سبز پوشوں اور بے ہوشوں کے درمیان ۔۔۔۔ ژاں سارتر

(تیسرا حصہ )

جب آپریشن جبرالٹر شروع ہوا اور کشمیر میں گوریلا کارروائیاں شروع ہوئیں تو بھارتی فوج نے سیز فائر لائن پر فائرنگ اور گولہ باری شروع کر دی۔ انہوں درہ حاجی پیر اور ٹیٹوال سیکٹر میں کئی کلومیٹر تک پاکستانی کشمیر میں بھی پیش قدمی کی۔ آپریشن جبرالٹر کے مقاصد کے حصول کے لیے پاکستانی فوج نے یکم ستمبر کو ایک اور “آپریشن گرینڈ سلیم” کا آغاز کیا جس کے تحت اکھنور پر قبضہ کر کے اس پل کو کو کاٹنا تھا جس کے ذریعے بھارتی فوج کو تمام تر رسد مقبوضہ کشمیر میں پہنچائی جاتی تھی۔اس آپریشن میں پاکستانی فوج نے سیز فائر لائن عبور کرتے ہوئے چھمب جوڑیاں پر قبضہ کر لیا۔ یہ دستے جنرل اختر ملک کی قیادت میں تھے۔ امکان تھا کہ ستمبر کے ابتدائی دنوں ہی میں پاک فوج اکھنور پر بھی قابض ہوجائے گی لیکن اچانک اور غیر متوقع طور پر جی ایچ کیو نے اس ڈویژن کی کمانڈ جنرل ملک سے واپس لے کر میجر جنرل یحییٰ خان کے سپرد کردی۔ یحییٰ خان نے پیش قدمی کی رفتار انتہائی دھیمی کر دی اور پاک فوج اس جگہ سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اسی علاقے میں جنگ ستمبر کے آغاز سے قبل بھارتی اور پاکستانی فضائیہ کی پہلی باقاعدہ جھڑپ ہوئی جس میں سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی اور فلائٹ لیفٹننٹ امتیاز بھٹی نے چار بھارتی ویمپائر طیارے مار گرائے۔ ویمپائر پرانی طرز کے برطانوی ساختہ طیارے تھے ۔ اس “سانحے” کے بعد بھارتی فضائیہ نے ان طیاروں کے دو سکواڈرن گرائونڈ کر دیے۔

چھھ ستمبر کی شب بھارتی فوج نے لاہور، قصور اور سیالکوٹ کے بین الاقوامی بارڈر پر حملے کا آغاز کیا جس کے متعلق عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ کشمیر کی صورتحال نازک ہونے پر بھارتی حکومت نے جوابی کارروائی کی۔ تاہم اس سلسلے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ لاہور کے محاذ پر جنرل نرنجن پرشاد کی جیپ سے ملنے والےکاغذات کے مطابق لاہور پر حملے کا منصوبہ ستمبر تو کیا، اگست میں بھی نہیں بنا تھا جب پاکستان نے کشمیر میں آپریشن جبرالٹر کا آغاز کیا تھا۔ یہ منصوبہ دراصل رن کچھ کی جھڑپوں کے بعد اس وقت بنایا گیا تھا جب بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اب ہم اپنی مرضی کا محاذ کا چنیں گے۔ 1965 کے 36 برس بعد بھی 2001 میں بھارتی فوج کو پاکستان کی سرحد پر مکمل فوج لانے میں دو ماہ کا عرصہ لگاتھا، اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس وقت بھارت بیک وقت تین محاذوں پر حملے کے لیے پوری فوج صرف دو ہفتوں میں لے آیا ہو۔ بھارت مئی کے بعد سے ہی لاہور پر حملے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھا تاہم ہماری انٹیلی جنس ان تیاریوں سے کافی حد تک بے خبر تھی۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے کارپرداز اسے کشمیر میں جاری کارروائی کے تناظر میں ہی دیکھتے رہے ہوں۔ تاہم یہ بدترین نالائقی اور نا اہلی کی ایک مثال تھی کہ دشمن ہمارے مرکزی شہروں کے دروازوں پر کھڑا تھا اور ہمیں اس کی خبر ہی نہ ہوئی۔

یہ جو ہمارے ہاں مطالعہ پاکستان کے نصاب میں لکھا جاتا ہے کہ بزدل دشمن نے اچانک حملہ کردیا، یہ بات سرے ہی سے غلط ہے۔ دشمن نہ تو بزدل تھا اور نہ اس نے اچانک حملہ کیا تھا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی ملک کے بچوں کو سکولوں میں اتنا تحقیقی سچ نہیں پڑھایا جاتا جتنا ہمارے بعض دانشور محض اپنی دکان چمکانے کے لیے واویلا کرتے ہیں۔ کیا بھارت کی نصابی کتب میں کشمیر اور حیدرآباد کے معاملے پر سچ لکھا ہے؟ چلیے بھارت تو ہمارے جیسا ہی ہے، کیا جاپان کے سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ جاپانی فوج نے چینی منچوریا میں کیسے کیسے انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا ہے؟ کیا امریکی سکولوں کے نصاب میں اس کا ذکر ہے کہ سرمایہ داری نظام کی بقا کے لیے لاکھوں کوریائی اور ویت نامی باشندوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا؟ کیا فرانسیسی سکولوں کے بچے جانتے ہیں کہ افریقہ میں ان کی مہذب قوم کیا گل کھلاتی رہی؟ ۔۔۔۔۔ اس طرح کے معاملات بچوں کی ذہنی بلوغت پر چھوڑ دئیے جاتے ہیں اور ہمارے ہاں بھی اس معاملے پر ایسا کوئی قدغن نہیں کہ لوگ سچ نہ جان سکیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے ہاں سچ کی جگہ جھوٹ بولنے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر شائع کرنے کی آزادی بھی ہے تو یہ بھی غلط نہ ہو گا۔

جنگ ستمبر اور اس کے نتائج:

جنگ گا آغاز ہوا تو بھارت کی سات لاکھ فوج کے مقابلے میں ہماری فوج کی تعداد تمام پیرا ملٹری اور نیم فوجی دستے ملا کر بھی اڑھائی لاکھ سے زائد نہ تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگی سازو سامان میں بھی بھارت کو تین سے پانچ گنا برتری حاصل تھی۔ اسی باعث بھارتی قیادت ہی نہیں، دنیا کے بہت سے ممالک کو یقین تھا کہ پاکستان تین دن سے زیادہ بھارت کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔ اسی یقین کے باعث آغاز میں مغربی ذرائع ابلاغ کا جھکائو واضح طور پر بھارت کی جانب تھا۔ نصف شب کے بعد شروع ہونے والے حملے کے متعلق بھارتی جرنیلوں کا خیال تھا کہ وہ دوپہر تک لاہور پر قبضہ کر لیں گے اور شام کا جام لاہور جمخانہ میں نوش فرمائے جانے والی بات تو زبان زد عام ہے۔ اگرچہ ہمارے بعض دانش ور اس سے بھی اختلاف کرتے ہیں ۔۔۔۔ ان کا خیال غالباً یہ ہے کہ بھارتی فوج لاہور جین مندر میں ناریل توڑنے اور پرشاد کھانے کے لیے آرہی تھی۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ازحد ضروری ہے جس کے باعث ہمارے نونہال دانشور دلیل لاتے ہیں کہ چونکہ بھارتی فوج کے زیر قبضہ پاکستانی علاقہ، پاکستان کے زیر قبضہ بھارتی علاقے سے زیادہ تھا، اس لیے بھارت کو فاتح قرار دیا جانا چاہیے۔ ہمارے ان دانشوروں کو تاریخ کے علاوہ جغرافیے اور میپ ریڈنگ کا فن بھی سیکھنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اس جنگ کے غیر جانبدار تجزیے کے لیے پاکستان کے دفاعی منصوبے کا جائزہ لینا چاہیے۔ پاکستان بھارت کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک ہے، جس کے وسائل اور عسکری قوت ہمیشہ بھارت سے کم رہے ہیں۔ 1947 میں تقسیم ہند کے موقع پر بھی فوجی اثاثے ملکوں اور آبادی کے تناسب سے تقسیم کیے گئے تھے۔ اگرچہ اس تناسب کے اصول پر بھی پورا عمل نہیں ہوا اور پاکستان کے حصے میں اس سے کم سازوسامان آیا جتنا کہ اسے ملنا تھا۔ ماضی کو پس پشت ڈالتے ہوئے پاکستان نے اپنے دفاع کے لیے ہاتھ پائوں مارنے شروع کیے، برطانیہ اور امریکا سے کچھ ہتھیار خریدے گئے، کچھ سیٹو اور سینٹو میں شمولیت کے باعث ملے ۔۔۔ (اس سلسلے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ چین سے جنگ کے بعد بھارت نے دنیا میں زیادہ رونا رویا تو امریکا نے فوری طور پر وہ فوجی سازوسامان بھی بھارت بھجوادیا جو سیٹو اور سینٹو معاہدوں کے باعث پاکستان روانہ کیا جانا تھا۔ اس سلسلے میں ایسی جلد بازی کی گئی کہ اسلحے کی پیٹیوں پر سے “ایڈ فار پاکستان” کے الفاظ بھی نہ مٹائے گئے۔ بھارتیوں نے بھی یہ الفاظ مٹانے پر توجہ نہ دی اور اتفاقاً جب اس میں کچھ اسلحہ میدان جنگ میں پسپا ہوتے وقت بھارتی فوج نے پیچھے چھوڑا تو یہ پیٹیاں پاکستانی فوج کے ہاتھ لگیں۔ افسوس کہ دوستی کا یہ نمونہ دیکھ کر بھی پاکستان کی فوجی قیادت کا امریکا سے عشق کبھی کم نہ ہوا) تاہم اس سب کچھ کے باوجود ہماری عسکری قوت بھارت سے کم ہی رہی۔ اسی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارا جنگی منصوبہ ہمیشہ ہی سے جارحانہ نہیں، بلکہ دفاعی تھا۔ اور اسی دفاعی منصوبے کا ایک اہم جزو تھی بی آر بی نہر۔ یہ نہر نواب افتخار ممدوٹ کی وزارت اعلی کے دنوں میں تعمیر کی گئی تھی اور اس کا واحد مقصد لاہور کے دفاع کو مضبوط بنانا تھا۔ دفاعی منصوبہ سازوں کا پہلے روز ہی سے یہ منصوبہ تھا کہ کسی بھی بھارتی حملے کو سرحد کے پانچ میل (آٹھ کلومیٹر) اندر اس نہر پر روکا جائے گا کیونکہ پنجاب کے میدانی علاقوں میں جغرافیائی رکاوٹیں زیادہ نہیں پائی جاتیں، اس لیے لاہور جیسے مرکزی حیثیت کے حامل لیکن سرحدی شہر کے دفاع کے لیے یہ رکاوٹ بنائی گئی۔ سترہ روزہ جنگ کے دوران اپنی مختصر فوج کے ساتھ پاکستان نے لاہور کا دفاع کم و بیش اس نہر کےکناروں پر ہی کیا۔
(جاری)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply