سلیکشن کمیٹی کا منظورِنظر۔۔۔ خالد داؤد خان

فیس بک نہ ہوا کسی فقیر کا آستانہ ہوا جہاں ہر دوسری وال پہ کوئی نہ کوئی پیشن گوئی دھری ہوتی ہے۔ آج بندہء ناچیز بھی وجد   میں ہے کیونکہ کل رات پیرِکامل نے خواب کے بجائے ڈائریکٹ ٹیلیفون کرکے ہمیں بشارت دی کہ خوفزدہ نہیں ہونا کیونکہ “سلیکشن کمیٹی” کبھی اپنے “منظورِ نظر” کھلاڑیوں کو کچھ نہیں کہا کرتی اس لئے معاملات حل ہونے کی پیشن گوئی کا اعلان کردو۔

پچھلے سال ٹھیک اسی مہینے میں اسی موضوع پر ایک آرٹیکل لکھا لیکن میری کمزور سی رائے کو مکمل طور پر رد کر دیا گیا لیکن اب حالات ویسے نہیں رہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے پختون قوم پرست سیاست کے سب سے بڑے علمبردار اسفندیار ولی خان اب میرے ہمنوا ہیں، وہ کھلے عام یہی بیانیہ رکھتے ہیں کہ “منظورِنظر” کے پیچھے “سلیکشن کمیٹی” ہے ورنہ کسی کی کیا مجال جو اس طرح کھلم کھلا انہیں للکارنے کی ہمت بھی کرسکے۔ ایک ایسا “سلیکٹڈ” الیکشن جس میں سارے بڑے بڑے قوم پرست بشمول مذہبی رہنماء تو اپنی تمام نشستیں ہار جاتے ہیں لیکن “منظورِ نظر” کے ہینڈ پکڈ بندے بڑے مارجن سے ان حلقوں سے جیت جاتے ہیں جہاں انکے بقول فوج کا قبضہ ہے اور ان سے پوچھے بناء پتا بھی نہیں ہل سکتا، اور تو اور ان کے ایک امیدوار کیلئے تو “سیلیکٹڈ پارٹی” میدان بھی کھلا چھوڑ جاتی ہے۔  اسفندیار کھل کر اور مولانا صاحب درونِ خانہ آجکل یہی باتیں کرتے سنے گئے ہیں۔ ناچیز کی بات کو تو آپ رد کر سکتے ہیں لیکن اسی خطے کے دو بڑے سیاسی رہنماؤں کی بصیرت کو کیسے چیلنج کر سکتے ہیں۔ ان کے خدشات یقیناََ غور طلب ہیں۔

مشران ایسی باتیں کیوں نہ کریں۔ شکوک تو ضرور جنم لیں  گے  جب “سلیکشن کمیٹی” جانتے بوجھتے عین اس موقع پر بار بار معاملات خراب کریگی جب جب معاملہ صلح کی طرف بڑھ رہا ہو اور “منظورِ نظر” بھی اسی لائن پہ اپنا ردِ عمل دینا شروع کردے۔ خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر “سلیکشن کمیٹی” کیلئے ضروری تھا کہ ایسے کھلاڑیوں اور تماشائیوں کے عزائم اور ایڈریس معلوم کرے جو مستقبل میں مسائل کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں وقت سے پہلے چھان کر الگ کر لینا ہی “سیلکٹرز” کی پالیسی تھی، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت “منظورِ نظر” کو ڈھیلی ڈھالی باؤلنگ کروا کے کریز پر قدم جمانے میں مدد فراہم کی گئی۔ ڈی جی صاحب فرماتے ہیں کہ انہیں جتنی مہلت اور ڈھیل ملنی تھی، مل گئی۔ اب کوئی یہ سوال تو پوچھے کہ جب آ پکو شروع دن سے ان کے عزائم کا علم تھا تو یہ ڈھیل دی ہی کیوں گئی؟ جس کا کوئی ڈھنگ کا جواب وہ نہیں دینگے۔ ڈی جی صاحب، آپ تو وہ مردِ مجاہد ہیں کہ جب چاہیں ایم کیو ایم جیسی منجھی ہوئی سیاسی جماعت اور اسکے عسکری وِنگ کے چند دنوں میں بخیے ادھیڑ کر رکھ دیں تو پھر “منظورِ نظر” پہ ایسی کرم نوازی کیوں؟

آستانہء سوشل میڈیا شریف کے مریدین کا گمان ہے کہ جو مذاکرات ہونے لگے تھے وہ تو اب بالکل نہیں ہوں گے تو انکی تسلی کیلئے گزارش کرتا چلوں کہ مذاکرات بہت جلد ہونے والے ہیں، عین اس پلان کے مطابق جو “سلیکشن کمیٹی” نے طے کر رکھا ہے۔ “منظورِ نظر” تو ان مذاکرات میں شامل نہ ہوگا لیکن اسکی ٹیم کے کچھ اور کھلاڑی اپنی ایک الگ پی ٹی ایم کی طرف سے براہِ راست فوج سے مذاکرات کرینگے جو کامیاب بھی ہونگے۔ منصوبے کے مطابق اعتدال پسند گروپ الگ ہونے والا ہے جبکہ شرپسند گروپ کی کپتانی ” سیلیکٹڈ منظورِ نظر” بدستور جاری رکھے گا تاکہ انہیں بھی ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کسی مناسب موقع پر کھڈے لائن لگایا جاسکے۔ مذہبی شرپسندی کا قلع قمع کرنے کے بعد نسل پرستی سے جان چھڑانے کیلئے “سیلکشن کمیٹی” نے جو بیٹنگ آرڈر ترتیب دیا ہے اسکا سلامی بلے باز “منظورِ نظر” ہے جسے مین آف دی میچ ہونے کی صورت میں انعامات سے نوازا جائیگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دل چھوٹا نہ کریں، سب کچھ پلان کے مطابق جا رہا ہے۔ کسی چرسی درویش نے کیا خوب کہا تھا کہ رنگ والی گیم میں “نمبرون” کھلاڑی اپنا رنگدار پتا سنبھال کر رکھتا ہے، جب تک آپکی گیم بدرنگی کا شکار نہ ہو، آپ اسے آستین میں ہی رکھتے ہیں لیکن جیسے ہی سامنے والا کھلاڑٰی رنگ کی چال چلتا ہے، آپ بھی رنگدار پتا پھینک کر رنگ کو رنگ سے کاٹ لگاتے ہیں۔ یہ ففتھ جنریشن وار فئیر ہے جسے آپ کی “سیلکشن کمیٹی” اگلے مورچوں پہ جا کر لڑ رہی ہے، فرنٹ فٹ پر پوری ٹانگ باہر نکال کر۔
نوٹ: میں بہ ہوش و حواس خمسہ پیرِ کامل کی حالتِ خمار میں کی ہوئی بڑبڑاہٹ سے لاتعلقی کا اظہار کرتا ہوں۔ چرس کی سگریٹ کا اعتبار کوئی نہیں۔ باتیں ویسے پتے کی کر جاتے ہیں کبھی کبھی۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply