• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ثور انقلاب سے پہلے اور بعد کا افغانستان۔۔۔زی۔ کے

ثور انقلاب سے پہلے اور بعد کا افغانستان۔۔۔زی۔ کے

افغانستان کی صدیوں پر محیط تاریخ میں افغان ثور انقلاب اور اس کے نتیجے میں قائم ہونیوالی انقلابی حکومت کے اقدامات‘ افغانستان کی تاریخ کا وہ واحد سنہرا باب ہے جسے شاہوں اور شہنشاہوں کی بجائے عام انسانوں نے رقم کیا۔ اس خطے کی تاریخ کا بقیہ حصہ یا تو درباری مورخین کی ریاکاریوں، سفاکیوں اور مکاریوں کی نذر ہوا یا پھر اس رومانویت کی بھینٹ چڑھ گیا جس نے تاریخ کو ایک مقدس صحیفے میں تبدیل کر دیا ہے اور اس سے وابستہ افراد جن میں اکثریت شاہوں کی ہے کو مقدس ہستیوں کے درجہ پر فائز کر دیاگیا ہے۔ تاہم اگر ان دونوں انتہاﺅں سے خود کو بچاتے ہوئے ہم انقلاب سے پہلے کے افغانستان کا سائنسی جائزہ لیں تو ہمیں اس خطے میںداخلی طور پرانتہائی غربت، پسماندگی، بیگانگی ،بیروزگاری ، لاچاری، بیماری اور افلاس کا ایسا تاریک اور مسلسل دور نظر آتا ہے جس سے ماسوائے امان اللہ خان کے دیگر تمام حکمرانوں نے چشم پوشی اختیارکیے رکھی۔ خارجی طور پر افغانستان اپنی جیو پولیٹیکل اور جیو سٹراٹیجک اہمیت کی بنا پر لمبے عرصے تک روسی زار شاہی اور برطانوی سامراج کے درمیان کھیلی جانے والی گریٹ گیم کے زیر اثر رہا جس کے اثرات اس پر مختلف طرح سے پڑتے رہے اور اس دوران یہ سامراجی قوتیں اس خطے پر براہ راست چڑھائی بھی کرتی رہیں۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں تین اینگلو افغان جنگیں لڑی گئیں۔ یکم مارچ 1919ء کو امان اللہ خان افغانستان کے امیر بنے اور افغانستان کے استقلال کا اعلان کیا۔ امان اللہ خان نے تخت نشین ہونے کے بعد سب سے پہلے سویت یونین کی اشتراکی حکومت ہی سے رابطہ کیا تھا چنانچہ 17 اپریل 1919ء کو انہوں نے تاشقند کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی آف سویت یونین کے پولٹ بیوروکے صدر کو خط لکھا جس میں کہا گیا کہ ”آپ اور آپ کے ساتھی انسانیت کے بہترین دوست ہیں۔ آپ نے امن عالم کی عظیم اور قابل احترام ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی ہے۔ آپ نے اس کرہ ارض پر بسنے والی تمام اقوام اور ممالک کی آزادی ، خودمختاری اور برابری کے اصول کو تسلیم کیا ہے۔ میں افغانستان کے دلیر اور آزادی پسند عوام کی طرف سے آپ کو دوستی اور خیر سگالی کا پیغام بھیجتے ہوئے مسرت محسوس کرتا ہوں۔ “ لینن کے دستخطوں سے اس پیغام کا جواب بھیجا گیا جس میں کہا گیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات سے دوستی اورتعاون کی راہیں کھلیں گی اور انسانیت کے ان دشمنوں کے ارادوں کو ناکام بنایا جاسکے گا جو دوسری قوموں کی آزادی اور ان کی دولت لوٹنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
مئی 1919ء کوامان اللہ خان کی افواج نے تیسری اینگلو افغان جنگ کے دوران سرحدی افغان قبائل کے ساتھ مل کربرطانوی سامراج کو شکست دی اور اسی سال اگست میںراولپنڈی میں افغان برطانیہ مذاکرات کے نتیجے میں برطانیہ نے افغانستان کی آزادی و خود مختاری تسلیم کرلی۔ 28 فروری 1921ء کو افغانستان اور سویت یونین کے درمیان معاہدہ طے پایا جسے لینن نے ان الفاظ میں سراہا، ”افغانستان ان ممالک میں سے ہے جس کے نمائندے کو ہم نے سب سے پہلے بصد مسرت ماسکو میں خوش آمدید کہا تھا ہم اس لئے بھی مسرور و شادمان ہیں کہ دوستی کا سب سے پہلا معاہدہ جو افغانستان نے کسی ملک سے کیا تھا وہ سویت روس ہی ہے۔“ برطانوی سامراج اس معاہدے کے سخت خلاف تھا اور اپنے سفیر کے ذریعے افغانستان پر دباﺅ بھی ڈالا کہ اسے ختم کرے لیکن امان اللہ خان نے ایسا نہیں کیا۔ چنانچہ برطانوی سامراج نے افغانستان میں اپنی مداخلت جاری رکھتے ہوئے امان اللہ خان کو ہٹانے کا فیصلہ کیا کیونکہ امان اللہ خان نہ صرف خارجی طور پر ایک سامراج دشمن پالیسی اپنائے ہوئے تھا بلکہ زبردست اندرونی اصلاحات لانے اور افغانستان کے پسماندہ سماج کو افلاس اور جہالت سے نکالنے اور ثقافتی طور پر بلند کرنے کی پالیسی پر گامزن تھا۔ بالخصوص اپنے دورہ یورپ سے لوٹنے کے بعداس نے ایسے اقدامات کیے جن سے قبائلی سرداروں کی مراعات ختم ہونے لگیں ان کے مفادات خطرے میں پڑنے لگے۔ سود وغیرہ پر پابندی لگی۔ درجنوں تعلیمی ادارے قائم کئے گئے۔ 1922ء میں پہلی مرتبہ تعلیم کی وزارت قائم کی گئی اور شہزادہ عبدالرحمان کو افغانستان کا پہلا وزیر تعلیم مقرر کیا گیا۔ ملکہ ثریا نے 1921ء میں پہلی مرتبہ لڑکیوں کا اسکول کھولا۔ ان اقدامات سے ملاﺅں، مشائخ اور قبائلی سردار برہم ہونے لگے اور انہوں نے برطانوی ایجنٹوں کی ایما پر امان اللہ خان کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ سر کاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں کو کافر کہا جانے لگا۔ اس پروپیگنڈے سے جدید تعلیمی اداروں، جو حکومت کی سرپرستی میں تھے، اور روایتی تعلیمی مراکز، جو زمینداروں، قبائلی سرداروں اور مذہبی رہنماﺅں کی سرپرستی میں چلتے تھے، کے درمیان ایک تضاد پیدا ہوا۔ اس انتشار اور بیرونی انتہا پسند عناصرکی مداخلت کے باعث شاہ کے خلاف جنوری 1929ء میں بغاوت ہوگئی۔ امان اللہ خان خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرکے یورپ چلے گئے۔ کابل پر ایک عسکریت پسند ڈاکو حبیب اللہ کلاکانی عرف ”بچہ ثقہ“ نے قبضہ کر لیا اور اپنے نو ماہ پر مشتمل اقتدار میں امان اللہ خان کے دور میں کیے گئے تمام ترقی پسندانہ اقدامات کو تاراج کر دیا۔ بچہ ثقہ اور قبائلی و مذہبی شدت پسندوں نے تمام سکول بند کر دیے۔ بعد میں برطانوی سامراج ہی کی ایما پر پیرس میں مقیم افغان سفیر جنرل نادر خان کو افغانستان آنے کی دعوت دی گئی جس نے افغانستان آکر بچہ ثقہ اور اسکے دیگر ساتھیوں کو قتل کیا اور افغانستان میں نادر شاہی دور کا آغاز کیا۔
نادر خان کا تعلق انگریزوں کے ایک پرانے کاسہ لیس سلطان محمد خان طلائی کے خاندان سے تھا اور امان اللہ خان نے اسے برطانوی سامراج سے تعلقات کی بنا پر وزارت سے ہٹا کر فرانس میں سفیر بنا کر بھیجا تھا۔ نادر خان نے بھی اقتدار میں آتے ہی امان اللہ کے دور میں ہونے والے ترقیاتی اقدامات کونشانہ بنانا شروع کیا اور سابقہ شاہ کے مخالفین خصوصاً سرداروں اور مذہبی رہنماﺅں سے تعلقات استوار کیے‘ جو آخر کارریاستی امور میں حصہ دار بن گئے۔ نادر خان نے ان گنت روشن خیال لوگوں اور سیاسی طور پر فعال مخالفین وغیرہ کو قید میں ڈال دیا یا نظر بند کر دیا۔ وہ ”تقسیم کرو اور حکمرانی کرو“ کی پالیسی پر گامزن رہا اور پشتونوں کو تاجکوں کےخلاف ابھارا۔ اس کے علاوہ پکتیا اور شمال کے درمیان پھوٹ ڈالی۔ 1933ء میں ایک تقریب میں نادر خان کو ایک ایسے شخص نے قتل کر دیا جس کے ساتھی کو اس نے ناحق تختہ دار پر لٹکایا تھا۔
نادر خان کے قتل کے بعد اس کے بیٹے ظاہر شاہ کو بادشاہ بنایا گیا۔ ظاہر شاہ اس وقت 19 برس کا تھا۔ لہٰذا سلطنت کا سارا انتظام اس کے چچا محمد ہاشم خان کے پاس رہا۔ ہاشم خان ایک انتہائی ظالم اور جابر حکمران تھا۔ اس کے دور میں سلطنت کا خفیہ ادارہ کافی فعال تھا اور اسکے پاس لامحدود اختیارات تھے۔ اس استبدادی صورتحال کی وجہ سے سماج میں شدید بے چینی اور غصہ پایا جاتا تھا۔ چنانچہ پکتیا، کٹواز اور کُنڑ کے علاقوں میں اس کے خلاف زبردست احتجاج ہوا۔ اس عوامی احتجاج کو بہت سختی سے کچلا گیا۔ ظلم و استبداد کا یہ سلسلہ کم و بیش سترہ سال تک جاری رہا۔ سماج کے اندر پائی جانے والی نفرت مزید بڑھتی گئی اور عام لوگ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے لگے۔ خطرے کو محسوس کرتے ہوئے ہاشم خان کو صدارت عظمیٰ چھوڑنی پڑی اور اس کی جگہ اس کا بھائی شا ہ محمود وزیر اعظم بنا۔
عالمی سطح پر دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہوچکا تھا اور دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔ اندرونی دباﺅکم کرنے اور بدلتے ہوئے عالمی حالات کے زیر اثر افغانستان میں پہلی مرتبہ سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی گئی۔ اسی دوران مختلف ترقی پسند مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد، جن میں نور محمد ترہ کئی، میر غلام محمد غبار، گل باچا الفت، عبدالروف بینوا، فیض محمد انگار ، ضمیر صافی، صدیق اللہ ریشتین، محمد صدیق فرہنگ اور دیگر شامل تھے، نے”ویشن زلمیان“ یا ”بیدار نوجوانان“ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے مقاصد میں اجتماعی اصلاحات لانے کے لئے کوشش کرنا اور ان طبقات کے مفادات کے لئے آواز اٹھانا شامل تھا جنہیں طویل عرصہ سے مستقل استبدادی صورتحال اور استحصال کا سامنا تھا۔ تاہم اس تنظیم میں مختلف نظریات کے تحت لوگ اکھٹے ہوئے تھے۔ ویش زلمیان ایک جریدے ’انگار‘ کا بھی باقاعدگی سے اجرا کرتی تھی۔ ویش زلمیان سے وطن اور ندائے خلق کے نام سے دیگر سیاسی تنظیمیں بھی نکلیں۔ 1949ء میں بلدیاتی شوریٰ کے انتخابات کرائے گئے تو 120 میں سے 50 نشستیں انہی تنظیموں کے پاس چلی گئیں۔ ریاست نے جب اس کامیابی اور ویش زلمیان کے نمائندوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی تنقید کو دیکھا تو ان کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگادی اور اکثر نمائندوں کو گرفتار کرکے قید خانوں میں ڈال دیا۔ 1953ء میں شاہ محمود کی جگہ داﺅد خان وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوا اور 1963ء تک اس عہدے پر رہا۔ ان دس برسوں میں افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں پشتونستان کے مسئلے پر شدید کشیدگی آئی۔ پاکستان کی جانب سے بارڈر بند کر دیا گیا جس سے افغانستان میں سنگین معاشی صورتحال پیدا ہو گئی۔ ظاہر شاہ نے داﺅد سے استعفیٰ طلب کر لیا۔ 1964ء میں ظاہر شاہ نے نیا آئین نافذ کیا اور آزاد انتخابات کا اعلان کیا۔
یکم جنوری 1965ء کو نور محمد ترہ کئی کے گھر پر ببرک کارمل، ڈاکٹر شاہ ولی، ڈاکٹر محمد ظاہر طوطا خیل، عبدالکریم میثاق، ظاہر افق، طاہر بدخشی،عطا محمد شیرازی، عبدالحکیم جوزجانی، محمد عیسیٰ کارگر اور دیگر کی موجودگی میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA) کی تاسیسی کانگریس ہوئی۔ پارٹی میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو ویش زلمیان سے وابستہ رہے تھے اور جن کی شعوری سطح اب اتنی بلند ہو چکی تھی کہ وہ پی ڈی پی اے کی بنیاد مارکسسٹ لینن اسٹ اصولوں پررکھنا چاہتے تھے۔ پارٹی کی تشکیل کے بعد اس کے پروگرام اور جدوجہد کو کابل سے باہر افغانستان کے دیگر حصوں میں پھیلایا گیا۔ تاہم پارٹی کا اثرورسوخ درمیانے طبقے کے ان پڑھے لکھے لوگوں میں زیادہ رہا جو مختلف تعلیمی اداروں سے بطور طالب علم یا استاد منسلک تھے۔ افغانستان میں نہ تو کوئی کلاسیکی بورژوازی وجود رکھتی تھی نہ ہی پرولتاریہ اُس طرح سے موجود تھا۔ لہٰذا پارٹی درمیانے طبقے تک محدود رہی۔ تاہم پارٹی نے فوج میں اپنے لئے جگہ بنا لی تھی۔ فوج میں زیادہ تر کام حفیظ اللہ امین کے ذریعے ہوا جو پارٹی کے تاسیسی اجلاس کے دوران امریکہ میں زیر تعلیم تھا۔ جب 1966ء میں پی ڈی پی اے کے جریدے”خلق“ پرمحض چھ شمارے شائع ہونے کے بعد پابندی لگی تو ظاہر شاہ حکومت کیساتھ اِس معاملے کے حوالے سے پی ڈی پی اے میں اختلافات پیدا ہونے لگے۔ دوسر ا اہم ایشو ایک متحدہ قومی محاذ بنانے کا سوال تھا۔ 1967ء میں پارٹی میں ان جیسے داخلی اختلافات کی بنا پر دھڑے بندی ہوئی اور وہ ’خلق‘ اور ’پرچم‘ کے دھڑوں میںتقسیم ہو گئی۔ نور محمد ترہ کئی اور حفیظ اللہ امین خلق کی قیادت کرنے لگے جبکہ ببرک کارمل، میراکبر خیبر ، عنایت راتب زادہ و دیگر پرچم دھڑے کی۔
1971-72ء میں افغانستان میں شدید قحط سالی ہوئی جس سے مرکزی اور شمال مشرقی افغانستان میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ ظاہر شاہ نے اس واقعے سے چشم پوشی اختیار کیے رکھی جس کی وجہ سے لوگ اس سے سخت نالاں تھے۔ اس دوران مناسب موقع پا کر سابق وزیر اعظم سردار محمد داﺅد خان نے 17 جولائی 1973ء کو (جب ظاہر شاہ علاج کی غرض سے اٹلی میں تھا) نام نہاد ”سفید انقلاب“ کے ذریعے شاہ کے اقتدار کا خاتمہ کیا اور افغانستان میں جمہوریت کا اعلان کر دیا۔ داﺅد نئی جمہوریہ کا صدر بن گیا۔ اُس نے مختلف وعدے کر کے لوگوں کو اپنی طرف راغب کیا۔
17 اپریل 1978ء کو کابل میں میر اکبر خیبر ، جن کا تعلق پی ڈی پی اے کے ’پرچم‘ دھڑے سے تھا، کو قتل کر دیا گیا۔ 19 اپریل کو جنازے کی رسوم میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوئے جن میں خلق اور پرچم کے کارکنان کی ان گنت تعداد بھی شامل تھی اور پوری پارٹی لیڈرشپ موجود تھی۔ نور محمد ترہ کئی اور دیگر نے تعزیتی اور احتجاجی تقاریر کیں نیز اس قتل کو حکومت کے استبدادی اور آمرانہ اقدامات کی ایک کڑی قرار دیا۔ حکومت نے بوکھلاہٹ میں آکر پارٹی کی لیڈرشپ اور دیگر کارکنان کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا عمل شروع کر دیا۔ دوسری جانب پی ڈی پی اے نے حالات کے تقاضے کو بھانپتے ہوئے فیصلہ کن اقدام کے طور پر انقلابی سرکشی کی کال دے دی۔ زمینی افواج اور فضائیہ میں موجود خلقی افسران اور کیڈرز کی کثیر تعداد حرکت میں آگئی۔ ائیرچیف کے معاون جنر ل عبدالقادر نے کابل سے 30 میل دور بگرام کے ہوائی اڈے سے سوویت ایس یو بمبار طیاروں کے ذریعے صدارتی محل پرحملے شروع کر دئیے۔ جبکہ زمینی محاذ پر محمد اسلم وطنجار نے ٹینکوں سے صدارتی محل پر گولے داغے۔ صدارتی محل پرمسلسل چار گھنٹے تک طیاروں نے بم برسائے۔ اندر سے اٹھارہ گھنٹے تک مزاحمت جاری رہی۔ اس کے بعد 27 اپریل 1978ء کو انقلابی افواج محل کے اندر داخل ہوگئیں۔ یوں نہ صرف داﺅد آمریت بلکہ افغانستان میں نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے جاری ظلم و استبداد، معاشی بدحالی اور پسماندگی کا ثور انقلاب کے ہاتھوں خاتمہ ہونے جا رہا تھا۔ یہ نہ صرف افغان عوام بلکہ خطے بھر میں مظلوم و محکوم طبقوں کی استبدادی حکمران طبقے کے خلاف ایک ایسی جیت تھی جس کی پوری افغان تاریخ میں کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔ ثور انقلاب کی گونج ہزاروں میل دور تک سنی گئی اور حکمران طبقات خوفزدہ ہوگئے۔ انقلابی تبدیلی کے بعد فوج نے اقتدار جلد ہی پی ڈی پی اے کے انقلابی رہنماﺅں کے حوالے کر دیا۔ عوامی سطح پر انقلاب کا پر جوش خیر مقدم کیا گیااور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کی انقلابی حکومت کو خوش آمدید کہا گیا۔
اگر چہ یہ کوئی کلاسیکی پرولتاری انقلاب نہیں تھا لیکن نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لئے انتہائی ترقی پسندانہ اقدام تھا۔ انقلابی حکومت کی کابینہ نے اپنی منصوبہ بندی اور پروگرام کو مختلف فرمانوں (Decrees) کے ذریعے جاری کرنا شروع کیا۔ انقلابی فرمان نمبر 6 کے تحت محروم طبقات پر استحصال کرنے والے طبقات کی بالا دستی اور برتری کے خاتمے کا اعلان کیا گیا اور خلق پارٹی کی رہنمائی میں ایک نئے جمہوری معاشرے کی بنیاد ر کھنے کا عندیہ دیا گیا۔ اس حکم نامے کے تحت سود اور رہن کے خاتمے کا انقلابی اقدام اُٹھایا گیا تھا اور تمام سود معاف کر دیا گیا۔ 1973ء کے بعد سے قرضہ جات اور گروی شدہ اراضی کی واگزاری کا اقدام بھی اسی حکم نامے کے تحت ہوا۔ انقلابی فرمان نمبر 7 کے تحت ولور (جہیز) کا خاتمہ کیا گیا ، عورتوں کی مساوی حیثیت کی ضمانت دی گئی اور انہیں قانون کی رو سے برابر قرار دیا گیا۔ ازدواجی رشتوں میں جبر کے عنصر کا خاتمہ کیا گیا۔ اس حکم نامے کے آرٹیکل نمبر 4 کے تحت کسی بیوہ کو شادی سے روکنے یا زبردستی شادی کرانے کو ممنوع قرار دیا گیا جیسا کہ عام طور پر مختلف قبائلی رشتوں وغیرہ کو محفوظ اور برقرار رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے جبکہ اس میں عورت کی مرضی شامل نہیں ہوتی۔ اسی طرح جب تک کسی لڑکی کی عمر 16 برس اور لڑکے کی 18 برس نہ ہوجائے ان کی منگنی یا شادی پر پابندی لگا دی گئی۔ حق مہر کی رقم 10 درہم جو تب تین سو افغانی بنتے تھے رکھی گئی تھی۔ اس حکم نامے نے افغان سماج میں نہایت پسماندہ ، فرسودہ اور استبدادی رسوم و اقدار کو تاریخ میں پہلی مرتبہ چیلنج کیا اور باقاعدہ طور پر پسے ہوئے طبقات خصوصاً عورت کو ان سے نجات دلانے کا بیڑا اٹھایا۔ اسی طرح فرمان نمبر 8 کے تحت اراضی کی نیشنلائزیشن اور زرعی وسائل کی منصفانہ تقسیم وغیرہ سے متعلق اقدامات کیے گئے۔
انقلابی حکومت کے ان اقدامات سے گیارہ ملین کسانوں کو نسل در نسل چلے آ رہے سود سے نجات ملی۔ عورتوں کو ان حقوق کے دلوانے کی منصوبہ بندی کی گئی اور یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہیں شادی کر سکتی ہیں جس سے پہلی مرتبہ انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ کسی کی ملکیت نہیں بلکہ خود مختار انسان ہیں۔ دیگر انقلابی اقدامات میں حاکم طبقات کی مختلف پرتوں مثلاً نام نہاد پیروں، خوانین، شاہوں ، ملکوں ، سرداروں ، نوابوں و دیگر کو نکیل ڈالی گئی۔ جہالت کا خاتمہ کرنے کے لئے نہ صرف درسگاہیں کھولی گئیں بلکہ ان میں تنقیدی اور تعمیری اقدار و انقلابی روایات کو فروغ دینے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ ناخواندگی کے تیز اور مکمل خاتمے کے لئے تعلیم بالغاں کے وسیع منصوبے شروع کیے گئے۔
ایسے اقدامات کے خلاف علاقائی اور عالمی سامراجی قوتوں کا یکجا ہونا ناگزیر تھا۔ امریکہ، برطانیہ، ایران، سعودی عرب اور پاکستان سمیت ساری دنیا کے حکمران طبقات اور سرمایہ دارانہ ریاستیں اس انقلاب سے سخت خطرات محسوس کرنی لگےں۔ چنانچہ پی ڈی پی اے حکومت روزِ اول سے داخلی اور خارجی سطح پر سازشوں کا شکار رہی۔ ماسکو کی سٹالنسٹ بیوروکریسی نے انقلاب، جو اُن کی مرضی اور معلومات کے بغیر ہوا تھا، کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنی شرمناک مداخلت سے حفیظ اللہ امین اور نور محمد ترہ کئی کے درمیان رخنے ڈالے۔ نور محمد ترہ کئی قتل کرا دیئے گئے اور پھر جب حفیظ اللہ امین ان کے قابو میں نہیں آرہے تھے تو 27 دسمبر 1979ء کوافغانستان میں فوجیں داخل کر کے انہیں قتل کر دیا گیا۔ ان کی جگہ پرچم دھڑے کے لیڈر ببرک کارمل کو افغانستان کا صدر بنادیا گیا۔ سویت یونین کی افغانستان میں فوجی مداخلت نے امریکی سامراج کی مداخلت، جو کئی مہینے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی، کو جواز فراہم کیا اور سامراج کی گماشتہ مقامی رجعتی قوتوں کو بھی اپنے زہریلے پراپیگنڈے کے لئے ریفرنس پوائنٹ مل گیا۔ ڈالر جہاد میں بیش بہا پیسہ لگا کر نام نہاد مجاہدین گروہوں کو تخلیق کیا گیا۔ ان کی مستقل فنانسنگ کے لئے منشیات کی تیاری اور ترسیل کا پورا نیٹ ورک بچھایا گیا۔ سینکڑوں مدرسے اور ٹریننگ کیمپ قائم کیے گئے جن میں پڑھایا جانے والا زہریلا نصاب امریکہ سے چھپ کے آتا تھا۔ یہ بنیاد پرستی، منشیات اور کلاشنکوف کلچر پاکستانی معاشرے کی رگوں میں بھی سرایت کر کے ایک ناسور کی شکل اختیار کرتا گیا۔ سوویت یونین کے انخلا تک اس جنگ (دسمبر 1979ء تا فروری 1989ء) کے دوران 15,000 روسی فوجی ہلاک ہوئے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پی ڈی پی اے (جس کا نام اب بدل کے حزبِ وطن رکھ دیا گیا تھا) کی حکومت انتہائی تنہائی اور معاشی بدحالی کا شکار ہو گئی اور اپنے داخلی تضادات اور غداریوں کی وجہ سے 1992ء میں آخری صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کے استعفیٰ کے بعد ختم ہوگئی۔
اس کے بعد افغان خانہ جنگی کا سب سے خونی دور شروع ہوا جب مجاہدین گروہ کالے دھن اور اقتدار کی بندر بانٹ پہ آپس میں دست و گریبان ہو گئے اور افغانستان کو کھنڈر بنا کے رکھ دیا۔ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، ڈاک، رہائش اور پانی کی فراہمی وغیرہ کا جو انفراسٹرکچر پی ڈی پی اے کے دور میں بنا تھا‘ برباد کر دیا گیا۔ سوویت فوجوں کے نکل جانے کے بعد امریکیوں کی دلچسپی تو اِس خطے میں کم ہو گئی لیکن بنیاد پرستی اور منشیات کے کالے دھن کے جس عفریت کو انہوں نے یہاں پیدا کیا تھا وہ پھلتا پھولتا رہا۔ 1995ء میں امریکی سی آئی اے اور پاکستانی ریاست کی پشت پناہی سے طالبان کو تیار کر کے افغانستان پر ننگی رجعت کو مسلط کر دیا گیا۔
افغانستان کو انقلابی دور سے گزرے عرصہ ہوگیا ہے لیکن اس انقلاب کے خلاف جس ردِ انقلابی کھیل کا آغاز کیا گیا تھا اس کی آگ نے آج پورے خطے کو مسلسل عدم استحکام اور خونریزی میں جھونک رکھا ہے۔ آج افغانستان کے بیشتر حصوں پر انہی طالبان گروہوں کا کنٹرول ہے جن کے خلاف جنگ میں امریکی سامراج نے پچھلے اٹھارہ سال یہاں بارود برسایا ہے اور نہ جانے کتنے معصوموں کا قتل عام کیا ہے۔ ایک طرف سامراجی دہشت ہے‘ دوسری طرف بنیاد پرستی کی وحشت ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان آج کل ’مذاکرات‘ ہو رہے ہیں۔ پورے خطے کو غیر مستحکم کرنے کے بعد امریکیوں کو یہاں سے جانے کا راستہ نہیں مل رہا۔ اس نظام سے اب صرف خون اور بارود کی بو ہی آتی ہے۔ افغانستان کی تاریخ میں ثور انقلاب ہی وہ سنہرا باب ہے جس کی روشنی میں نئی نسل کو اپنا مستقبل تخلیق کرنا ہو گا۔ انہیں پورے خطے کے محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں کی یکجہتی سے ایک نیا ثور انقلاب برپا کر کے ادھورا تاریخی فریضہ ادا کرنا ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ طبقاتی جدوجہد

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply