عید مبارک—- انعام رانا

عید کا تیسرا دن ہے، آج اب تھکاوٹ اتار رہے ہوں گے۔ قربانی کا جانور کچھ پیٹ، کچھ تقسیم اور بہت سا فریزر میں جا چکا ہو گا۔ گوشت کی اس بسنت میں خوب خوب بوٹیاں لوٹ کر اب لیٹے ہوئے شاید یہ حساب کر رہے ہوں کہ کس کے گھر سے گوشت نہیں آیا، کم آیا یا چربی، ہڈی زیادہ والا آیا۔ بس اب اگلی بار ان کو بھی ایسا ہی بھیجیے گا۔ چلیے لیٹے لیٹے کچھ باتیں ہی کر لیں۔

سالوں پرانی بات ہے کہ بقر عید کی آمد آمد تھی۔ میں کامریڈ سے ملنے گیا تو کامریڈ آدھی بوتل ختم کر چکا تھا اور دماغ فلسفیانہ سے ہذیانہ ہونے کا مرحلہ طے کر رہا تھا۔ بات چھڑی عید کی تو یہ مرحلہ بھی با آسانی طے ہوا۔ کامریڈ نے کہا کہ “مذہب عجیب اے سادڈا وی کامریڈ، معصوم جانور مار مار کے خوش ہوندا اے۔ ہمارا سال بھی خون بہا کر شروع ہوتا ہے(محرم) اور ختم بھی خون بہا کر۔ صرف ایک ان دیکھے خدا کو خوش کرنے کیلیے لاکھوں جانور مار دیتے ہیں ظالم۔ اور کامریڈ جس قوم کا بچہ بچہ اشتیاق سے بکرے کی ٹانگیں پکڑ کر اسے کٹوا رہا ہو، وہ کبھی پر امن نہیں ہو سکتی۔ یہ سالے اسی لیے فسادی ہیں کہ ان کو جانور پہ رحم نہیں آتا، تو انسان پہ کیا کریں گے”۔ میں نے کامریڈ کی بھرپور تائید کی کہ واقعی معصوم بکرے کو کاٹنا انتہائی غیر انسانی رویہ ہے۔ کامریڈ نے معصوم بکروں کے غم میں مزید پر درد جملے کہے بلکہ اتنے پر درد ہو گئے کہ مجھے لگا کہیں بکرے کی طرح “میں میں” بھی نہ کرنے لگے۔

اتنے میں کامریڈ کا نشہ عروج پہ جا چکا تھا اور بولا یار بھک لگ گئی اے(بھوک لگ گئی ہے)۔ میں نے کہا آپ بیٹھیں میں کھانا لاتا ہوں۔ جب لا کر میں نے کھانے کے کنٹینر کھولے تو کامریڈ کو جھٹکا لگا۔ احتجاجی لہجے میں بولا، کامریڈ شراب کے بعد دال اور آلو گوبھی؟ ظالم گوشت کے پیسے نہیں تھے؟ اب میں نے پی تھی یا نہیں، البتہ ٹن میں کامریڈ سے زیادہ ہو گیا اور معصوم بکروں کو کامریڈ کے والد کا درجہ دیتے ہوئے کہا کہ ابھی جن ماوں کی بیوگی کا ماتم کر رہے تھے، وہ صرف عید والے دن بکرا کٹنے سے بیوہ ہوتی ہیں؟ کامریڈ تیرا بھاشن سن سن کر مجھے گوشت سے نفرت ہو گئی، اب تو آلو گوبھی ہی کھا۔ اسکے بعد کامریڈ اور میں نے جن مغلضات کا تبادلہ خیال کیا، تاریخ اس کے بارے میں مدہوش ہے۔

یہ قربانی کی رسم بھلے ایک ان دیکھے خدا کیلیے ہو، فقط ایک کہانی کی پیروی ہو، جنت کی خواہش یا پل صراط کا خوف جس سے آپکو بکرے نے گزارنا ہے۔ مگر یہ ایک بہت بڑی انڈسٹری بھی ہے جس سے غریب کا رزق وابستہ ہے۔ ایک دوست کا فیس بک سٹیٹس دیکھا جس میں اعداد و شمار بتاتے تھے کہ قریب ایک ارب جانور قربان ہوتے ہیں دنیا بھر میں۔ اب ان جانوروں کو پالنے والے، آڑھت والے، انکے چارے، انکی ترسیل، ذبیحہ سے وابستہ لوگ، حتی کہ سری پائے بھوننے والے بھی اکثر غریب ہوتے ہیں۔ پھر بھلے کچھ حصہ ہی سہی، غربا میں تقسیم ہوتا ہے۔ سو کامریڈز، پیک لگائیے، تکہ منہ میں ڈالیے اور یہ سوچ کر برداشت کیجیے کہ چلو ایک “بری مذہبی رسم” سے غریبوں کا بھلا ہو رہا ہے۔

اور صاحبو، اگر آپ وہ نیک لوگ ہیں جو اپنے رب کی رضا کیلیے یہ قربانی کر رہے ہیں، تو سوچیے کہ کیا واقعی رب کی رضا ہی واحد مقصد ہے؟ کیا قربانی فقط ایک “سٹیٹس سمبل” تو نہیں بن گئی؟ کہیں آپ نے اونچا لمبا بکرا یا مہنگی گائے اس لیے تو نہیں خریدی کہ آس پاس “واہ حاجی صاحب، بھئی شیخ صاحب کی گائے کی کیا بات یا رانا صاحب کا بکرا تو سوا لاکھ کا آیا”، کی آواز سنیں؟

ہمارے ایک سیشن جج صاحب ہائی کورٹ کے سب ججوں کے گھر پانچ پانچ کلو گوشت عید کے روز جج ساب کے گھٹنوں سے عید ملتے ہوئے پہنچاتے تھے۔ میں نے ایک بار اپنے والد کو کہا کہ بکرا تو ان کے گھر بھی ایک ہی تھا، گوشت اتنا کیسے نکل آیا؟ میرے سخت گیر والد نے بمشکل مسکراہٹ روکتے ہوئے کہا، زیادہ سوال نہیں کرتے اور منہ موڑ لیا۔ تو سوچیئے کہیں قربانی پبلک ریلیشننگ کا ایک زریعہ تو نہیں بن گئی آپ کے لیے؟

عرب کے صحراؤں میں گوشت ایک قیمتی شے تھی اور روز ملتی بھی کب تھی۔ سال بعد پالے ہوئے جانور کو اپنے رب کی رضا کیلیے قربان کرنا اور پھر دو تہائی رشتہ داروں اور غربا میں تقسیم کرنا معاشرے کو یوں جوڑ دیتا تھا کہ اہل ثروت، اہل حسرت کیلیے باعث خوشی بن جاتے تھے۔ آج بھی آپکے آس پاس بہت سے ایسے لوگ ہیں جو گوشت سال میں دو چار بار ہی کھاتے ہوں گے۔ آپ نے بہت سے مہمان دو دن بھگتا لیے، مہمان بن بھی لیے۔ اگر قربانی واقعی اللہ کیلیے تھی، تو فریزر کھولیے اور تیسرا دن ختم ہونے سے پہلے پہلے اللہ کے مہمانوں کو دے دیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ سب کو عید مبارک۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”عید مبارک—- انعام رانا

  1. آپ کے مخصوص انداز میں ایک معاشرتی کجی کی نشاندہی اور پھر اس کی اصلاح کیلئے تلقین مگر شگفتگی کے ساتھ. اللہ پاک اپ کو سلامت رکھیں. شکریہ.

Leave a Reply to سجاد Cancel reply