند ماہ بعد ہی پھر سے اس سیاسی قارون کے پیسے کی طاقت نے انصاف کی سربلندی کے عزائم کو بہت آرام سے دھول چٹا دی ہے اب کئی ماہ بعد اسی اعظم سواتی کو عمران خان نے چپ چپیتے پھر سے انصاف کے محافظین میں یعنی تحریک انصاف کی کابینہ میں شامل کرلیا ہے اورابکے تو انہیں وزارت بھی پارلیمانی امور کی ملی ہے یعنی ایسا فرد جسے جمہوری آداب زندگی کا سرے سے پتا نہ ہو اور جو قانونی و سماجی امور سے یکسر نابلد ثابت ہوچکا ہو بلکہ انکا قلع قمع کرنے کی کوشوں کا ایک فیصل شدہ مجرم ہو وہ اب اسلامی جمہوری پاکستان کی مجالس قانون ساز کی بہتر کارکردگی کا بااختیار نگراں و ذمہ دار بنادیا گیا ہے اور عین اسی طرح سے وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار بھی اپنی کرسی پہ پورے کبر و نخوت ، سفاکانہ ڈھٹائی کے ساتھ اور شاہ کی ہتھیلی کے سائے میں جمے بیٹھے ہیں ۔۔۔ یوں انصاف خاک بسر ہے اور ہر بڑے حکومتی ایوان سے دربدر ہے ۔۔۔ تو پھر مظلوم نیاز محمد کے ساتھ کھڑے ہوجانے کے بجائے اس پہ پہ ظلم ڈھانے والے اعظم سواتی کے ساتھ کھڑے ہوکے عمران خان نے قوم کو اور مہذب دنیا کو کیا پیغام دیا ہے اور کیا اس سے دنیا بھر میں پاکستان کا امیج ایک ایسی ریاست کے طور پہ نہیں گیا ہو گا کہ جہاں انسانوں اور اقدار کا نہیں پیسے کی طاقت اور اختیار کی دہشت کا راج چلتا ہے اور جہاں کی برسراقتدار جماعت انصاف جیسی مقدس اصطلاح کو محض ملک کے عوام کو ورغلانے اور انکے خواب چرانے کے لیئے استعمال کرنے کی مجرم پائی گئی ہے ۔۔۔ تو پھر ایسی جماعت کے نام سے یہ مقدس لفظ یعنی انصاف مٹا کیوں نہ دیا جائے تاکہ کم ازکم نام کی حد تک تو اس لفظ کی حرمت یوں بیدردی سے پامال ہونے سے بچائی جاسکے۔۔۔؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply