• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سندھی ،پنجابی قوم پرستوں کا بیانیہ۔۔۔سلیم احسن

سندھی ،پنجابی قوم پرستوں کا بیانیہ۔۔۔سلیم احسن

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کم از کم سوشل میڈیا پر کراچی، اور شاید حیدرآباد میں بھی، لوگوں کی لسانی بنیاد پر باقائدہ صف آرائی اور صف بندی ہو چکی ہے. اس حوالے سے وہ صورت حال آ گئی ہے جسے انگریزی میں
zero sum game (زیرو سم گیم) کہتے ہیں. اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہر فریق دوسرے فریق کے ہر فائدے کو لازمی طور پر اپنا نقصان قرار دے اور اس کے ہر نقصان کو اپنا فائدہ سمجھے. اس کیفیت میں پرامن بقا ئے باہمی یا تعاون کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں.

فیس بک پر اردو بولنے والوں اور سندھیوں کے درمیان اس زیرو سم گیم کی وجہ سے یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر کوئی صاحب اردو بولنے والوں کی کسی بات پر تنقید کر دیں یا انہیں کسی خطرے سے آگاہ کر دیں تو بہت سے سندھی بھائی اس کی تائید کرتے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں اردو بولنے والے اس کو جھوٹا ثابت کرنے یا اس کی ذاتی توہین پر اتر آتے ہیں. اس دوران وہ یہ معلوم کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ جو بات کہی گئی تھی وہ درست ہے بھی یا نہیں.

اس حوالے سے میں نے محسوس کیا ہے کہ ان دونوں قسم کے لوگوں کے بیانیے بالکل الگ ہیں اور ان میں کہیں کوئی بات مشترک نہیں ہے اس لیے ان کے درمیان کوئی بامعنی مکالمہ نہیں ہو پاتا، اور ہر مرتبہ بات ایک دوسرے کے ساتھ ذاتی توہین  اور گالیوں کی ٹیبل ٹینس ہو کر رہ جاتی ہے جس میں اگر ایک فریق دوسرے کی تذلیل کرتا ہے تو دوسرے کو اسی طرح  وقت جواب دینا ہوتا ہے اور پھر پہلے کو جوابی توہین کا جواب اس سے بڑی گالی سے دینا لازم ہو جاتا ہے.

آئیے ان دونوں کے بیانیوں پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں. میں یہاں ان کے بیانیے بیان کروں گا، یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ درست ہیں یا غلط.

اردو بولنے والوں کا بیانیہ اس یقین کے گرد گھومتا ہے کہ پاکستان اردو بولنے والوں نے بنایا تھا. اس لیے آج کے اردو بولنے والے ‘بانیان پاکستان کی اولاد’ ہیں (چاہے وہ منہ سے نہ کہیں مگر وہ بانیان پاکستان کی اولاد ہونے کے ناطے پاکستان میں خصوصی سلوک کی توقع کرتے ہیں) جب وہ خود کو بانیان پاکستان کی اولاد سمجھتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ان میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ باقی پاکستانیوں کا قیام پاکستان میں کوئی کردار نہیں تھا. وہ ایک رات سوئے تو ہندوستانی تھے اور اگلی صبح اٹھے تو پاکستانی ہو چکے تھے. اس کے بعد، یہ بات ان کو گھٹی میں پلا دی جاتی ہے کہ پاکستان کے شروع کے دنوں میں مہاجروں کا اثر رسوخ بہت تھا، پھر مقامی لوگوں نے ان کا زور توڑنے کے لیے سازشیں شروع کر دیں کبھی پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے پنجاب میں منتقل کر دیا اور کبھی 303 مہاجر سول سرونٹس کو نوکری سے نکال دیا. اور اب صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ قومی امور میں مہاجروں کا زور پوری طرح ٹوٹ چکا ہے اور “منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے”. کہاں تو غیر منقسم ہندوستان میں گنگا جمنا کے علاقے کے مسلمان پورے برصغیر کے مسلمانوں کی علامت سمجھے جاتے تھے اور کہاں یہ صورت حال کہ پاکستان کے لوگوں کی نمائندگی کے حوالے سے پنجابی،پختون، سندھی اور بلوچی لوگوں کو پیش کیا جاتا ہے اور اس میں ‘پاکستان بنانے والوں’ کی نمائندگی نہیں ہوتی.

ان سب چیزوں سے بڑھ کر جو چیز انہیں سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے وہ ہے کوٹا سسٹم. پورے پاکستان میں جو کوٹا سسٹم نافذ ہے اس میں صرف سندھ میں دیہی اور شہری کوٹوں کی تقسیم ہے. ان کی گھٹی میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ یہ تقسیم خاص طور پر ان کو زندگی کی دوڑ میں اوروں سے پیچھے کرنے کے لیے متعارف کروائی گئی تھی اور بقول ان کے ‘اگر یہ اتنی ہی اچھی چیز ہے تو باقی صوبوں کو اس سے کیوں محروم رکھا گیا ہے’

اب ذرا دوسرا بیانیہ دیکھ لیتے ہیں. یہ بھی میں نے فیس بک پر سندھی اور پنجابی نسل پرستوں کی پوسٹس پڑھ کر اخذ کیا ہے.

ان قوم پرستوں کا ماننا ہے کہ ان کی ‘قوموں’ کی ہزاروں سالوں پر محیط تاریخیں ہیں. یہاں کے باسی ہزاروں سال سے اپنے علاقوں میں رہ رہے ہیں. ان کی اپنی اپنی زبانیں ہیں جو ہزاروں سال پرانی ہیں، ان کا ماننا ہے کہ ان کی زبانوں میں بہت اعلٰی پائے کا ادب پایا جاتا ہے، ان کی پوری تہذیبیں ہیں جو منفرد ہیں اور وہ اپنی زمین، اپنی زبان، اپنی تاریخ، اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت پر فخر کرتے ہیں اور اسے کسی طرح اردو اور گنگا جمنا علاقے کی تہذیب سے کم نہیں سمجھتے.

ان کا ماننا ہے کہ آج سے ستر سال پہلے گنگا جمنا تہذیب والوں نے سازش کر کے اور اسلام کا نام استعمال کر کے ان کی قدیم تہذیبوں کو، تین اتنی ہی پرانی دوسری تہذیبوں کے ساتھ مصنوعی طور پر نتھی کر کے ایک نیا ملک بنا دیا اور پھر لاکھوں کی تعداد میں وہ خود اپنے خاندانوں کے ساتھ آ کر ہمارے علاقوں میں مستقلاً آباد ہو گئے. ان کی پوسٹس پڑھ کر مجھے لگتا ہے کہ ان کے دل میں اس بات پر بھی بہت غصہ ہے کہ یو پی سی بی سے آنے والوں نے باوجود اس کے کہ ان کا تعلق نئے ملک کے کسی علاقے سے نہیں تھا، پاکستان پر یہ کہہ کر مالکانہ حقوق جتانا شروع کر دیے کہ پاکستان ہم نے بنایا ہے. اس کے بعد انہوں نے، جنہیں یہاں آئے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے تھے، ہمیں بتانا شروع کر دیا کہ پاکستانیت کیا ہوتی ہے. اور نہ صرف یہ کہ وہ ہم میں ضم نہیں ہوئے اور ہماری ہزاروں سال پرانی زبان اور تہذیب نہیں اپنائی، بلکہ ہم پر پاکستانیت کے نام پر اپنی زبان اردو تھونپ دی جب کہ یہ زبان ہماری زبانوں جتنی قدیم نہیں ہے. اور پاکستانیت کے نام پر چاہتے ہیں کہ یہاں کی مقامی تہذیبیں اپنی انفرادی شناختیں چھوڑ کر آپس میں ضم ہو کر ایک پاکستانی تہذیب بن جائیں جس میں باہر سے آنے والوں کی تہذیب کا رنگ جھلکتا ہو.

قطع نظر اس بات کے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط آپ بتائیں کہ ان دو بیانیوں میں کون سی بات مشترک ہے؟ کہاں سے آپ وہ مقام لا سکتے ہیں جہاں سے ان کے درمیان مکالمہ شروع کیا جا سکے؟

یہ دونوں بیانیے بالکل انتہاؤں پر پوزیشن اپنائے ہوئے ہیں، یہ ایک دوسرے کے جذبات کی طرف سے مجرمانہ اندھے پن پر مبنی اور انتہا درجے پر توہین آمیز ہیں. دونوں کے دونوں.

مگر مسئلے کی جڑ کو سمجھے بغیر اس کو نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے. اس سارے مسئلے کی ابتدا 1940 کے عشرے میں ہوئی.
اس دور کے مخصوص حالات میں جب انتہائی جذباتی انداز میں صرف مسلمان ہونے کی پہچان فوکس میں تھی، بر صغیر کے شمالی حصے میں رہنے والے مسلمانوں نے اس ایک پہچان کے حوالے سے کچھ ناقابل واپسی اور ناقابل تنسیخ اقدامات اٹھا لیے. ان میں سے تین قابل ذکر ہیں.

پہلا تھا بر صغیر کی تقسیم اور پاکستان نام کے ملک کا قیام. دوسرا اقدام تھا شمالی ہند میں ان علاقوں سے جو پاکستان میں شامل نہیں ہونا تھے تعلق رکھنے والے بہت سے مسلمانوں کا اپنے پورے پورے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان چلے جانا. اور تیسرا اہم قدم ان مسلمانوں نے اٹھایا جو ان علاقوں سے تعلق رکھتے تھے جو پاکستان میں شامل ہوئے تھے. ان لوگوں نے پاکستان ہجرت کرکے آنے والوں کو کھلے دل سے قبول کیا اور اپنے گلی محلوں میں بسنے دیا۔

نہ ‘گنگا جمنا والوں’ نے اس بات پر غور کیا کہ جس ملک کے بنانے کی تحریک وہ چلا رہے ہیں وہ ان کے آبائی علاقوں میں واقع نہیں ہوگا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اس زمانے میں ہندوستان کے مسلمان اکابرین کے ذہن میں یہ تصور تھا کہ ہم بھی مسلمان ہیں اور وہ بھی مسلمان ہیں تو وہ بھی ہمارے جیسے ہوں گے. وہاں کا ماحول اور ثقافت اور رہن سہن یو پی جیسا ہی ہو گا اس لیے وہ نئی جگہ پر بھی اجنبی نہیں ہوں گے. اس لیے ہم جو مسلمانان ہند کے لیے ملک بنانے کی تحریک چلا رہے ہیں وہ ہم سب کے لیے ہے. چناں چہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ ملک ہمارے اپنے آبائی علاقوں میں بنتا ہے یا نہیں، اس لیے کہ بننے والا ملک تمام مسلمانوں کے لیے ہوگا اس میں کوئی کسی سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم کہاں کے ہو. نہ ہی وہاں دوسرے علاقوں کے لوگوں کو ناپسند کیا جائے گا بلکہ اس میں سب مسلمان مسلمان بھائی بھائی کے اصول کے تحت آپس میں شیر و شکر ہو کر رہیں گے۔

نہ اس طرف ان کا دھیان گیا کہ وہ جس سرزمین پر ‘اپنا’ ملک بنا ہیں وہ کوئی بے آباد ویرانہ نہیں ہے. وہاں پہلے سے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں، بلکہ اگر ملک بن گیا تو مقامی آبادی ہی اکثریت میں ہو گی. نہ یہ کہ جہاں جا رہے ہیں وہاں قبول بھی کیے جائیں گے یا نہیں. (نہ قبول کیے جانے کے امکان پر ان کا دھیان ہی نہیں گیا)۔ نہ ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ جہاں جا رہے ہیں وہاں کی زبان اور ثقافت اور تہذیب الگ ہو سکتی ہے۔ (الگ کیسے ہو گی، آخر کو وہ بھی مسلمان ہیں، اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی ثقافت یو پی کی ثقافت ہے اور مسلمانوں کی زبان اردو ہے)۔ اسی طرح اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر آنے والوں نے شاید سوچا بھی نہیں کہ واپس آبائی علاقوں میں جانا نصیب بھی ہوگا یا نہیں. وہ بس اٹھے اور ‘اپنے ملک’ میں ‘اپنے مسلمان بھائی بہنوں’ کے درمیان رہنے کے لیے پاکستان چلے آئے. وہ یہاں آ کر بس گئے اور دل و جان سے اس کی خدمت کی۔ جو پاکستان ہجرت کر کے آئے، ان میں سے جو شادی شدہ تھے ان میں سے بہت سوں کی اولادیں یہاں پیدا ہوئیں، جو ہجرت کے وقت شادی شدہ نہیں تھے انہوں نے پاکستان آنے کے بعد شادیاں کیں اور شادیوں کے بعد پاکستان میں ہی رہے اور ان کی اولادیں یہاں پیدا ہوئیں۔ اس کے بعد پاکستان میں پیدا ہونے والے افراد نے یہاں شادیاں کیں اور ان کی اولادیں یہاں پیدا ہوئیں اور ان اولادوں کی اولادوں کی شادیاں بھی پاکستان میں ہو رہی ہیں اور ان کی اولاد یہاں پیدا ہو رہی ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ 14 اگست 1947 کے بعد کسی ایسے شخص کے جس نے ہجرت کی ہو یا اس کی اولاد یا اولاد کی اولاد کے کتنے جنازوں کو دفن ہونے کے لیے پاکستان سے بھارت لے جایا گیا ہو۔

وہاں سے آنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان کی تھی جن کے علاقوں میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے تھے، اور وہ بڑی مشکل سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی جانیں بچا کر پاکستان پہنچے تھے۔ بہت سارے لوگ راستے میں مار دیے گئے، بہت سے لوگوں کو راستے میں لوٹ لیا گیا اور وہ لٹے پٹے کسما پرسی کے عالم میں یہاں پہنچے۔ مگر گنگا جمنا کے علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والوں میں ایک بہت بڑی تعداد ان کی بھی تھی جو مجبوری میں جان بچانے کے لیے یا لٹ پٹ کر پاکستان نہیں آ‎ئے تھے بلکہ اپنے گھر میں محفوظ ہونے کے باوجود، اپنی خوشی سے، بقائمی ہوش و حواس اصولی فیصلہ کر کے مسلمانوں کے ملک میں رہنے کے لیے آئے تھے۔ ان میں سے بہت سوں نے اپنے گھر اور سامان وغیرہ بیچ کر ہجرت کی اور موناباو اور کھوکھراپار کے نسبتاً محفوظ راستے سے آئے۔ میرے اپنے گھر والے ایک نظریاتی فیصلہ کر کے اسی طرح آئے تھے۔

اوپر والی ساری باتیں اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ لوگ وہاں سے اس علاقے پر قبضہ کرنے نہیں آئے تھے، اور نہ ہی یہاں آنے کا مقصد ان علاقوں میں اپنی بالادستی قائم کرنا تھا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ 1930 اور 1940 کے عشروں میں ‘گنگا جمنا والوں’ کی اشرافیہ ایک tunnel vision کے ساتھ انگریزوں اور ہندوؤں سے مسلمانوں کے لیے ایک ایسا ملک بنانے کی جد و حہد کر رہی تھی جو تاریخ میں کبھی وجود نہیں رکھتا تھا۔ میرے ایک پنجابی قوم پرست کرم فرما نے تو یہاں تک فیس بک پر لکھا ہے کہ پنجاب میں مسلم سکھ فسادات بھی یو پی، سی پی والوں نے کروائے تھے تاکہ پنجابیوں کو آپس کی لڑائی کی وجہ سے اتنا کمزور کر دیا جائے کہ پاکستان میں یوپی والے راج کر سکیں اور اپنی پسند کا نظام نافذ کر سکیں۔ میرا کہنا ہے کہ اس دور میں اور ایسی مصروفیت میں اتنی سفاکانہ پلاننگ کرنا کہ پنجاب میں فسادات کروا کر ایسے حالات پیدا کر دو کہ بعد میں نئے قائم ہونے والے ملک میں اپنی پسند کا نظام قائم کیا جا سکے ذرا بعید القیاس لگتا ہے۔ ہمیں کچھ تو حسن ظن رکھنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہوا تھا کہ وہ ننگے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھے ننگی تلواریں ہاتھ میں لیے آئے ہوں اور یہاں آتے ہی مقامی لوگوں کا اس طرح قتل عام کر کے ان کی زبانیں،ثقافتیں اور تہذیبیں ختم کر دی ہوں جیسے گوروں نے امریکا میں ریڈ انڈینس کے ساتھ کیا تھا۔ انہوں نے تو تقسیم ہند کے Terms of reference کے تحت ہجرت کی تھی. اور آنے کے بعد انہوں نے نوزائدہ ملک کو اپنا مان کر اسے انتہائی مشکل حالات میں چلانے اور استحکام دینے میں بھرپور کردار ادا کیا.

اسی طرح پاکستان کے علاقوں میں پہلے سے رہنے والوں نے آنے والوں کا استقبال کرتے وقت یہ نہیں سوچا کہ اگر یہ لوگ یہاں بس گئے تو ان کی اولادیں اور اولادوں کی اولادیں اور ان کی اولادیں بھی یہاں پیدا ہوں گی. پھر وہ پاکستان کے وسائل کے حصول کی دوڑ میں ہمیشہ کے لیے ان کی اولادوں اور اولادوں کی اولادوں کے حریف بنے رہیں گے. انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ آنے والوں کی مادری زبان وہ ہے جو نئے ملک کی قومی زبان قرار دے دی جائے گی، اور ان کی تہذیب اور ثقافت ہم سے مختلف ہے، تو کہیں ان کی زبان اور ثقافت سے ہماری زبان اور ثقافت خطرے میں تو نہیں پڑ جائے گی.

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پاکستان کو بنانا، یا لوگوں کا بڑے پیمانے پر ہجرت کر کے پاکستان چلے آنا یا آنے والوں کو آسانی سے بسنے دینا بیوقوفی تھی. یا یہ غلط فیصلے تھے. میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اس وقت جو حالات پیدا کر دیے گئے تھے ان میں اس کے سوا کوئی اور فیصلہ ممکن نہیں رہا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان Terms of reference پر آپ کے بزرگوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا. اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اب ہو چکا اور اسے عمل پزیر ہوئے ستر برس بیت چکے ہیں اور اس دوران تین نسلیں اس نئے انتظام کے تحت پیدا ہو چکی ہیں. اس لیے اب اس قسم کے سوالات کے لیے دیر ہو چکی ہے. آج کی نسل کو ایک ایسا تکمیل شدہ عمل ورثے میں ملا ہے جس کو وہ undo کا بٹن دبا کر ایسی صورت حال نہیں پیدا کر سکتے کہ سال تو 2018 ہی ہو مگر دنیا ایسی ہو کہ جیسے اگست 1947 میں برصغیر تقسیم نہ ہوا ہوتا اور لوگوں نے ہجرت نہ کی ہو. نہ ہی یہ مناسب ہو گا کہ پاکستان کی بساط لپیٹ دینے کی کوشش کی جائے. اس ملک کو بنے ہوئے 70 سال سے اوپر ہو گئے ہیں اور اس کی آبادی 22 یا 23 کروڑ ہے. اتنی بڑی آبادی میں کتنے ہوں گے جن کے مفادات اس سے وابستہ ہوں گے اور وہ اپنے مفادات پر حرف نہیں آنے دیں گے. اور کتنے ہوں گے جو واقعی پاکستان سے محبت کرتے ہوں گے اور اس کی حفاظت کرنا چاہیں گے. 1947 میں جب پاکستان اور بھارت دو الگ الگ ملک بنے تھے تب بر صغیر کی کل آبادی تقریباً 39 کروڑتھی اور کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا اس میں سے کتنے لوگ فسادات میں مارے گئے تھے اور کتنی خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں، صرف اتنا جانتے ہیں کہ تقریباً ڈیڑھ کروڑ لوگ بے گھر ہوئے تھے. آج بھارت اور پاکستان کی مشترکہ آبادی ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے اور لوگوں کے پاس ان دنوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہلک اسلحہ ہے۔ اگر اس دور میں اس قسم کے اقدام کی کوشش کی گئی تو کتنی تباہی ہو گی اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔

جب ایک ملک میں رہنا ہے تو کوئی نہ کوئی درمیانی راستہ نکالنا پڑے گا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب دونوں فریق اپنے تکبر کو قابو میں رکھیں اور اس چیز کو تسلیم کریں کہ دوسرا فریق ایک حقیقت ہے، وہ ہمارے اسے ناپسند کرنے کی وجہ سے اپنے پورے گروپ سمیت غائب نہیں ہو جائے گا، اور نہ ہی وہ اپنے جینے کے حق اور مفادات سے ہماری ان کے لیے نفرت کی وجہ سے دست بردار ہو گا. دونوں کو ایک سرزمین پر ہی رہنا ہے. دونوں فریقوں کو اسی ملک میں روٹی، کپڑا اور مکان چاہیے، وہ پاکستان میں ہی شادیاں کریں گے. یہاں ہی اولادیں پیدا کریں گے. یہاں ہی اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا انتظام کریں گے. یہاں ہی ان کے روزگار کا بندوبست کریں گے. یہاں ہی ان کی شادیاں کریں گے. یہاں یہ اپنی اولادوں کی اولاد کو گود میں کھلائیں گے اور یہاں ہی مرنے کے بعد دفن ہوں گے؛ دوسرے فریق کو یہ اچھا لگے یا برا.

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ کیا خود کو، اپنی اولادوں کو اور اپنی اولادوں کی اولادوں کو یہی اشتعال اور نفرت سے بھرا ماحول مستقلاً دیے رہنا ہے، یا سب کے لیے کچھ نارمل ماحول بہتر رہے گا؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”سندھی ،پنجابی قوم پرستوں کا بیانیہ۔۔۔سلیم احسن

Leave a Reply