سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے۔۔۔۔ساجد محمود خان

             کسی بھی جمہوریت پسند معاشرے میں ہر شخص کو آزادی گفتار یا اظہار رائے  کی آزادی ہوتی ہے۔ جس سے معاشرے میں لوگوں کو اپنے خیالات اور نظریات بغیر کسی خوف و خطر پیش کرنے کی آسانی ہوتی ہے۔ اگر  اسلامی تعلیمات پر غور کیا جائے تو اسلام میں بھی اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے یہاں تک کہ حاکم وقت بھی اپنی عوام کے سامنے جواب دہ ہے اور کسی کی اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن نہیں لگاتا ہے۔ریاست مدینہ میں ایک جنگ میں فتح کے بعد مالِ غنیمت تقسیم کر دیا گیا تو ہر ایک مجاہد کے حصے میں کپڑے کا ایک ٹکڑا آیا مگر حضرت عمرؓ جیسے ہی لوگوں سے خطاب کے لئے اٹھے ۔ تو حاضرین میں سے ایک شخص نے باآواز بلند کہا کہ ’’خدا کی قسم ہم تمہاری بات نہیں سُنیں گے کیونکہ تم نے خود کو دوسروں پر ترجیح دی ہے۔‘‘   حضرت عمرؓ طویل القامت شخصیت تھے ۔ جو لباس انہوں نے تن زیب کیا تھا وہ بظاہر  ایک نہیں بلکہ دو ٹکڑوں کا بنا ہوا لگ رہا تھا۔  اس پر حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے سے تصدیق کروائی کہ دوسرا ٹکڑا ان کے بیٹے نے اپنے والد کو ہدیہ کر دیا تھا۔ جب سب کے سامنے وضاحت ہوئی تو پھر سوال اٹھانے والے شخص نے کہا کہ اب ہم آپ کی بات سنیں گے۔  اقوام متحدہ کی تنظیم (UNO) کے  انسانی حقوق کے عالمی منشور Universal Declaration of Human Rights 1949  کے آرٹیکل 19 میں بھی اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ کسی بھی شخص کو آزادی گفتار کی مکمل آزادی حاصل ہو گی۔
مغربی معاشرے خاص کر امریکہ کو اس بات پر بہت زیادہ ناز ہے کہ ان کے معاشرے میں شہریوں کو مکمل اظہارِ رائے کی آزادی حاصل ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ معاشرے میں اظہارِ رائے کی آزادی اور اختلافِ رائے کا پایا جانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس معاشرے میں جمہوری سوچ اور روپے پائے جاتے ہیں۔ مگر  اسی اظہار رائے کی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر شخص خاص طور پر ہمارے میڈیا سے منسلک کچھ غیر سنجیدہ حضرات سنگ اٹھا کر کبھی سیاستدانوں کو مارتے ہیں کبھی بیوروکریٹس اور کبھی سیکورٹی اداروں کی شامت آتی ہے۔   جہاں کہیں پر واپس پتھر یا بوٹ پڑنے کا امکان ہو وہاں یہ پتھر زمین پر پھینک کر مسکرا دیتے ہیں۔اب مسئلہ یہ ہے کہ کون پتھر مارے اور کون نہ مارے اور جو پتھر مارے اس کی قابلیت کیا ہونی چاہیے اس کا تجربہ کتنا ہوگیا اور وہ کس طبقہ سے تعلق رکھتا ہو۔
یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ آپ چاہے کسی بھی نظریات کے حامل ہوں، کسی بھی پارٹی سے آپ بے تعلق ہوں، کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہو مگر آپ اس پتھر سے محفوظ نہیں رہ سکتے کیونکہ اس ملک میں پتھر مارنے والے کو مکمل آزادی ہے۔ پتھر مارنے والے کی ایک زبردست منطق یہ ہے کہ میرا پتھر میری مرضی۔ میری ذاتی رائے میں ووٹ ڈالنے ( پتھر مارنے) کا اختیار بھی ان لوگوں کو دینا چاہیے جو ایک خاص حد تک سمجھ بوجھ رکھتے ہو ں کیونکہ کسی کو ووٹ کا اختیار دینا بھی ایسے ایسے جیسے آپ اس کے ہاتھ میں پتھر پکڑا رہے ہیں اور پھر وہی پتھر پانچ سال آپ کو واپس پڑتے رہتے ہیں۔ اگر ووٹ کا احتیار کسی ایسے شخص کو دے دیا جائے جو کہ بریانی کی ایک پلیٹ یا چند نوٹوں پر کسی کو بھی پتھر ( ووٹ) مار سکتا ہے تو پھر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیسے کیسے لوگ اس پارلیمنٹ کا حصہ بنیں گے۔
اگر آج کے جدید دور میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کو کسی بھی قسم کی رائے یا انفارمیشن دوسروں تک پہنچانے کے لاتعداد  آسان مواقع فراہم کیے ہیں لیکن ان پر کسی بھی طرح کی ریگولیشن یا کنٹرول نہیں حتی کہ  خود یہ مواقع فراہم کرنے والی کمپنیاں ( فیس بک،  واٹس ایپ، ٹوئٹر،  یوٹیوب، بلاگرز وغیرہ وغیرہ) کو بھی ان پر کنٹرول نہیں جس کا اعتراف یہ کمپنیاں خود بھی کئی  مواقع پر کر چکی ہیں۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال پشاور کے نواحی علاقے میں پولیو کے حوالے سے پیش آنے والے واقعے  کی ہے۔بڈھ بیر (پشاور) کے علاقے میں پولیو کے حوالے سے ایک غیر مصدقہ اطلاعات کو  جس غیر ذمہ دارنہ طریقے سے پھیلایا گیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ نہ صرف اس غیر تصدیق شدہ خبر کو مزید آگے پھیلایا گیا بلکہ کچھ لوگوں نے تو اس میں اپنی طرف سے بہت ساری باتیں شامل کرلیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہ تھا اور ایک صاحب نے تو باقاعدہ بچوں کو بے ہوش ہونے کی اداکاری کرنے کو کہا تاکہ اس غیر مصدقہ پراپیگنڈے کو چار چاند لگ جائیں اور اس ملک کے معصوم بچوں کے لیے پولیو کے خاتمے کے لیے چلائی جانے والی مہم کو ہی ختم کر دیا جا ئے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جن لوگوں نے اپنے اپنے طور پر اس گمراہ کن پروپیگنڈے کو مزید آگے پھیلایا اور لوگوں میں ایک خوف وہراس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کیا ان کا احتساب ہوسکے گا؟ ان لوگوں نے اپنی اظہار رائے کی آزادی کا غلط استعمال کر کے اس قوم کے بچوں کو جو پتھر مارے گئے ہیں ان سے نہ صرف وہ زخمی ہونگے بلکہ  معذور بھی ہونگے۔ خدا کے لیے یہ پتھر مارنا بند کریں۔ ایسا نہ ہو کہ سارا شہر کھنڈر بن جائے اور کوئی سنگسار کرنے کے لیے نہ ملے۔ اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں اور حکومتی اداروں پر اعتماد رکھیں اور جہاں کہیں کوئی سنجیدہ مسئلہ ہو وہاں اپنی اظہار رائے کا استعمال ذمہ دارنہ انداز میں کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی اور کا پھنکا ہوا پتھر آپ یا آپکے بچے کو زحمی یا معذور کر دے۔
جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے​
(احمد فراز)​

Facebook Comments

ساجد محمود خان
۔ سیاسیات کا طالب علم۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply