انشائیہ : چن چن دے سامنے آگیا ۔۔۔۔ لالہء صحرائی

چھوٹی عید کا چاند سمارٹ ہوتا ہے۔ یہ فوری طور پر نافذ العمل ہو جاتا ہے۔ اس لئے اگلی ہی صبح عید کرنی پڑتی ہے۔ بڑی عید کے چاند میں بڑاپن اور بُردباری ہوتی ہے، اس لئے دس دن سوچنے سمجھنے اور تیار ہونے کی مہلت دیتا ہے۔ اس دوران سیانے لوگ سوچ سمجھ کے یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اس بار کس کو شاپنگ کرانی ہے اور کسے جھنڈی دکھانی ہے۔ شاپنگ سے بچت ہوجائے تو بکرا وکرا بھی لے لیتے ہیں ورنہ بکروں کے حق میں انسانیت برتنے جیسے بیانات دیتے ہیں۔

دونوں عیدوں کا پہلا سنگ میل چاند رات ہی ہے اور یہی قوم پر بھاری ہوتی ہے۔ اس رات جو بھی چھت پہ جاتا ہے ضروری نہیں وہ بامراد بھی ہو۔ ان بیچاروں کی اکثریت کیرانچی ہلال کمیٹی جیسی ہوتی ہے، چند ایک پشاور جیسے کامران بھی نکلتے ہیں۔

مفتی صاحب جب بھی کہتے ہیں میں چاند دیکھنے جارہا ہوں تو کوئی شک نہیں کرتا بلکہ سب کے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ اس بیچارے نے کونسا دیکھ ہی لینا ہے۔ جب کوئی عام آدمی کہتا ہے میں چاند دیکھنے جا رہا ہوں تو بیشتر ہاتھ پکڑ کے روک لیتے ہیں یا ساتھ چل پڑتے ہیں کیونکہ اس نے ضرور کوئی نہ کوئی دیکھ ہی لینا ہوتا ہے۔

ممکنہ چاند رات میں کسی کو نیلی چھت کا چاند نہیں ملتا تو کسی کو قریبی چھت کا چاند دکھائی نہیں دیتا۔ نیلی چھت کا چاند ڈھونڈنے والے مسلسل منہ اٹھائے بیٹھے ہوتے ہیں اور قریبی چھت کا چاند دیکھنے والے بیچارے کبھی دائیں، کبھی بائیں اور کبھی اوپر نیچے دیکھ دیکھ کے گردن میں بل ڈلوا لیتے ہیں۔

مفتی صاحبان چاند پر ہمیشہ دو میں سے ایک رائے ضرور چنتے ہیں، آج ہوگا یا پھر آج نہیں ہوگا۔ ان کی چنی ہوئی رائے ہی طے کرتی ہے کہ اس رات ان کے اپنے ساتھ کیا ہوگا، قوم انہیں غائبانہ کیا کچھ کہے گی۔ آپ کے پاس اگر چاند ہے اور آپ مفتی صاحب نہیں ہیں تو پھر آپ کے پاس کوئی چوائس بھی نہیں ہے، آپ کو صرف ایک ہی رائے چننی ہوگی کہ “میرا چاند زمانے سے جدا ہے یارو” ورنہ چاند آپ کو “دفع دور ہو جا” کہہ دے گا۔ چونکہ آپ کے پاس چوائس ایک ہی ہے اس لئے سزا بھی ایک اور کہنے والا بھی ایک ہی ہے۔ بعض کا حوصلہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے وہ اپنی زندگی کو چار چاند لگانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ چار چاند لگانے کا کوئی نقصان بھی نہیں بجز اس کے کہ ایک ہی جملہ چار بار سننا پڑ سکتا ہے اور کیا ہوگا۔

برے وقت میں یا اناڑی پن میں سر دست آپ کا چاند لیلٰی جیسا سرمئی بھی ہو تو بھی رائے یہی رکھنی ہو گی کہ “میرا چاند تو زمانے سے جدا ہے یارو”۔ ایسے سرمئی چاند کو جذبات میں آکے بھولے سے بھی کبھی چاند جیسا مت کہنا ورنہ مذاق سمجھ کے وہ برا مان جائے گا، جب ایکسیلینٹ جیسا مغالطہ آمیز لفظ موجود ہے تو کلیئر اسٹیٹمنٹ دینے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ کلیئر اسٹیٹمنٹ دینے والوں پہ بریک۔اپ کے دو برقی حروف برق بن کر گرتے ہیں اور پاؤں جوڑ کے تعریف کرنیوالوں پہ عموماً لو۔یو۔ٹو کے تین حرف بھیجے جاتے ہیں، گناہ اس کے علاوہ ہے۔

پشور والے مفتی صاحب کا چاند ایک دو روزے کم کرانے کا پکا ضامن ہے۔ اس لئے سب کے من کو بھاتا ہے۔ لیکن اس میں قباحت یہ ہے کہ جب بھی نکلتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے چاند نہیں کوئی پھوڑا نکلا ہے۔ ہر طرف بے مصرف بحث کے ساتھ بیکار قسم کا درد سا پھیل جاتا ہے۔ پھر مفتی کیرانچوی صاحب کا چاند نکلنے سے بھی اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنی ہونی چاہئے بس یوں لگتا ہے جیسے اس قومی پھوڑے پہ پھاہا رکھ دیا گیا ہو۔

ماضی میں تذکرہء ہلال کے ساتھ ایک رومانویت کا عنصر غالب ہوا کرتا تھا۔ چاند کی یاد آوری کے ساتھ ہی چاندنی رات کی ٹھنڈک، ماموں کا چہرہ، ننھیال کا آنگن، نانی کا پیار، بچوں کو چرخہ کاتنے والی بڑھیا اور نوجوانوں کو محبوب کی شکل یاد آجاتی تھی۔ استاد صاحبان بھی اپنے اشعار میں کیسے کیسے خوبصورت مضمون باندھا کرتے تھے۔

؎ دے انہیں جنبش کبھی عہد وفا کے واسطے
تیرے ہونٹوں میں نہاں میرا ہلال عید ہے

؎اس کے آبروئے خمیدہ کی طرح تیکھا تھا
اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چبھا عید کا چاند

لیکن اب تذکرہء ہلال کے ساتھ صرف ہلال کمیٹی یاد آتی ہے یا اس ریس میں اول دوم آنے والے مفتی صاحبان۔ چاند سے متعلق ہمارے تنازعات دیکھ کے اب باقی دنیا بھی ہوشیار ہو رہی ہے۔ شنید ہے، اسی صدی میں چاند سے متعلق عالمگیر سطح پر بھی تنازعات کا آغاز ہو جائے گا جس کی بدولت دنیا چاند کے اوپر جا کے لڑا کرے گی۔ ہم کئی “سال” سے زمین پر بیٹھے بیٹھے چاند کیلئے لڑ رہے ہیں اور موجودہ نیت کے مطابق آئندہ ایک دو صدی تک ہمارا یہی کچھ کرنے کا ارادہ ہے۔ سال کی جگہ “سالوں” اس لئے نہیں لکھا کہ اس لفظ کے دو معنی ہیں، متعصب حضرات کہیں اس کا دوسرا مطلب نہ لے لیں۔

کہتے ہیں وقت بہت اچھا مرہم ہے۔ واقعی یہ مقولہ درست ہے لیکن ہر جگہ نہیں۔ آسمانی چاند کو گرہن لگتا ہے تو تھوڑے سے وقت میں ٹھیک ہو جاتا ہے، زمینی چاند کو غم لگتا ہے تو عمر بھر ساتھ ہی رہتا ہے۔ مفتی صاحب کو ایک دن چاند نہیں ملتا تو اگلے دن مل جاتا ہے، ہمیں جس چاند کی تلاش ہوتی ہے وہ ساری عمر نہیں ملتا۔ ملتا ہے تو چمن میں دیدہ ور پیدا ہونے جتنا وقت لیتا ہے۔ بعض اوقات کسی کے پاس چاند دیکھ کر لگتا ہے یہ میرے پاس ہونا چاہئے تھا۔ اکثریت کا چاند کسی دوسرے کے پاس ہے اور ان دوسروں کا چاند پہلے والوں کے پاس ہے۔ ان سب کو ایک جگہ بٹھا کر نقطے ملائے جائیں کہ کس کا چاند کس کے پاس ہے تو اسپائڈر ویب سے زیادہ گنجلک چارٹ مرتب ہو سکتا ہے۔ انسان کا چاند سے تعلق ایسا عجیب ہے کہ جو کسی کا کچھ نہیں لگتا وہ بھی ہر چاند کا کچھ نہ کچھ لگتا ہے۔ کسی نے ایک سیانے سے پوچھا میرا چاند کب ملے گا، بابے نے جواب دیا حوصلہ رکھو، جلدی مل جائے گا، زمانہ کافی خراب ہے۔

گرہن سے یاد آیا، ماہرین فلکیات کہتے ہیں چاند جب زمین کے سامنے آجائے تو سورج کو گرہن لگتا ہے اور زمین جب چاند کے سامنے آجائے تو چاند کو گرہن لگتا ہے۔ ہمارے ماہرین ٹھرکیات کہتے ہیں اگر چاند چاند کے سامنے آجائے تو عاشق کا سر پھٹتا ہے، اور جب چاند بیوی کے سامنے آجائے تو اگلے دن تینوں میں سے کسی ایک کے قل ہوتے ہیں۔ کسی نے کہا آج چاند کو گرہن لگا ہے تو کُکو نے کہا میں کیا کروں، میرے اپنے چاند کو روزہ لگا ہے۔ جمی کا کہنا ہے چاند کو گرہن بیشک لگے مگر پمپل کسی قیمت پر نہ نکلے۔ اور نکلنا ضروری ہے تو ایک پمپل دوسرے سے کم از کم دو ہونٹوں کی جگہ چھوڑ کر نکلے۔ یہی گزارش تیسرے پمپل سے ہے۔

آسمانی چاند دیکھنے میں ہلکا پھلکا نظر آتا ہے اسی لئے لوگ جذبات میں آکے زمینی چاند بھی گود میں اٹھا لیتے ہیں۔ پٹھے چڑھنے، چُک پڑنے اور مہرے کھسکنے کی معروف وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے لیکن مانتا کوئی نہیں۔ شائد یہ جرم تو جائز ہے مگر اقبال جرم منع ہے۔ یا پھر لوگ ہسپتال جانے سے ڈرتے ہیں اس لئے تفصیلات بتانے کی بجائے پتھر گرم کرکے پٹھوں کو سینک لیتے ہیں۔ جمی کے بقول ہسپتال کا خوف دور کرنے کیلئے وہاں تینوں شفٹوں میں چاند رکھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ بات سرعام ہسپتال کے باہر لکھی نہیں جا سکتی کہ اندر چاند موجود ہیں اس لئے ہسپتال کے باہر چاند کی شکل بنا دی جاتی ہے تاکہ لوگ ان کے ہاتھوں اپنا کوئی علاج کرالیں۔ مگر اکثر لوگ وہاں جاتے اس وقت ہیں جب محلے میں چاند کے بھائیوں سے ملاقات ہو جائے۔

ہر چیز کے کچھ فائدے اور نقصانات ہوتے ہیں، اوپر والا چاند دیکھ کے روزہ شروع ہوتا ہے تو زمینی چاند دیکھ کر روزہ قضا بھی ہو سکتا ہے۔ اسی لئے سیانے کہتے ہیں چڑھا چڑھایا چاند دیکھنا ثواب کا کام ہے لیکن خود سے کوئی چاند چڑھانا کسی نہ کسی خلفشار کا باعث بنتا ہے۔ آسمانی چاند سمندر میں مدوجزر لاتا ہے تو زمینی چاند دل میں جوار بھاٹا پیدا کرتا ہے۔ آسمانی چاند ننگی آنکھ سے نظر نہیں آتا اور زمینی چاند خود جب تک نیم عریاں نہ ہو تو دیکھنے کا مزا نہیں آتا۔ بعض چاند پرست دوست کہتے ہیں زمینی چاند جب سر پہ سوار ہو تو آسمانی چاند بھی رومانٹک نظر آتا ہے ورنہ دوسروں کے چاند پہ سخت غصہ آتا ہے۔

؎کچھ تو ویسے ہے رنگین لب و رخسار کی بات
اور کچھ خون جگر ہم بھی ملا دیتے ہیں

ادیب حضرات نے اس قسم کی بہت سی لفظی ترکیبیں ایجاد کیں جو زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہ تھیں جیسے آنگن میں اترا چاند، جھروکے میں چاند، کھویا کھویا چاند وغیرہ۔ لیکن جنہیں چاند سے سچی محبت ہوتی ہے وہ چاند کو شیشے میں اتار کے اور بعض تو مرزے مرحوم کی طرح کیمرے میں اتار کے بھی دیکھ لیتے ہیں۔ کیمرے میں تو سب سے پہلے اتارتے ہیں اور موبائل کے اندر لئے پھرتے ہیں۔ کالج کے ایک لڑکے سے استاد نے پوچھا وہ کونسا سیارہ ہے جس پر چار سے زیادہ چاند ہوتے ہیں؟ تو لڑکے نے جواب دینے کی بجائے فوراً اپنا موبائل چھپا لیا۔

کسی لیریسسٹ نے خیال کا گھوڑا دوڑایا اور ایک خوبصورت گانا تخلیق کیا جس میں محبوب اپنے چاند سے پوچھتا ہے، چن کتھاں گزاری ائی رات وے۔ لیکن اب ایسے سوال جواب کی نوبت نہیں آتی۔ چاند جب بے وفائی پر اتر آئے تو خود ہی جمی کو بتا دیتا ہے کہ اب میری سیٹنگ ککو کے ساتھ ہو گئی ہے، کل سے مجھے پک اینڈ ڈراپ دینے کی ضرورت نہیں۔

غریب آدمی کا بٹوہ پیاز کاٹنے جیسی تاثیر رکھتا ہے یعنی خالی دیکھ کے رونا آجاتا ہے۔ غریب آدمی کا چاند بھی صرف خواب و خیال میں ہوتا ہے۔ کبھی ملوانے کا کہہ دو تو بیچارے کو پھر سے رونا آجاتا ہے۔ جبکہ امیر آدمی کا چاند موجود ہوتے ہوئے بھی اسے خون کے آنسو رلاتا ہے۔ اس لئے چاند وہی اچھا ہے جس میں وضع داری ہو۔ چاند دیکھنے والی آنکھ میں بھی حیا ہو تو رومانس پیدا ہوتا ہے۔ چاند ہمیشہ وضع داری سے طلوع ہوتا ہے۔ پہلے محبوب کی کمر جیسا باریک پھر محبت کی طرح دن بدن جوان ہوتا ہے۔ جوان چاند میں کسی کو محبوب کا عارض نظر آتا ہے تو کسی کو روٹی، کسی کو جذبات کا گرداب تو کسی کو چاندنی کی ٹھنڈک۔ چاند کے گھٹنے بڑھنے میں سو طرح کے رومان پوشیدہ ہیں لیکن اس اتار چڑھاؤ کا لطف صرف شاعر ہی لے سکتے ہیں یا ان کے اشعار سن کر مزید ترسنے والے۔

رومانس کی رو میں بہتے ہوئے چاند دیکھنے والوں کے انداز بہت نرالے ہوتے ہیں۔ وہ راتوں کو یہ سوچ کر چاند دیکھتے ہیں کہ شائد ان کا محبوب بھی اسوقت چاند دیکھ رہا ہو، کچھ لوگ صحن میں چارپائی پر لیٹ کر چاند دیکھتے ہیں، کچھ ندی میں اس کا عکس دیکھ کر رومانس ڈھونڈتے ہیں، کچھ جھیل میں چاند کا رخ تلاش کرکے من بہلاتے ہیں اور جہاں یہ سہولیات میسر نہ ہوں وہاں بھانڈے میں پانی ڈال کر اس میں بھی چاند دیکھ لیا جاتا ہے۔ بیہودے عاشق کمرے میں لیجا کر تفصیل سے چاند دیکھتے ہیں پھر باہر آکے خود ہی اپنا بھانڈا پھوڑتے ہیں کہ ہم نے چاند کو یوں اور یوں اور یوں کرکے دیکھا۔ جو خود نہ بتانا چاہیں ان کی رپورٹ چُرا کر سائبر مافیا چلا دیتا ہے۔

پرانے سیانے کہتے تھے اڑتا ہوا تیر نہیں لینا چاہئے، اب تازہ سیانے کہتے ہیں چلتا پھرتا چاند بھی نہیں لینا چاہئے، یہ بھی اڑتے ہوئے تیر پکڑنے جیسا ہی خطرناک کام ہے۔ اس لئے کہ اب مکافات عمل فوراً آڑے آجاتی ہے۔ دنیا بھر کے مفتی حضرات عاشقوں اور مہ رخوں کو دامے درمے سخنے ڈراتے تھے لیکن جب مکافات کا دور شروع ہوا تو الٹے بانس بریلی کو، اب الٹے چاند مولویوں کے اسکرین شاٹ بھی لگا دیتے ہیں۔

مولوی صاحبان کی بھی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں اسلئے عوام کو ڈرا کے رکھتے ہیں یا کہیں رکھ کے ڈرا دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک مولوی صاحب ہمارے گاؤں میں بھی آگئے۔ مسکین آدمی تھے، کم تنخواہ میں کام پہ لگ گئے۔ شائد انہیں امید تھی کہ عیدین پر کچھ خدمت وغیرہ ہو جائے گی تو سال بھر کا خرچہ ایوریج کرکے چل ہی جائے گا۔ پہلی عید کا موقع آیا تو نماز کا وقت صبح ساڑھے سات بجے مقرر تھا مگر نو بج گئے اور مولوی صاحب کی خدمت کیلئے اعلانات کرکرکے ان کے عقیدتمند کا گلا تقریباً بیٹھ گیا لیکن مولوی صاحب کی خدمت پچیس روپے سے زیادہ نہ ہو سکی۔ بالآخر نمبر دار صاحب نے حاتم طائی کی قبر پہ پوچا لگا کے اپنے سابقہ دو روپے میں پانچ روپے اپنی طرف سے مزید ملا دیے اور مولوی صاحب کی کل خدمت کا انڈیکس پچیس روپے سے بڑھا کے تیس کی آخری بلندترین سطح تک پہنچا دیا۔ تب خدا خدا کرکے نماز ہونے کے کچھ آثار پیدا ہوئے۔

ہم جیسے نوعمر لڑکے جنہیں بعد از نماز کھیل کود کی جلدی تھی وہ سب نمبردار صاحب کے بے حد ممنون ہوئے کہ انہوں نے جماعت کھڑی ہونے کا کام آسان کرکے گویا حشر کی گرمی میں سائبان فراہم کر دیا ہے۔ بلکہ میرے ایک دوست تو نمبردار صاحب کی اس سخاوت کے بعد سخت شرمندہ بھی تھے کہ ایسے نیک طبع انسان کی چھوٹی صاحبزادی کو وہ ہلال عید سمجھ کر ناحق دیدے پھاڑ پھاڑ کے دیکھا کرتے تھے۔

عید کی نماز کا طریقہ سب کو اتنا ہی پتا ہوتا ہے جتنا میرا جی کو اپنی اصل عمر کا یا ہمارے حکمرانوں کو عوام کی فلاح و بہود کا پتا ہے۔ لہذا سب نے مولوی صاحب سے نماز عید کا طریقہ سن کر جتنا یاد ہوا اتنا یاد کر لیا، باقی کیلئے تانک جھانک کی نیت کرلی۔

خدا گواہ ہے، ہم سے سکول کا کام دوماہ کی چھٹیوں میں کبھی پورا نہ ہوا اور چوبیس گھنٹے کی مہلت پر بھی کبھی سبق یاد نہ ہوا تو اتنے مختصرالمعیاد نوٹس پر نماز کی تکبیریں کیسے یاد ہوتیں۔ چنانچہ آنکھ بند کرکے یا آنکھ چرا کے عید کی نماز مکمل کرلی تو پتا چلا کہ اس نماز میں کچھ زیادہ ہی گھمبیر کام ہو چکا ہے۔ کھڑے کھڑے سلام پھیر کر حیران تو ہم بھی تھے لیکن سمجھ اس وقت آئی جب نماز کے بعد ایک صاحب باآواز بلند مولوی صاحب سے استفسار کرنے لگے کہ یہ تو عید کی نماز نہیں تھی، آپ نے تکبیریں ادا کرنے کا طریقہ تو بالکل صحیح بتایا لیکن بعد ازاں جو نماز پڑھائی ہے وہ نماز جنازہ سے عین مماثلت رکھتی ہے۔

مولوی صاحب نے الوداعی نیت سے قدم اٹھاتے ہوئے ارشاد فرمایا چوہدری صاحب سارا سال کم تنخواہ پہ گزارنے کے بعد جب عید پر بھی خاطرخواہ خدمت نہ ہو تو پچیس تیس روپے میں صرف نماز جنازہ ہی پڑھائی جا سکتی ہے۔ سارا سال انتظار کرنے کے بعد جب عید کا چاند متنازع ہو جائے یا زمینی چاند روٹھ جائے تو ہماری حالت بھی ان مولوی صاحب جیسی ہو جاتی ہے کہ شراب سیخ پہ ڈالی کباب بوتل میں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چاند رات اور عید آنے والی ہے۔ مفتی صاحبان اور قیس نما دوست پھر سے اداس ہیں کیونکہ موقع ہی ایسا ہے۔ کسی کو آسمانی چاند اور کسی کو زمینی چاند ہلکان کرے گا۔ میرے بھائیو اس خوشی کے موقع پر اداس مت ہوں۔ مطلوبہ چاند نہ ملا تو جلد ہی کوئی دوسرا چاند مل جائے گا کیونکہ بقول سیانے کے زمانہ بہت خراب ہے۔ ویسے بھی ہر چاند کے طلوع ہونے اور بریک۔اپ میں جانے کا ایک وقت مقرر ہے۔ عید کے بعد تو بعض کی شادی کا وقت بھی مقرر ہے۔ لہذا ان چکروں کو چھوڑو، گھر سے تکبیریں یاد کرکے عیدگاہ جانا، مولوی صاحب کی دل کھول کر خدمت کرنا اور آنکھیں کھلی رکھنا ورنہ پتا نہیں چلے گا کس غم میں کونسی نماز پڑھ ڈالی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply