کراچی کا سلگتا آتش فشاں۔۔۔۔۔ داؤد ظفر ندیم

کراچی میں قائم کئے جانے والا امن ایک حقیقی امن ہے یا ایک گہرا سکوت، جس کے اندر ایک گہرا طوفان چھپا ہوا ہے۔ اس کا فیصلہ آنے والے ماہ و سال کریں گے مگر ہم کل خواجہ اظہار کی گرفتاری اور رہائی سے کچھ چونک سا گیا۔ خاص طور پر جب فاروق ستار کے ساتھ بیٹھے لوگوں نے پاکستان کے بارے وہی نعرہ دہرا دیا جو لندن میں بانی متحدہ نے اپنی ایک تقریر میں لگایا تھا۔ یہ نعرہ اصل میں پاکستان کے خلاف نہیں تھا بلکہ اس نعرے کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ لندن والوں سے تعلق ٹوٹا نہیں ہے سلامت ہے۔

ہماری اسٹیبلشمنٹ یہ خیال کرتی ہے کہ کسی شخصیت کو انتظامی اور قانونی کاروائی سے سیاست سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ سہروردی کو باہر نکالنے کے چکر میں مجیب الرحمن کی شخصیت سامنے آئی، بھٹو کی پھانسی کے باوجود بھتو کو سیاست سے غائب نہیں کیا جا سکا۔ بے نظیر اور نواز شریف کو جلاوطن کیا گیا اور ان کی پارٹی کے صدر تبدیل ہوءے ایک پارٹی کی سربراہی مخدوم امین فہیم اور دوسری کی جاوید ہاشمی کے ذمے آئی مگر کیا نواز شریف اور بے نظیر سیاست سے آئوٹ ہوئے۔ پاکستانی سیاست کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ قائد سے بانی کا خطاب دینے سے یہ نتیجہ نکالنا کہ کسی شخصیت کو مائنس کردیا گیا ہے ایک خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے انتظامی اور حساس ادارے سیاسی چالوں اور حکمت عملیوں کا ادراک کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے اور نہ یہ ان کا کام ہے۔ سیاسی لوگ کوئی ٹونٹی ٹونٹی کا میچ نہیں کھیلتے یہ سیاسی حالات کے تحت کیموفلاج ہو جاتے ہیں اور سازگار حالات پر دوبارہ نمودار ہوجاتے ہیں۔

سیاست میں جب سخت حالات درپیش ہون تو سب سے زیادہ ضرورت یہ ہوتی ہے کہ متاثرہ سیاسی گروہ اپنے حلقہ اثر میں یہ بات منوالے کہ وہ اس وقت ایک مظلوم گروہ ہے جس کو کسی بھی طریقے سے اپنا پرامن اور سیاسی ایجنڈا بروئے کار لانے کی گنجائش نہیں دی جا رہی۔ یہ ایک بہت پرانی اور آزمودہ چال ہے۔ عوام کبھی برے وقت میں اپنے لیڈروں اور سیاسی عصبیت کو نہیں چھوڑتی۔ جب یہ خیال اور یہ تاثر عام ہوجائے کہ سیاسی طور پر کسی گروہ اور شخصیت کو محصور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو اس کا ایک ردعمل پیدا ہوتا ہے اور یہ ردعمل بہت خوفناک ہوتا ہے۔

میں اس بات کا سختی سے حامی ہوں کہ کسی سیاسی جماعت کا عسکری ونگ نہ ہو اور کسی شہر میں ٹارگٹ کلر اور سلیپنگ سیل نہ ہوں مگر جب سہولت کاروں کے نام پر سیاسی لوگوں کو پکڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تو بدگمانیاں جنم لیتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنا سیاسی چہرہ الگ رکھتی ہیں ان کو اس طرح کے معاملات میں براہ راست ملوث نہیں کرتیں۔ اس لئے جب آپ انتظامی اور قانونی کاروائی کے نام پر اور سہولت کاری کے الزام میں سیاسی لوگوں کو پکڑتے ہیں تو اس سے ان سیاسی لوگوں کو نقصان نہیں ہوتا بلکہ ان کے سیاسی حمایت کرنے والا ہر شخص اپنی تضحیک دیکھتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 1985 میں جب الذوالفقار کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا تو پی پی پی کا ایک حامی ہونے کی حیثیث سے ہم الذوالفقار سے منسوب ہر واقعے کی توجیح کرتے تھے۔ ہم کو اس وقت قانون کی بالادستی سے مراد یہ لگتا تھا کہ اس سے مراد سیاست سے بھٹو کا نام ختم کرنا ہے۔ اور ہمارے دل میں بھٹو کی محبت مزید بڑھ جاتی تھی۔ قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو خواہ وہ کتنے ہی مقدس اور حساس کیوں نہ ہوں، ہم بہت نفرت سے دیکھا کرتے تھے۔ یہ ایک ایسے نوجوان کا حال تھا جس کا پورا گھرانا بھٹو مخالف تھا اور پی این اے کی تحریک میں سرگرم رہا تھا، وہاں خاندانی طور پر جو پیپلز پارٹی سے منسلک تھے ان کے دل و دماغ میں اس سے کہیں زیادہ نفرت جھلکتی تھی۔ یہ پنجاب کا احوال تھا جہاں حساس ادارون کو بہت عزت اور تکریم دی جاتی ہے۔

ایم کیو ایم کا حال اس سے کہیں مختلف ہے۔ یہ ایک خاص علاقے اور ایک خاص کیمونٹی کی نمائندہ جماعت ہے وہاں کے لوگ اس سارے واقعے کی لسانی اور علاقائی تعبیر بھی کرتے ہیں۔ جب بانی متحدہ کا دبدبہ قائم تھا کراچی میں تحریک انصاف اپنا سیاسی راستہ تراش رہی تھی۔ اور اس کے حامیوں میں اضافہ ہو رہا تھا اب نشتر پارک کے جلسے سے عوام کا یہ پیغام وصول کرلیں کہ اس وقت وہ مظلوموں کے خلاف نہیں جا سکتے۔

سیاسی اور سماجی امور کےماہرین یہ اصول ہمیشہ یاد دلاتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والوں کا کام کسی سیاسی جماعت اور سیاسی گروہ کو دیوار سے لگانا نہیں ہوتا بلکہ دوسری جماعتوں کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے اور یہ ممکن بنانا ہوتا ہے کہ ان مخالفین کو بھی اپنی بات کہنے کا پورا موقع ملے۔ اب یہ ان سیاسی لوگوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف راغب کریں یہ قانون نافذ کرنے کا کام نہیں ہوتا کہ وہ کوئی ڈرائی کلیننگ کا کام شروع کردیں۔ ان کا کام قانون کا موثر نفاذ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تفتیش کے اداروں کو الگ موثر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے یہ قانون نافذکرنے والوں کا کام نہیں کہ وہ تفتیش اور چھان بین کا کام بھی سنھبال لیں۔ اس سے بدگمانیاں اور افواہوں کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے لاپتہ کئے جانے کے علاوہ جو لوگ خود حالات کی سنگینی کی وجہ سے غائب ہوتے ہیں ان کے بارے بھی افواہیں گردش کرنے لگتی ہیں۔ اور جس بات کو آپ امن کہتے ہیں وہ ایک گہرے سکوت کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور جس کو آپ اپنی کامیابی سمجھتے ہیں وہ حقیقت میں ایک ایسا آتش فشاں ہوتا ہے جو بظاہر بہت خاموش اور ٹھنڈا نظر آتا ہے مگر اندر سے سلگتا ہوتا ہے اور کبھی بھی پھٹ سکتا ہے پھر اس کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس لئے گزارش ہے کہ بہت تحمل اور حکمت سے کام لیں سیاست دانوں کو اپنا کام کرنے دیں کسی فضول نعرے سے فوری مشتعل نہ ہوں اس کا جواب انتطامی اور قانونی کاروائی سے دینے کی بجائے سیاسی لوگوں کو جواب دینے دیں۔ آپ ایسے حالات مہیا کریں کہ دوسرے سیاسی لوگ اپنی بات عوام سے منوا سکیں۔ وگرنہ یقین رکھیں کوئی انتظامی اور قانونی کاروائی کسی شخصیت کو سیاست سے نہیں نکال سکی اور نہ نکال سکے گی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply