• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • چندہ مانگنا چھوڑئیے اور ملک پر حکمرانی کرنا شروع کیجئے۔۔۔۔۔۔۔حصّہ اول/ غیور شاہ ترمذی

چندہ مانگنا چھوڑئیے اور ملک پر حکمرانی کرنا شروع کیجئے۔۔۔۔۔۔۔حصّہ اول/ غیور شاہ ترمذی

راقم کے استاد محترم سید زیدی فرماتے ہیں کہ یہ طےکرنا فی الحال بہت مشکل ہے کہ چندہ جمع کرنا اچھی بات ہے کہ بری بات ہے، جائز ہے یا ناجائز ہے، اسلامی ہے یا غیر اسلامی ہے، شرعی ہے یا غیر شرعی ہے، عربی ہے یا عجمی ہے، پاکستانی ہے یا غیر پاکستانی ہے، مقامی ہے یا مہاجر ہے۔ اور تو اور اگر کبھی ڈھونڈنا شروع کریں تو بھی یہ سراغ نہیں مل سکے گا کہ دنیا میں سب سے پہلے چندہ کس نے مانگا اور مانگا تو کس کے لئے مانگا اور کیا اسے چندہ ملا اور اگر ملا تو کتنا ملا، وغیرہ وغیرہ؟۔ اِس چندے سے اُس نے تعمیری کام کیا (جیسا کہ ہسپتال، اسکول، غریبوں کے لئے گھر وغیرہ بنانا) یا تخریبی کام کیا (مثلاً دہشت گردی کے لئے غریبوں کو اللہ پاک کی اصلی جنت کی جعلی 130 فٹ والی حوروں کے  خواب دکھانا  وغیرہ)؟۔

استاد محترم زیدی صاحب کے بیان کے دوران ایک نوجوان جس کی مَسّیں ابھی بھیگ رہی تھیں، اُٹھ کر کہنے لگے کہ ’’کتنی چاہت تھی آپ سے چندہ‘‘ تو انہیں بڑی مشکل سے قائل کیا کہ جس چندہ کی ہم بات کر رہے ہیں اس میں اور آپ کی چندہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بلکہ مذکر اور مونث کا فرق ہے۔ آپ والی چندا اور چندا والی چندا چاند کا اسم تصغیر ہے۔

چندہ کے جواز پر ہونے والی بحثوں میں کچھ احباب نے چندے کو ارکانِ ایمانی اور مسلمانوں کی یکجہتی کا اظہار گردانا تو کچھ نے اسے ایمان کی کمزوری اور خیرات بتایا۔ کچھ ایسے ہیں جنہوں نے زندگی میں نہ چندہ دیا نہ لیا، کچھ ایسے ہیں جن کی زندگی ہی چندے سے رواں دواں ہے۔ ایک صاحب کہنے لگے پہلے چندہ صرف تعمیر مسجد کے لئے ہوا کرتا تھا، اب چندہ برائے تعمیرِ مِلّت بھی ہونے لگا۔

اب ہسپتالوں کے نام پہ چندہ
سکولوں کے نام پہ چندہ
ڈیموں کے نام پہ چندہ
قرضے اتارنے کے نام پہ چندہ

ایک اور صاحب نے کہا کہ ادھار کی سو سالہ زندگی سے چندے کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔ ہمیں ان کی بات میں وزن نظر آیا کسی سے چندے کی درخواست کی، دیا تو دیا، نہ دیا نہ دیا لیکن ادھار لے لیا تو جانیے  کہ ایک روگ پال لیا۔ پہلے تو ادھار لیتے ہوئے منت سماجت، وعدے وعید پھر وقت پہ نہ لوٹانے کی خفت و خجالت۔ ایک صاحب گویا ہوئے کہ چندہ کسی مقصد کے لئے ہوتا ہے اور ادھار کے تو ہزار زاوئیے ہیں، کس کے نام پر لیا جاتا ہے کون کھاتا ہے۔ ایک دانشور نے کہا کہ حکومتی محکمے حلوائی کی دوکان پر دادا جی کی فاتحہ دے رہے ہیں۔ حکومت جو فنڈز انہیں دے گی وہ اُس میں سے حکومت کے ایک پراجیکٹ کے لئے چندہ دے دیں گے یہ کونسا معاشی فارمولہ ہے۔

سر سید احمد خان نے مسلمانوں کے لئے تعلیمی ادارہ بنانے کے لئے طوائفوں کے آگے جھولی پھیلا دی تھی جس پہ ان کے اکبر جیسے سخت ناقد کو بھی کہنا پڑا تھا کہ ’’ہماری صرف باتیں ہیں پر یہ سید کام کرتا ہے‘‘۔ ایک بات تو پکی ہے کہ قوم کو کسی ایک نقطے پر کسی نیک کام کے لئے اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ اور چندہ کے نام پر کروڑوں روپے کے فراڈ بھی کئے جا سکتے ہیں۔

معروف صحافی حامد میر کے ایک پروگرام میں وفاقی وزیر پانی و بجلی فیصل واوڈا نے اعتراف کیا کہ ذاتی حیثیت سے جو لوگ ڈیم بنانے والے فنڈز میں چندہ جمع کر رہے ہیں اس کا کوئی سرکاری ریکارڈ نہیں اور آئندہ جو بھی چندہ جمع کروانا چاہے، اُسے چاہیے  کہ وہ سرکاری فنڈز میں ہی نقد کی بجائے چیک کی شکل میں رقم جمع کروائے۔ فیصل واوڈا کو عامۃ الناس کو یہ نصیحت کرنے کی ضرورت گورنر ہاؤس سندھ میں ڈیم کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرنے کی تقریب میں ہونے والی خوردبرد کے انکشافات کے بعد کرنی پڑی۔ اس تقریب میں ڈیم فنڈ کے لئے چھہتر (76) کروڑ کی خطیر رقم جمع ہوئی اور اس کا تقریب کے اختتام پر اعلان بھی کیا گیا لیکن سرکاری خزانے میں صرف چھیاسٹھ (66) کروڑہی جمع کروائے گئے، باقی کے دس (10) کروڑ کا کوئی حساب نہیں مل رہا۔

پچھلے دنوں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور موجودہ وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان و تحریک انصاف کے چند دیگر سرکردہ رہنما بیرون ملک ڈیم فنڈز کے لئے رقوم جمع کرتے رہے، ابھی تک قوم کے سامنے اس فنڈ ریزنگ کی بھی کوئی تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں۔

2013ء الیکشن میں تحریک انصاف کو پارٹی فنڈز کے لئے بیرون ملک سے بھاری رقوم موصول ہوئیں اور ان رقوم بھیجنے والوں میں ہندو اور یہودی تک شامل تھے اور یہ تفصیلات الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر کے کیس میں سامنے آ چکی ہیں۔ اکبر ایس بابر پارٹی سے ان رقوم کا حساب مانگ رہے ہیں کہ یہ رقوم کتنی تھیں اور انھیں کہاں خرچ کیا گیا، لیکن آج دن تک تحریک انصاف اس کیس کا جواب دینے سے بھاگ رہی ہے اور الیکشن کمیشن بھی تاریخ پر تاریخ دیتے ہوئے اس کیس کو مسلسل لٹکا رہا ہے۔

محترمہ علیمہ خان جو وزیر اعظم عمران خان صاحب کی دبنگ بڑی بہن ہیں اور شوکٹ خانم کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی ممبر رہی ہیں اور بیرون ملک شوکت خانم ٹرسٹ کے لئے فنڈز ریزنگی یعنی چندہ جمع کرنے کے لئے خاصی متحرک رہی ہیں۔ حال ہی میں ان کی دبئی اور امریکہ میں اربوں روپے کی جائداد کا انکشاف ہوا ہے، جس کی منی ٹریل کے لئے محض ان کا جواب یہ ہے کہ انھوں نے یہ جائیدادیں سلائی مشینیں ایکسپورٹ کر کے بنائی ہیں۔ وزیراعظم عمران خاں کی اس دبنگ بڑی بہن کے اس مضحکہ خیز جواب کو تسلیم کرتے ہوئے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ انھیں دو، اڑھائی کروڑ کا جرمانہ کرنے کے بعد ان کی تمام جائداد کو وائیٹ کرنے جا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عمران خان نے شوکت خانم کینسر ہسپتال سے لے کر نمل یونیورسٹی، عوام کے پیسوں سے بنائی لیکن حکمران بننے کے بعد بھی یہی کام جاری رکھا تو لوگوں نے تعاون کرنے سے انکار کردیا۔ جیسا کہ ڈیم فنڈ فلاپ ہوگیا اور اب وزیر اعظم عمران خان  کے “ساتھی” بھی اسی کام پر لگ گئے ہیں۔ ان صاحبان کے لئے مشورہ ہے کہ اوکھے سوکھے ہو کر حکومت کر لیجئے یا اپنے عہدے چھوڑ کر عوام سے چندہ مانگنا شروع کر دیجئے۔ دونوں کل وقتی کاموں کو ساتھ ساتھ چلائیں گے تو دونوں ہی فلاپ ہوجائیں گے۔ جب حکمران دوکان کھولے گا تو سواد خریدنے کے بہانے رشوت دی جائے گی، یہی اصول فنڈ ریزنگ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ حکمرانوں پر عوام کے حقوق ہوتے ہیں، کچھ فرائض ہوتے ہیں، این جی اوز چلانا، چندے جمع کرنا ان فرائض میں شامل نہیں ہوتا۔ فرض نمازیں ادا کریں، نوافل بعد کی بات ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply