مر جاؤ ۔۔۔۔۔ محمد فیاض حسرت

وہ جو یہ اُمید رکھے  ہوئے ہیں کہ اس بستی میں بھی اچھے دن آئیں گے اُن سے بڑا احمق اور کوئی نہیں، واللہ نہیں ۔ اب تم جو یہ کہو گے  یہ سراسر غلط کہہ دیا میں نے ،تو سنو !
جس بستی میں قانون کی کئی قسمیں ہو ں ، جس بستی میں انصاف لفظ بھی اجنبی ہو ، جس بستی میں نا انصافیاں عروج پہ ہوں ، جس بستی میں انسانوں کی کوئی قدر نہ ہو ، جس بستی میں قتل و غارت ہو ، جس بستی میں انسانی جاں کو  کوئی اماں نہ ہو ، جس بستی کی فضا آہوں  اور سسکیوں سے بھری ہو، جس بستی کی فضا میں چیخ و پکار ہو ، جس بستی کی فضا ناحق لوگوں کے خوں سے رنگی ہو ، جس بستی میں انسانوں بارے سوچنا جرم ہو، جس بستی میں حق کے لیے اٹھنا جرم ہو ، جس بستی میں بات کرنا جرم ہو ، جس بستی میں اپنے حق کو حق سمجھنا جرم ہو ، جس بستی کا ماحول لکھنے والو کو اس حد تک مجبور کر گزرے کہ وہ یوں لکھیں ۔
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پہ بند ہیں
دیکھنا حد نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے کیسے بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لیے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس کچھ اور بھی کا تذکرہ بھی جرم ہے
اے خداوندان ایوان عقائد
اے ہنر مندان آئین و سیاست
زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہیے
مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیے ( احمد ندیم قاسمی )

بات یہیں  تک نہیں رہتی ، سنو ! سنو! جس بستی میں لوگ جینے کا مقصد بھول چکے ہوں ، جس بستی میں لوگ خدا سے نہیں لوگوں سے ڈرتے ہوں ، جس بستی میں ہر وہ چیز ہوتی ہو جو خدا کو ناپسند ہو ، جس بستی کے لوگ ہر طرف ظلم دیکھ دیکھ کر بے حس ہو چکے ہوں ، جس بستی میں ضمیرِ انساں مر چکا ، جس بستی میں احساسِ انساں مر کھپ چکا ہو، جس بستی میں ایمانداری نہ رہے ، جس بستی میں وفاداری نہ رہے ، جس بستی میں دیانتداری نہ رہے ، جو بستی اہلِ دانش کو یوں مجبور کرے کہ وہ بے چارگی میں لکھیں  :
جس دیس میں ماؤں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں
جس دیس سے قاتل غنڈوں کو اشرار چھڑا کر لے جائیں
جس دیس کی کوٹ کچہری میں انصاف ٹکوں میں بکتا ھو
جس دیس کا منشی قا ضی بھی مجرم سے پوچھ کے لکھتا ھو
جس دیس کے چپے چپے پر پولیس کے ناکے لگتے ھوں
جس دیس کے مندر مسجد میں ہر روز دھما کے ھوتے ھوں
جس دیس میں جان کے رکھوالے خود جانیں لیں معصوموں کی
جس دیس کے عادل بہرے ھوں آہیں نہ سنیں مظلوموں کی
جس دیس کی گلیوں کوچوں میں ہر سمت فحاشی پھیلی ھو
جس دیس میں بنت ھوا کی چادر بھی داغ سے میلی ھو
جس دیس میں آٹے چینی کا بحران فلک تک جا پہنچے
جس دیس میں بجلی پانی کا بحران فلک تک جا پہنچے
جس دیس کے عہدے داروں سے عہدے نہ سنبھالے جاتے ھوں
جس دیس کے سادہ لو ح انسان باتوں سے ٹالے جاتے ھوں
اس دیس کے رہنے والوں پر ہتھیار اٹھانا واجب ہے
اس دیس کے ھر اک لیڈر کو سولی پہ چھڑھانا واجب ھے ( فیض احمد فیض )

اب بھی بات یہیں  تک نہیں رہتی ، اب جو تم یہ کہو گے کہ اچھے کی اُمید رکھنی چاہیے تو سنو ! خدا کا قانون ہے جب بھی کوئی قوم بدکاریوں و بد عملیوں سے باز نہیں آتی توخدا اُسے کھلی چھوٹ دے دیتا ہے اور پھر اس کے لیے خدا کی پھٹکار منتظر رہتی ہے ۔خدا اُس قوم پر دردناک عذاب نازل کر دیتا ہے یا پھر اُس قوم پر کوئی اور قوم مسلط کر دیتا ہے ۔ اب تم جو یہ کہو گے  بالکل ایسے ہی پرانی قوموں کی تاریخ ملتی ہے مگر اس قوم پر عذاب نازل نہیں ہو گا تو سنو ! یہ جو تم نے میری زبانی المیہ سنا یہ کسی آفت سے کم ہے ؟
سنو ! جس بستی کا ماحول مجھ جیسے عام طالبِ علم کو یہ کہنے پر اکسائے کہ :
سنائے سچ کوئی ، تو سانس بھی آہستہ لیتا ہوں
کہیں مجھ پر ذرا بھی شک ہوا ، تو مارا جاؤں گا
کسی سے کوئی ، اب کیوں میرے مرنے کا سبب پوچھے
یہ جب طے تھا کہ میں نے سچ کہا ، تو مارا جاؤں گا
اٹھا کے میں قدم بچتا بھی کیسے ؟جانتا تھا میں
مرے حق میں مرا لب بھی ہلا تو مارا جاؤں گا
سب آ کے لاش پر میری اب آنسو کیوں بہاتے ہو ؟
کہا تو تھا کہ میں ،حق پر رہا تو مارا جاؤں گا
یہاں آزاد تو ہیں سب ؟ نہ جانے کیوں مجھے ڈر ہے !
کہ آزادی سمجھ کر میں جِیا، تو مارا جاؤں گا
پِیے جاتے ہیں واں حسرت ، لہو انساں ہی انساں کا
میں بھولے سے بھی اُس جانب گیا ، تو مارا جاؤ ں گا

Advertisements
julia rana solicitors london

کون نہیں چاہتا کہ اس بستی میں امن و اماں ہو، اس بستی میں عدل و انصاف ہو ، اس بستی میں ہر کوئی اپنی مرضی سے جیے ، یقیناً  ایسا کوئی نہیں چاہتا لیکن اگر اس بستی کا ہر فرد کسی اور کے کیوں کو چھوڑ کر اپنے بارے فکر کرنا شروع کردے کہ “وہ” نہیں برا میں ہو بس میرا مقصد اس برے کو اچھا بنانا ہے ، اُس نے نہیں دیکھنا کہ لوگوں کے کرنے سے کسے کیا فرق پڑتا اُس نے دیکھنا ہے میرے کہنے یا کرنے سے لوگوں کو کیا فرق پڑتا ہے۔ یقیناً  اس کا اثر براہِ راست پوری بستی پر پڑے گا ، یقینا ً جلد اس بستی میں ہر طرح کی مثالی فضا قائم ہو گی ۔
سنو! پریشان مت ہو ، یہ سن کے جا سکتے ہو تم ، وہ جو یہ اُمید رکھیں ہوئے ہیں کہ اس بستی میں بھی اچھے دن آئیں گے اُن سے بڑا عقلمند و اچھا آدمی اور کوئی نہیں، واللہ نہیں۔

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply