• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • رائو انوار کے اسٹنٹس اور ایم کیو ایم کا مقدمہ ۔۔۔۔ راشد احمد

رائو انوار کے اسٹنٹس اور ایم کیو ایم کا مقدمہ ۔۔۔۔ راشد احمد

ردعمل کی نفسیات خواہ وہ حکومت کی طرف سے ہو یا عوام کی طرف سے, ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ سیاست کے اپنے اصول وضوابط ہیں جنہیں بعض دفعہ نا چاہتے ہوئے بھی مانا جاتا ہے۔ اگر ان سے انحراف کیا جائے تو نتائج ہمیشہ تباہ کن آتے ہیں۔ ایم کیو ایم بطور ایک سیاسی جماعت ہمیشہ متنازعہ رہی ہے۔ اس کی تعمیر میں تشدد کا عنصر ہمیشہ نمایا ں رہا ہے اور پیپلزپارٹی کی حکومت میں تو تشدد کی یہ لہر نئی بلندیوں پر چلی گئی۔ ہزاروں بے گناہ افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے، تشدد کی لہر نے روشنیوں کے شہر کی رونقیں ماند کر ڈالیں لیکن دہشت گردی کی اس لہر کو سندھ کی حکومت اپنے سیاسی مفاد کی وجہ سے روکنے میں دانستہ ناکام رہی۔

ہرعروج کوزوال آنا چونکہ قانون فطرت ہے تو ایم کیو ایم بھی اس قانون سے باہر نہیں رہی۔ ایک لمبا عرصہ دہشت کی علامت بنے ایم کیو ایم کے بانی لیڈرکی ایک تقریر نے متحدہ کو گویا عرش سے فرش پر لاپٹکا۔ پابندی کی باتیں بھی گردش میں رہیں لیکن ارباب اختیار نے ایک دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے فاروق ستار کو ایک چانس دینے کا سوچا اور یوں ایم کیو ایم پاکستان کا نام سننے میں آیا جس کا دعوی بظاہر یہی ہے کہ لندن سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس دعوی کی صداقت تو بہرحال آنے والے وقتوں میں ظاہر ہوگی لیکن اس دوران ابھی یہ معاملہ کچھ تھما ہی تھا کہ کراچی کے ضلع ملیر کے ایس ایس پی راو انوار سندھ اسمبلی کی اپوزیشن لیڈرخواجہ اظہارالحسن کے گھر پہنچ گئے اور انہیں گرفتار کر لیا۔ اس دوران ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار سمیت خواجہ اظہارالحسن کی اہلیہ نے بھی مداخلت کرنے کی بے سود کوشش کی لیکن خواجہ صاحب کو بہرحال پانچ گھنٹے پولیس کی حراست میں گزارنے پڑے جس کے بعد ان کی رہائی عمل میں آئی۔ اس واقعہ کے پس پردہ حقائق سے قطع نظر جس طرح یہ واقعہ پیش آیا، یہ ایک قابل افسوس امر ہے۔ ایم کیو ایم اس وقت شاید مقبولیت کے لحاظ سے پست ترین سطح پر ہے۔ کراچی میں ہونے والے حالیہ انتخابات نے بھی اس امر کی تصدیق ہے۔ ایم کیو ایم کے آفسز مسمار کئے گئے تو کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا وگرنہ اس سے قبل ایم کیو ایم کی ایک معمولی کال پر پورا شہر بند ہوجاتا تھا جس کا اس وقت ایم کیو ایم شاید سوچ بھی نہیہں سکتی۔ ایسے موقعہ پرخواجہ اظہارالحسن کو جس طرح گرفتار کیا گیا، اس سے ہمدردی کی لہرایم کیو ایم کے حق میں پیدا ہوگی اور ایم کیو ایم ’’مظلومیت کارڈ‘‘ کو کیش کرواسکتی ہے جس سے بہرحال ایم کیو ایم کو ایک متشدد جماعت سے سیاسی جماعت کی طرف لانے کا سفر متاثر ہوگا۔ جب تک ایم کیو ایم الطاف حسین کے زیرسایہ تھی اور شہر بھر میں دندناتی پھرتی تھی تو راو انوار جیسے افسران اپنی جان بچانے کی کوششوں میں تھے، بجائے اس کے کہ عوام کی جان بچائیں اب جبکہ ایم کیو ایم کا زور ٹوٹا ہے تو راو انوار جیسے افسران بھی سلمان خان کی دبنگ سیکوئیل ’’اسٹنٹس‘‘ کرتے پھر رہے ہیں تاکہ کل کلاں الطاف حسین کہہ سکے کہ دیکھو جب میرا سایہ تمہارے سر نہیں تھا تو تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوتا رہا۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ راو انوار جیسے کردار بہرحال الطاف حسین کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں۔ اگر خواجہ اظہارالحسن کے جرائم اتنے سنگین تھے کہ ان کے ہاتھ باندھ کر انہیں گرفتار کرنا ضروری تھا تو پھر پانچ گھنٹے بعد اس ’’دہشت گرد‘‘ کو رہا کیوں کردیا گیا۔ اگر پانچ گھنٹے بعد رہا کرنا ہی مقصد تھا اور پس پردہ مقصد ومطلب ردعمل چیک کرنا تھا تو کیا ہاتھ باندھنے اور گھسیٹنا ضروری تھا۔ یوں لگتا ہے کہ کسی بوکھلائے ہوئے افسر نے اچانک ہی کوئی حکم نامہ جاری کیا اور پھر واپس بھی لے لیا۔ حالانکہ چند دن قبل ہی فاروق ستار کو بھی رینجرز نے حراست میں لیا تھا اور خواجہ اظہار ان کے ساتھ تھے لیکن انہیں گرفتار کرنے کی ضرورت ہی نہ محسوس کی گئی اور فاروق ستار کو نسبتاً باعزت طریقے سے حراست میں لیا گیا۔ اگر یہی طریق خواجہ اظہار کے ساتھ بھی روا رکھا جاتا تو کیا مضائقہ تھا۔ بظاہر یہ معمولی سی باتیں ہیں لیکن عام آدمی پر ان باتوں کا بڑا گہرا اثر پڑتا ہے اور ایم کیو ایم کا ووٹر پہلے ہی عقل سے زیادہ جذبات کے تابع رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایم کیو ایم پاکستان کو جو موقعہ دیا گیا ہے تو اب اس موقعہ سے فائدہ اٹھانے کا موقع بھی ایم کیو ایم کو ملنا چاہئے تاکہ اگر وہ نیک نیتی کے ساتھ سیاسی دھارے میں واپس آنا چاہتے ہیں تو آسکیں۔ یہ چیز جمہوریت کی مضبوطی کا سبب بنی گی لیکن اگر اس صورتحال سے صحیح طرح نہ نبٹا گیا تو نتائج سنگین بھی ہوسکتے ہیں اور تشدد کی لہر بھی آسکتی ہے اس لئے ارباب اختیار کودانشمندی اور حوصلہ کے ساتھ بروئے کار آنا ہوگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”رائو انوار کے اسٹنٹس اور ایم کیو ایم کا مقدمہ ۔۔۔۔ راشد احمد

  1. یہ چیز … میرے عزیز…

    ہزارہا فلموں کا ایک گھسا پٹا مگر مقبول ترین اور محبوبہ کا دل جیتنے میں اکسیر سین ہے.
    راؤ انوار کو شہ دی گئی. پھر اسے معطل کرکے ایم کیوایم پر ہاتھ بھی پھیرنے کی کوشش کی گئی ہے…

    پی پی سرکار خاموش تماشائی نہیں ہے. اس نے اندر کھاتے جو جوڑ توڑ جاری رکھا ہوا ہے اسی میں سے کچھ بلبلے یہ بھی تھے.

    آگے آگےدیکھیے ہوتا ہے کیا….

Leave a Reply