ہمارے نمائندے۔۔۔۔نوشین نقوی

خدا کی قسم میں پاکستانی ہوں اورمیرا مذہب اسلام ہے۔ مجھے دنیا بھر میں سب سے پیارا اپنا دیس لگتا ہے۔ اس دیس کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے والا مجھے اچھا نہیں لگتا(لیکن میں اس کی آنکھ نہیں نکال سکتی کیونکہ خون خرابا مجھے پسند نہیں، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ میں بھی اس کے ملک کو نا پسند کروں جو میرے ملک کو ناپسند کرے) ۔

ہم سب پاکستانی ہیں ۔ہمیں مکمل حق ہے کہ ہم اپنے نمائندے چنیں اور انہیں یہ حق دیں کہ وہ اسمبلی میں بیٹھ کر ہمارے حق کی بات کریں ۔ وہ ایسا نہیں کرتے اپنے فرائض نہیں نبھاتے تو ہم احتجاج کریں اور اگلے انتخابات میں انہیں مسترد کردیں۔ لیکن ایسا ہوا ہی کب ہے ، پاکستان میں، کہ ہم ان کو مسترد کر پائیں جنہوں نے ہمارے حقوق کی لڑائی بہتر انداز میں نہیں لڑی۔

عام پاکستانی کو آئین اور قانون کی کتابوں کی زیادہ سمجھ نہیں ہے۔ ایسا ہم سب عام طور پر سوچتے ہیں۔ لیکن بخداواقعی وہی خوش قسمت ہیں جن کو سمجھ نہیں ہے۔ کیونکہ وہ سوال نہیں اٹھاتے اس لئے خوش قسمتی سے ان پر سوال نہیں اٹھتا۔ کیا وہ پاکستانی ہیں؟ کیا وہ پاکستان سے مخلص ہیں؟ کیا وہ محب وطن ہیں؟ کیا وہ پاکستان کی سلامتی کے لئے جان کی قربانی دے سکتے ہیں ؟ اور جیسے ہی وہ کسی بندوق کے ڈر سے کہتے ہیں، ہاں! ہاں! ہاں! میں اس وطن کے لئے جان کی قربانی دے سکتا ہوں،ٹریگر دبتا ہے اور ان کی جان لے لی جاتی ہے۔لاش پر بیٹھے آدھے لوگ اس کو شہید کہہ کر گولی چلانے والے کو لعنتی اور آدھے غدار کہہ کر گولی سے مرنے والے کو لعنتی کہہ رہے ہوتے ہیں۔

تو بات ہو رہی تھی ہمارے حق کی، ایک عام آدمی کے حق کی۔جس کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کے نمائندے چنے اور انہیں اپنا حق سونپ دیں۔لیکن اب جو ہمارے نمائندوں کے ساتھ ہو رہا ہے اسکو کیا کہیں ؟کہیں بھی کسی کو بھی ہتھکڑی لگا کے پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے۔ کبھی جلاوطنی کا تحفہ سونپ دیا جا تا ہے۔جانے یہ پیغام کس کو دیا جاتا ہے ۔ منتخب ہونے والوں کو، کہ تم ہماری مرضی کے بغیر کچھ نہیں ،ہماری سنو ،ہماری مانو۔ یا منتخب کرنے والوں کو کہ انہیں چنیں جو ہم چننا چاہتے ہیں ورنہ تمہارے چنے ہوئے کو چن دیا جائے گا۔ ہم اپنے منتخب نمائندوں سے شرمندہ ہیں (گرچہ وہ دودھ کے دھلے نہیں،گرچہ مجھ سمیت کسی بھی اصلی محب وطن پاکستانی کو ان سے کوئی ہمدردی نہیں) کیونکہ اس ملک میں پچھلے کچھ عرصے سے جو منتخب نمائندوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کے بعد منتخب کرنے والوں کی شرمندگی ہی بنتی ہے۔

آج کل سوشل میڈیا پر ایک عراقی خاتون پارلیمان کے اس بیان کا کافی چرچا ہے جس میں وہ سعودی سفیرکو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے،”تم ہمیں جمہوریت کا سبق دینا چاہتے ہوحالانکہ تمہارے ہاں آخری انتخابات اس وقت ہوئے جب تم نے رسولﷺ کو قتل کرنے کے لئے ہر قبیلے سے ایک شخص کا انتخاب کیا “۔ کچھ ایسا ہی حال ہمارا ہے کہ ہمیں جمہوریت پامال کرنے والوں سے جمہوریت مضبوط کرنے کی سندلینی پڑتی ہے ۔

یہ ملک میرا ہے ، دین محمد کا ہے، یسین کا ہے ، جوزف کا ہے، روجر کا ہے، آصف کا ہے ، شازیہ کا ہے، سلیم شہزاد کا ہے، دنیش ورما کا ہے،سردار بھگت کا ہے،آمنہ کا ہے ،مریم کا ہے،نواز شریف کا ہے، بلاول کا ہے،آصف زرداری کا ہے،عمران خان کا ہے، فاروق ستار کا ہے،سراج الحق کا ہے،یہاں سب کے رہنے میں ہی سب کا بھلا ہے، اس لئے خدارا ہم سے حب الوطنی کا سوال مت کیجئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(نوشین نقوی امریکا میں مقیم مصنفہ ہیں)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply