کتابوں کی دنیا سلامت رہے۔۔۔۔سلمی اعوان

یہ مصرعہ اُس ٹائیٹل سونگ کا حصّہ ہے جو نیشنل بُک فاﺅنڈیشن کے دسویں سالانہ میلے کے سلسلے میں پاک چائنا فرینڈ شپ سنٹر اسلام آباد میں 19اپریل کی شام سے 21اپریل کی شام کے دوران بارہا بجایا اور سُنا یا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کتابوں کی دنیا سلامت رہے
تاقیامت رہے۔
ہم جیسے لوگوں کے جذبات کی اُتھل پُھتل انہی  چند لمحوں کے لیے اُس دنیامیں لے جاتی تھی جہاں کتاب ہمارے لیے کھانے پینے اور سانس لینے کی طرح اہم تھی اور خدا گواہ ہے ابھی بھی ہے۔ اس سے محبت ہے۔اس کے صفحات کی خوشبو سے پیارکل بھی کسی دلنواز محبوب کی طرح ہی تھا اور آج بھی ہے۔
مگر افسوس ہماری نئی نسل میں یہ محبت ختم ہورہی ہے۔انٹرنیٹ کی دنیا سے ناطہ جڑ گیا ہے ۔اس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ایسے میں اِس میلے کا انعقاد اس ادارے کا بہت بڑا کام ہے۔ پاکستان بھر سے ہم لکھنے والے یہاں موجود اور پاک چائنہ فرینڈ شپ کا عظیم الشان ہال ،لاہور اور اسلام آباد کے پبلشروں کے سٹالوں سے سجا پرکشش مراعات کے ساتھ یہ اعلان کررہا تھا کہ ہمیں کتاب کو ماضی کی طرح اپنی زندگی کا حصّہ بنانا اور نئی نسل کو اِس کی محبت اور چاہت میں گرفتار کرناہے۔
افتتاحی اجلاس میں صدر مملکت کی تقریب بڑی متوازن، بڑی دلچسپ آپ کے اور ہمارے بچپن ،جوانی اور بڑھاپے میں کتاب کے عشق میں مبتلا ہونے کی کہانی تھی۔
ہماری (سب کی بات نہیں) جب ان پڑھ مائیں ہم جیسے کہانیوں کے رسیا بچوں کا کورس کی کتابوں میں غیر معمولی انہماک دیکھ کر سمجھ جاتی تھیں کہ کہیں کچھ گڑ بڑ ہے۔ہاں البتہ جناب شفقت محمود نے اپنے وزراءاور مشیروں کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے کتاب کی اہمیت ،اس کے احیاءبارے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کتاب کا زمانہ اب لد گیا ہے۔سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔تاہم محبوب ظفر صاحب نے دبنگ لب و لہجے میں کتاب علم کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس کی اہمیت ہمیشہ رہے گی۔سوشل میڈیاغوروفکر اور سوچ وبچار پیدا نہیں کرتاہے۔تجسس اور کھوج کو نہیں اُبھارتا۔آج اگر ہمارا رویہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہوچھے جٹ کٹورہ لبھا پانی پی پی اپھارے والا ہوگیاہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کتاب Best source of knowledgeکی تھیوری کے ساتھ واپس نہیں آئے گی۔ انشاءاللہ ہم اپنے ماضی کی طرح اس کی مہک ،اس کی خوشبو سے پھر لطف و اندوز ہوں گے۔ ہال نے تالیاں پیٹیں اور شفقت محمود کی بات پر نفی کا ٹھپہ لگایا۔
ادارے کے مینجینگ ڈائریکٹر جناب انعام الحق جاوید نے میلے کے نمایاں نکات میں بچوں ،نوجوانوں اور ہر طبقہ زندگی کے لوگوں میں کتاب سے محبت اور کتاب پڑھنے کا احساس بیدار کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اپنی مشکلات،فنڈز کی کمی، اس کارخیر میں حصّہ ڈالنے والے اداروں اور اپنےساتھیوں کی شب و روز محنت اور تعاون کا ذکرکیا۔
اُن کے یہ رفقائے کار رضاکارانہ طور پر اُن کے ساتھ کھڑے ہر پروگرام کو بہترین صورت دینے میں سرگرم نظرآئے۔
کتاب پرچم اور پرچم کشائی ،ہال میں چہار سو بکھرے کتاب کی محبت میں ڈوبے گیت کے بول اور لوگوں کا جمّ غفیر اس عہد کا غماز تھا کہ ہم نے کتاب اور کتاب خوانی کو دوبارہ زندہ کرنا ہے۔
بغدا د کا المتنابی بازار یادوں میں ابھرا تھا۔بغداد کے اس کتاب بازار کو دہشت گردوں نے بم بلاسٹ سے تباہ کردیا تھا۔ یہ بڑا دردناک منظر تھا۔کتابوں کے صفحات ژالہ باری کی صورت برس رہے تھے۔تخریب کاری نے اِس مشہور زمانہ محاورے کو چیلنج کردیا تھا۔
Cairo writes, Beurit Publishes, Baghdad reads.
پوری دنیامیں بکھرے اور عراق میں بسنے والے عراقی لفظ کے تقدس اور اس کی حرمت کے لیے حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے اور صرف ڈیڑھ سال میں انہوں نے المتنابی کتاب بازار کی رونقیں بحال کرتے ہوئے تخریب کاروں کو پیغام دے دیا۔عراقیوں کے ہاتھوں سے کوئی کتاب نہیں چھین سکتا۔
ہمیں بھی تو سامنا ہے اس چیلنج کا جس نے ہماری نوجوان نسل کے ہاتھوں سے کتاب چھین لی ہے ۔لائبریریوں کو ویران کرکے فوڈ سٹریٹوں کو آباد کردیا ہے۔ کتاب خریدنے کی بجائے برگر ، پیزا اور چکن کڑاہی کھانا ترجیح بن گیا ہے۔حکومتی ذرائع بھی جیسے قوم کو جاہل بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ڈاک خرچ ہی نہیں مان۔انڈیا جیسے ہمسائے ملک میں زمینی راستے سے کتاب بھیجنی ہو تو ڈاک خرچ کتاب سے تین گنا مہنگا۔
اب اِسے دوبارہ اس نسل کے ہاتھوں میں پکڑانے کے لیے ڈاکٹر انعام الحق جاویدفرخ سہیل گوئندی اور محبوب ظفر کے ساتھ بیٹھا سفیران کتاب کانفرنس کی صدارت کررہا تھا۔کمرے میں موجود اہل علم و فن کے لوگوں سے تجاویز لے رہا تھا۔اچھی چیز جو نظر آئی وہ عملی تھی ۔تجاویز بہت تھی مگر تجزیہ بھی ساتھ ساتھ جاری تھا کہ اسے کرنا ممکن ہے اور یہاں مجبوری ہے ۔یہ قابل عمل ہے اور اس کو اپنانے میں فی الوقت مسائل ہیں۔
اِس میلے کی خوش آئند بات لوگوں کا گراونڈ اور فسٹ فلور پر سجے بے شمار پنڈی، اسلام آباد اور لاہور کےپبلشروں کے سٹال تھے ۔ان پر شہد کی مکھیوں کی طرح منڈلاتے کتاب کے عاشق اُن پرکشش مراعات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تھیلے کتابوں سے بھررہے تھے۔ سوا دو دنوں میں 12130722 روپے کی کتابیں بکیں۔ جب کہ اسی فلور کے کانفرنس ہالوں میں اگر کمرہ 206 میں ڈاکٹرنجیبہ عارف کے ساتھ نوجوان نسل مصروف گفتگو تھی تو اسی وقت کمرہ نمبر 207 میں اردو املا کی غلطیاں خودکار طریقے سے درست کرنے والے سافٹ ویر کے اجراءپر اختر رضا سے اس کی کارکردگی اور تعارف بارے جان کاری حاصل کررہے تھے۔213 میں Space Biblo Rendezvous پر معلومات دی جارہی تھیں۔دیار غیر میں مقیم پاکستانی اہل قلم اور اردو ادب پر مذاکرہ پروفیسر قیصرہ مختار علوی نے کنڈیکٹ کیا۔میزبان اور رابطہ کار علی یاسر تھے اور پروگرام میں دنیا بھر سے آئے ہوئے اہل قلم شامل تھے ۔اردو کا مستقبل بھی زیر بحث آگیا۔تجاویز اور صورت حال بھی۔
موضوعات کی رنگارنگی نئے ناولوں پر تبصرے، مزاح نگاروں کی دلچسپ گفتگو اور فروغ میں ادبی رسائل کا کردار۔ جس کی صدارت مایہ ناز شاعر اور صحافی جناب محمود شام نے کی ۔یہاں مبین مرزا سے لے کر تمام ممتاز رسائل کے مدیران موجود تھے۔ بچوں کے ناول،قومی یکجہتی اور لسانی ہم آہنگی میں پاکستانی زبانوں کیا کردار کرسکتی ہیں اور کیسے؟ یہ سیشن بہت اہم اور معلوماتی تھیں۔منجھے ہوئے صحافی اکبر حسین اکبر جن کی مادری زبان بروشسکی۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی جن کی مادری زبان کھوار ہے۔ڈاکٹر یوسف خٹک ،ثروت محی الدین اور ڈاکٹر صغری صدف نے پاکستانی زبانوں کے حوالے سے باتیں کیں کہ کیسے یہ زبانیں قومی یکجہتی اور لسانی ہم آہنگی میں موثر کردار ادا کرسکتی ہیں۔
حال ہی میں شائع ہونے والے تقریباً بارہ ناولوں پر جناب فتح محمد ملک اور جناب محمد حمید شاہد کی زیر صدارت سیشنوں میں اِن کتابوں کا فنّی جائزہ لیا گیا۔
عکسی مفتی جیسی ادب و ثقافت کی لیجنڈری شخصیت کی صدارت میں ہونے والا سیشن جو پاکستانی ثقافت کی رنگا رنگی اور قومی ہم آہنگی بارے تھا اور جس کی میزبان نعیم فاطمہ علوی جو خوبصورت افسانہ نگار اور سفر نامہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی سماجی اور سوشل شخصیت ہیں کی میزبانی میں بڑا بھرپور تھا۔عائشہ مسعود کی خوبصورت غزل، اُس کی گائےکی اور موسیقی نے پروگرام کو بے حد دلچسپ اور جاندار بنا دیا ۔
مشاعرہ بھی اِس کتاب میلے کا لازمی جز تھا۔بین الاقوامی مشاعرہ کشور ناہید، افتخار عارف اور ڈاکٹر فاطمہ حسن کی زیر صدارت ہوا۔رات گئے تک شاعروں نے اپنا رنگ جمایا۔
تین روزہ اِس کتاب دوستی میلے کا اہم اور قابل تقلید پہلو وسائل کے محدود ہونے کے باوجود بڑوں اور بچوں کو یکساں طور پر محظوظ و مستفید کرنا تھا۔ بچوں کے درمیان تقریری مقابلے ” کتاب تعلیمی ترقی کی ضامن ہے“ پر تھے۔ہیری پورٹر، پریڈ ، پتلی تماشا ،گوگی ستو، شیکسپئر کا ڈرامہ کنگ لیئر ،کشمیر پر ٹیبلو،گرین اینڈ کلین پاکستان جیسے کھیل پیش کیے گئے۔
ہاں البتہ جس بات نے بہت تکلیف دی وہ صفائی کے معاملات تھے۔پاک چائنا فرینڈ شپ سنٹر اسلام آباد اپنی عمارت وسعت کے اعتبار سے بہت موزوں جگہ تھی۔ چین جیسے دوست ملک نے یہ سنٹر بنا کر پاکستانی حکومت کو تحفہ دیا۔سی ڈی اے اتھارٹیز کے زیر انتظام یہ سنٹر جس کا تین دن کا کرایہ 21لاکھ روپیہ نیشنل بک فاﺅنڈیشن نے ادا کیا۔ صفائی ستھرائی کے معاملات میں اِس درجہ غیرذمہ داری کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا کہ دکھ کی لہریں سینے سے بار بار اٹھتی اور مضطرب کرتی تھیں۔خود سے سوال ہوتا تھا ہم کیسی بدقسمت قوم ہیں کہ جس ملک نے یہ تحفہ دیا وہ ملک صفائی کے معاملے میں جتنا ذمہ دار ہے اس کا مظاہر ہ تو ابھی پندرہ دن پہلے کرکے آرہی تھی۔یقین کیجئیے آپ کو سڑکیں اور جگہیں ایسی ملیں گی کہ اردو کا وہ محاورہ سو فی صد ان پر فٹ بیٹھتا ہے کہ کھانے کو اگر پلیٹ نہ ملے تو دال چاول فرش پر ڈال کر کھالو۔میں درختوں کے نیچے کی جگہیں تنقیدی نظروں سے کھوج کرتی تھی کہ کہیں مجھے پتے ان پر بکھرے ہوئے نظر آئیں۔ مگر آفرین ہے ان پر کہ دن ہو یا رات کا کوئی پہر۔ صفائی ہورہی ہے۔ اپنی ڈیوٹی ذمہ داری سے دی جارہی ہے۔سچی بات ہے کنٹین میں کھانے کی میزیں گندی،ڈسپوزبیل لنچ باکس اور جوسز کے خالی ڈبے ،کاغذ اور کھانے کی بچھی کچھی چیزیں بکھری ہوئیں طبیعت کو افسردہ اور ملول کرتی تھیں۔کچھ ایسا ہی حال واش روموں کا بھی تھا۔ انفرادی سطح پر بھی یہ احساس زیاں نہیں ہے کہ صفائی ہمارے دین کے مطابق نصف ایمان ہے اور اجتماعی سطح پر بھی یہی بے حسی کارفرما ہے۔خدا ہم پر اپنا رحم کرے ۔
آئےے عہد کریں ہم کتاب سے محبت کریں گے اور نئی نسل کو اس کی محبت میں گرفتار کریں گے۔تاکہ وہ شائستہ ،مہذب اور باوقار بنے۔(امین)
بشکریہ خبریں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply