یہ میراآخری کالم ہے۔۔عطا الحق قاسمی

ساری عمر کالم لکھتے گزر گئی، اب میں نے ’’پیشہ‘‘ تبدیل کرنے کا ارادہ کرلیا ہے، ایک وقت تھا کہ ادارے سے ملنے والی تنخواہ کی کبھی پروا ہی نہ کی تھی، ’’قدردان‘‘ ہی بہت تھے، روپے پیسے کی کبھی کمی محسوس ہی نہ ہوئی تھی، مگر اب ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے عالمگیر اصول کے مطابق اِس پیشے میں اتنے زیادہ لوگ آچکے ہیں کہ ہم جیسوں کی قدر ہی نہیں ہورہی۔ اب مہینے کی پہلی تاریخ ہی کو بینک فون کرکے پوچھنا پڑتا ہے کہ میری تنخواہ آئی ہے کہ نہیں؟ تنخواہ تو آگئی ہوتی ہے مگر اب ’’سُکّی‘‘ تنخواہ میں کہاں گزارہ ہوتا ہے، چنانچہ اِسی مہینے سے میں نے میڈیا سے ترکِ تعلق کرکے پیری مریدی کا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت تو بہت پہلے سے عطا کی ہوئی تھی مگر میں اُس وقت’’نجی‘‘ آسائشوں میں اتنا مست تھا کہ خلقِ خدا کی بھلائی کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا تھا۔ اب الحمدللہ توفیقِ خداوندی سے اپنی خداداد صلاحیتوں کو اِس شعبے میں استعمال کرنے کی ابتدا کردی ہے اور اِس کالم کے ذریعے سب سے پہلے اپنے قارئین کو مطلع کر رہا ہوں کیونکہ مجھ سے فیض اٹھانے کا پہلا حق اِنہی کا ہے۔

تاہم اِس حوالے سے کچھ ضروری باتیں ہیں جن کا ذکر شروع ہی میں کرنا ضروری ہے، ایک بات تو یہ کہ فیض اٹھانا ہر کس و ناکس کے مقدر میں نہیں ہوتا مثلاً غریب غربا کی ساری زندگی آزمائشوں میں گزرتی ہے، وہ نماز روزہ بھی کرتے ہیں، وظیفے بھی پڑھتے ہیں، پیروں فقیروں سے تعویذ گنڈے بھی لیتے ہیں مگر اُس کے باوجود اُن کی کوئی اُمید بر نہیں آتی۔ وہی روکھی سوکھی اُن کا مقدر بنی رہتی ہے، اُن کی جوان بیٹیاں ہاتھ پیلے ہونے کے انتظار میں بوڑھی ہوجاتی ہیں اور وہ علاج معالجہ کے اخراجات برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے چارپائی پر پڑے پڑے کسی دن فوت ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود اُن کے حالات تبدیل نہیں ہوتے تو میں خدائی کاموں میں دخل دینے والا کون ہوں چنانچہ میری فیض رسانی اُن کے لئے نہیں، لہٰذا وہ براہِ راست خدا سے اپنے حالات بدلنے کی دعا میں بدستور مشغول رہیں، میری طرف سے معذرت سمجھیں!

اِن حالات میںمَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ میرے دائرئہ بیعت میں صرف وہ لوگ آسکیں گے جن کے پاس دنیا کی ہر نعمت موجود ہے مگر وہ مزید نعمتوں کے طلبگار نظر آتے ہیں۔ میں خدائی کا دعویٰ کرنے والا کون ہوتا ہوں، جو کچھ ہے وہ اُسی کی منشاء وقدرت سے ہے، البتہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مستجاب الدعوات کی نعمت عطا کی ہے، البتہ اپنے لئے مانگوں تو کچھ نہیں ملتا اگر مل رہا ہوتا تو میڈیا ایسا ’’مقدس‘‘ پیشہ چھوڑنے کی مجھے کیا ضرورت تھی، جب ہر ایرا غیرا تابع فرمان بن جائے تو ایک ایک کرکے سب کی قدر افزائی کم ہونے لگتی ہے، چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ میری طرح میرے بہت سے دوسرے کولیگ بھی ’’حق حلال‘‘ کی کمائی کی طرف آنا شروع ہو جائیں گے، میں نے پہل کی ہے اور شرط یہ رکھی ہے کہ صرف وہ طبقے میری طرف رجوع کر سکتے ہیں جو ہر حربہ استعمال کرنے کے بعد اتنی دولت کے مالک بن گئے ہیں کہ اُنہیں اُس کی مقدار کا خود بھی اندازہ نہیں مگر وہ مطمئن نہیں ہیں اور’’ھل من مزید‘‘ کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں۔

میں محسوس کرتا ہوں کہ تمہید کچھ زیادہ طویل ہوگئی ہے، چنانچہ اب براہِ راست کام کی بات کرتا ہوں اور وہ یہ کہ میں اُن میں سے کسی سے بھی اپنے گھر پر نہیں ملوں گا اور اُن کے گھر جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اللہ والے دنیا داروں کے گھر جایا نہیں کرتے۔ اُن میں سے جو مجھ سے فیض اٹھانا چاہیں وہ پہلے فون پر مجھ سے رابطہ کریں، میں اُنہیں کسی جیولری کی دکان کا ایڈریس دوں گا، جہاں میں پہلے سے اُن کے انتظار میں ہوںگا، اُن کے آنے سے پہلے میں ایک کلو سونے کے زیورات چھانٹ کر بیٹھا ہوں گا۔ وہ آئیں اور پہلے میرے دستِ حق پرست پر بیعت کریں اور اُس کے بعد اُن سے کہوں گا کہ اِس سونے پر میں نے تین مہینے’’عمل‘‘ کرنا ہے، جس کے نتیجے میں یہ دوگنا ہو جائےگا۔ اِس عرصہ میں یہ سونا میرے پاس بطور امانت محفوظ ہوگا، آپ دکاندار کو اِس کی ادائیگی کریں اور باقی کام مجھ پر چھوڑ دیں اور پھر دیکھیں خدا کیا کرتا ہے۔ مجھے علم ہے یہ طبقہ بلائنڈ گیم کھیلا کرتا ہے چنانچہ وہ فوری طور پر ادائیگی کرکے اور میرے ہاتھوں کو بوسہ دے کر وہاں سے رخصت ہوجائے گا۔ اِسی طرح دوسرے مریدین میں سے کسی کو پچاس ساٹھ لاکھ مالیت کی گھڑیوں کی دکان پر پہنچنے کا حکم دوں گا اور دس بارہ گھڑیوں پر ’’عمل‘‘ کرنے کے لئے اپنی تحویل میں رکھوں گا۔ کسی مرید کو دس بارہ کروڑ کے ساتھ کسی ریستوران میں بلاؤں گا اور اُسے بھی بتاؤں گا کہ تمہارا یہ مال اِن شاءاللہ تین مہینوں میں دوگنا ہوجائے گا۔ یہ سب لوگ مجھ پر اعتماد کریں گے کہ ایسے مراحل کے دوران اللہ اُن کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے۔

پھر ایک وقت آئے گا کہ میں ارب پتی نہیں، کھرب پتی بن جاؤں گا، اُس کے بعد میرے ذہن میں دو لائحہ عمل ہیں، ایک تو یہ کہ بااختیار لوگوں کو کروڑوں روپے کا ’’عطیہ‘‘ دے کر اُن کی زد میں آنے سے بچ جاؤں گا لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو میرے پاس امریکن پاسپورٹ ہے چنانچہ خطرے کی بو محسوس ہوتے ہی اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ شفٹ ہو جاؤں گا۔ اِن شاءاللہ کیونکہ ہم میڈیا پرسنز کے ’’سرپرستوں‘‘ نے ہمیں کچھ عرصے سے کافی مایوس کر رکھا ہے۔ میرے اِس عمل سے ساری اشرافیہ اور ہم میڈیا پرسنز کے سابق ’’قدردان‘‘ چراغِ رخِ زیبا لے کر ہمیں یا کم از کم مجھے ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے۔

ضروری نوٹ: میری اِن سطور سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں نے ملک کے مظلوم عوام کو اپنے فیض سے یکسر محروم کردیا ہے، میں اِن شاءاللہ اُن میں سے ہزاروں مستحق افراد کو ہائر کروں گا، جن کا کام صرف یہ ہوگا کہ وہ بڑے پیمانے پر میری کرامتوں کی تشہیر کریں گے۔ کرامتوں کے حوالے سے وہ خودمختار ہوں گے، جو کرامت اُنہیں مفید لگے، اس کا پرچار وہ کرسکتے ہیں بلکہ میرے معجزات بیان کرنے کے حوالے سے بھی اُن پر کوئی پابندی نہ ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply