ائیر پورٹ اور پردیسی

ائیر پورٹ بھی کیسی جگہ ہے جہاں ایک ہی وقت میں کچھ لوگ رو رہے ہوتے ہیں تو کچھ ہنس بھی رہے ہوتے ہیں۔ ائیر پورٹ پہ آپ کو ہر طرح کی دنیا ملے گی۔

کچھ دن پہلے اسلام آباد ائیر پورٹ پہ جانا ہوا تو وہاں جدہ ، لندن اور مختلف ممالک کی فلائٹس کا روانگی اور آمد کا وقت تھا۔ لندن کی فلائیٹ کے لوگ نیچے جینز اوپر اپرّ شپر پہنے ایسے گھمنڈی سے انداز میں جا رہے تھے جیسے برطانیہ انہی کے آباؤ اجداد نے دریافت کیا تھا اور ساتھ میں جدہ کی فلائیٹ کے مسافروں کو تو ایسے گُور رہے تھے جیسے دو گھنٹے کے Stay کے بعد یہ فلائیٹ ممبئ جا رہی ہو- اور جدہ کی فلائیٹ کے پردیسی بابو شلوار قمیض میں ملبوس چالیس چالیس کلو کے بیگ ساتھ میں بڑا سا ہینڈ کیری آنکھیں نم اور عجیب سی حسرتیں اور اپنوں سے دوری لیے ایسے جا ریے تھے کہ کاش انکو کوئی جانے نہ دے اور یہیں سے گھر لے جائے۔ مگر کون لے جائے گا ؟ وہ جن کو یہ ہر مہینے پیسے بھیجیں گے تو انکا نظامِ زندگی چلے گا گھر میں بوڑھوں کی سانسیں بحال ہوں گی۔

سچ کہا کسی نے کہ یہ پردیس بھی میٹھی قید ہے نہ رہنے کو دل کرے نہ جانے کو، پاکستان کی قدر نہ کرنے والوں کو سعودیہ ، دوبئ یا گلف کے دوسرے برادرز ممالک میں بس زیادہ نہیں چھ چھ مہینے مزدوری کے لیے چھوڑا جائے تو انکی باچھیں باہر آ جائیں گی کہ کیسے ایک پردیسی کفالتیں کٹوا کر ، اقامہ بنوا کر ، ڈانٹ ڈپٹ کھا کر ، روکھی سوکھی پہ گزارا کر کے آپکو زرِ مبادلہ بھیجتا کہ آپ کا ملک کچھوے کی چال چلتے جا رہاہے_

اور دوسری جانب آپ ادھر پاکستان میں نکمے دو جہان کے صبح ماں بہن پر رعب جھاڑ کے اٹھتے تین پراٹھوں کے سرے چڑھ کے ، اپنے منہ سے بڑا مگ چائے کا ٹھونس کے ، کاٹن شاٹن پہن کے ایسے نکلتے ہیں جیسے نواب آف بہاولپور کے نور چشم ہیں_ جب پُوچھو کدھر سے آئے ہو "روٹی کھا کے " اب کدھر جا رہے ہو " روٹی کھانے " سارا سارا دن روٹی سے ٹن ہو کے فیس بک پہ سٹیٹس ڈالتے رہو گے کہ اس ملک نے ہمیں دیا ہی کیا ہے ۔ مراثیوں کے چھوٹے برتن جیسی شکل لے کے کبھی یہ بھی سوچا کہ تو نے اس کو کیا دیا ہے_ اس کی قدر دیکھنی ہے تو ائر پورٹ پہ کھڑے جدہ کے اس پردیسی کی آنکھوں میں دیکھو جو مجھے کچھ دن پہلے نظر آئی-

پاکستان میں ویلے بیٹھے نواب آف بہاولپور کے چشم و چراغ کو یہ پیغام دینا تھا کہ پردیس میں ایک بندہ ذلیل ہوتا ہے تو آپ دس لوگ کھاتے ہو اور اوپر سے بجائے کوئی کام کرنے کے نخرے اور آکڑ بھی ایسے ہے جیسے کہیں اٹھارویں سکیل کی حسینہ میرٹ پہ لگ گئی ہو۔

کُچھ دوستوں کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہ چلو اُن پردیسیوں کو تو اپنا ملک اس لیے چھوڑنا پڑا کہ ہمارے ہاں نااہل حکمران اور ناقص پالیسیاں ایسے ہی کثرت سے پائی جاتی ہیں جیسے فیس بُک پر اب بھی ایم کیو ایم لندن کو ڈیفنڈ کرنے والے پلاسٹک کے دانشور کثرت سے پائے جاتے ہیں۔

یورپ یا لندن آنے جانے والوں کو سی آف کرنے بس ایک دو فیملی ممبر آیا ہوتا جب کے گلف جانے والے بھائیوں کو پانچ چھ لوگ تو معمولی کیس ہے_ اور اگر پردیسی بابُو گاؤں سے ہو تو کوئی بعید نہیں کہ آدھا پِنڈ ورتن ڈالنے چلا آیا ہو۔ گلف جانے والے ایک گاؤں سے آئے ہوئے پردیسی نے جب بورڈنگ پر اپنے سامان کا وزن کیا تو وہ کافی ذیادہ ہونے کی وجہ سے بورڈنگ والے نے جمع کرنے سے انکار کر دیا۔ اب پردیسی بابو نے سامان باہر لا کر سی آف کرنے والوں کے پاس لا کر کھول کر ایسے پھیلایا جیسے سانپ نکالنے والے مداری نے اپنا کھول کے رکھا ہوتا اور آخر پہ اپنی پھکی بیچ کے نکل جاتا ہے۔ ابھی یہ سِین چل ہی رہا تھا کہ اس پردیسی بابُو کے ساتھ آیا ایک دوست بولا……..

" جَنےّ میں تَین آکھیا بھی آ کہ اُٹھاوی کِلو بھی اوکے اے ، اکتری کِلو بھی اوکے اے ، پر تُوں تاں سَینتی اَٹھتری کلو بنائی وداں ، اُکاّ لَمب کڈی وداں"
پردیسی بابُو جو پہلے ہی لوگوں کے دیے ہوئے سامان کی وجہ سے اپنا سامان بھی نکلوا بیٹھا تھا غصے میں دو تین لمبی لمبی گالیاں نکال کے بولا

" ہُن تُوں تاں چُپ کرے آں ، کُج او اندر کم چائی ّودا ، بار تُوں سان کھا گیاں "

میں اور میری دوست سائیڈ پہ کھڑے بہت معزوز ہو رہے تھے- میری دوست مجھے اب جب بھی ملتی تو یہی کہتی کہ "اسمارا تُو تاں اُکاّ لمب کڈی ودی ایں"

اسی لیے کہتے ہیں کہ " سفرکا مزه لینا ہو توساتھ میں سامان کم رکھیں اور زندگی کا مزه لینا ہو تو دل کے ارمان کم رکھیں_"

Advertisements
julia rana solicitors

(اسمارا مُرتضیٰ)

Facebook Comments

اسمارا مرتضیٰ
خاک کے علاوہ میں کیا ہوں یہ تلاش جاری ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply