یومِ مزدورسپیشل۔۔۔۔نا قابل تحریر/محمد خان چوہدری

فارم ایریا میں دن طلوع آفتاب سے بھی پہلے شروع ہو جاتا ہے،شہر میں جب لوگ ناشتہ کرتے ہیں تو یہاں دوپہر کے کھانے کا وقت ہوتا ہے،گرمیوں میں تو دس گیارہ بجے تک لوگ اور مویشی کسی درخت کے نیچے چلے جاتے ہیں۔۔

ایسی ہی دوپہر تھی، بڑی سڑک کو گاڑی موڑی، سپیڈ کم تھی،سامنے وہ دو تھیلے لئے  سائے میں کھڑی تھی، ہاتھ کا اشارہ کیا۔۔۔تو خدشہ اور خدمت کی کشمکش میں گاڑی روک لی،اس نے دروازہ کھول کے تھیلے اندر رکھتے ہوئے  کہا۔۔۔۔۔۔شکر ہے میری دعا سُنی گئی، اور فرنٹ سیٹ پہ بیٹھتے ہی بولنے لگی،
صاحب جی میں چھ نمبر فارم والی باجی کے ہر ہفتے کام پہ  آتی ہوں،واپسی پہ  حاجی صاحب سٹاپ پہ  چھوڑ دیتے ہیں، آج وہ گھر نہیں ،میں پیدل چلی جاتی پر باجی نے یہ راشن دیا ہے، گرمی بہت ہے اسے اٹھا کے چلنا مشکل تھا۔۔۔پکٹ پہ  گارڈز نے سیلوٹ کیا، تو بولی۔۔۔۔
آپ بھی حاجی صاحب کی طرح افسر ہیں،
وہ تو پہلے کراچی کمپنی رہتے تھے میں تب ان کے گھر کام کرتی تھی،نوکری پوری کر کے یہاں آ گئے  ہیں۔
نیک لوگ ہیں، کام تو چھ سات دن ہی کرنے آتی ہوں،مہینہ کی تنخواہ پوری دو ہزار دیتے ہیں اور راشن بھی۔۔

غور سے اسے دیکھا چالیس سال کے لگ بھگ ،اور اچھی شکل کی عورت تھی۔۔اب پولیس کی پکٹ آ گئی  تو اس نے منہ ڈھانپ لیا، آگے نکلے تو کہنے لگی
یہ پلس بڑی گندی ہے، اکیلی گزرنے والی ہر عورت کو دھندہ کرنے والی سمجھتے ہیں،
میرا آدمی تو چار سال پہلے بلڈنگ سے گر کے مر گیا تھا، مزدوری کرتا تھا۔۔۔
اب ساس اور دو بچیوں کو میں کیسے پالوں،
میں باجی سے راشن اور پیسے جو لیتی ہوں ان کا ہی کھانا بناتی ہوں،بچیوں کو اگر حرام کا رزق کھلاؤں تو   صاب جی، وہ حرام کاری ضرور کریں گی،
باقی خرچے میں اپنے دھندے کی کمائی  سے پورے کرتی ہوں۔۔

دو چار گھروں میں یا کوئی  اور کام لگا لینا تھا، پہلا  سوال ہم نے پوچھا۔۔۔
اس نے اپنی بات ہی جاری رکھتے ہوئے  کہا۔۔۔۔۔جی لگایا ہوا ہےاسی گھر میں،جو حاجی صاحب کی جگہ لوگ آئے ہیں بیگم کو گھر الاٹ ہوا ہے،
وہ دفتر چلی جاتی، صاحب کا کاروبار ہے وہ زیادہ گھر ہوتا ہے۔بچے سکول چھوڑنے اور لانے بس، ایک دن گھر میں ہم دونوں ہی تھے،اس نے مجھے ایک ہزار  پہ  راضی کر لیا،اب بھی میں ان کے برتن دھونے جاتی ہوں، جس کے وہ دو ہزار دیتے ہیں۔۔۔۔
صاحب لگے دنوں کے حساب سےمہینے میں آٹھ دس ہزار دےدیتے ہیں۔۔۔۔ایک اور ملک صاحب ہیں، ان کا گھر خالی ہو تو بلا لیتے ہیں،چھ سات ہزار ان سے بھی مل جاتے ہیں،
ویسے بھی چلتے پھرتے گاہک مل جاتے ہیں ان سے ہزار روپیہ گھنٹہ لیتی ہوں،بس کوارٹر کا کرایہ بل اور اوپر کا خرچہ اس سے چل جاتا ہے۔
لیکن صاحب جی میری بچیاں مولوی صاب کی بیگم سے قرآن پڑھ رہی ہیں۔اور سرکاری سکول میں بھی، میری ساس ان کی نگرانی رکھتی ہے پر صاحب جی  میں ان کو حلال کی کمائی  علیحدہ رکھ کے اس کا رزق کھلاتی ہوں۔۔۔اور اس میں ایک لقمہ بھی میری دوسری کمائی  کا نہیں  ہوتا،

یہ عقل کیسے سیکھی۔۔۔؟میں  نے  دوسرا سوال پوچھ ہی لیا،
بولی اپنی ماں سے۔۔
جب میں چھوٹی تھی ابا کام پے چلا جاتا تو گلی کے نکڑ والی دکان والے چاچا  ہمارے گھر آ جاتے، مجھے ٹافیاں دے کے ڈیوڑی میں بٹھا کے  وہ اور اماں کمرہ اندر سے بند کر لیتے، جب چاچا چلا جاتا تو اماں نہاتی ضرور تھی،اسی دکان سے سودا بھی آتا تھا۔
اب جو یہ میں کر رہی ہوں یہ میری ماں کی اسی حرام کمائی  کے لقمہ کا اثر ہے۔۔۔۔۔۔بس یہاں سٹاپ پہ گاڑی روک لیں، یہاں سے کراچی کمپنی کی ویگن جاتی ہے،

ترتے ہوئے  بولی صاحب آپ فرشتہ ہو، مجھے یہاں پہنچا دیا۔۔۔۔اور میرے ذہن کا بوجھ بھی آپ سے بات کر کے ہلکا ہو گیا،

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم اس دن سے اس الجھن میں پھنسے ہیں کہ وہ کیا تھی ؟
کیا وہ مزدور ہے ، اگر ہے تو اسکی اجرت کس مد میں ہے؟
ہاتھوں کی مزدوری جائز ہے تو بدن کی مزدوری کیسے ناجائز ٹھہری؟؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply