پاکستان میں صوبائی قوم پرستی۔۔سلیم احسن /حصہ اول

پاکستان میں قوم پرستی، اور اس سے متعلق علیحدگی پسندی کو سمجھنے سے لیے ضروری ہے کہ ہمیںProvince یعنی ‘صوبے’ اورStateیعنی ‘ریاست’ کے درمیان فرق کا علم ہو۔ یہ دونوں، یعنی صوبہ اور ریاست، ملکوں میں قائم انتظامی اکائیوں کی مختلف قسمیں ہیں۔ ہم پہلے ان کے درمیان فرق کو سمجھیں گے پھر دیکھیں گے کہ پاکستان کے تناظر میں کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بات قوم پرستی سے بڑھ کر علیحدگی پسندی تک پہنچ جاتی ہے۔

اگر ایک ملک اپنے قیام کے وقت یا اس کے بعد اپنے علاقے میں مختلف انتظامی اکائیاں بنا دیتا ہے تو وہ اکائیاں ‘صوبے’ کہلائیں گی۔ یہ ہر ملک کا اپنا اندرونی معاملہ ہے کہ وہ کن بنیادوں پر صوبے بناتا ہے۔ ان کے قیام کی ایک بنیاد پہاڑی سلسلوں یا دریاؤں جیسی قدرتی سرحدوں کے باعث بنے مختلف جغرافیائی علاقے ہو سکتے ہیں، ایک اور وجہ مختلف آبائی زبانیں بولنے والے لوگوں کے علاقوں کو الگ الگ صوبے بنانا ہو سکتی ہے یا تاریخی طور پر الگ سمجھے جانے والے علاقوں کو صوبے کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔

صوبوں کے قیام کی وجہ کچھ بھی ہو ان کے قائم ہو جانے کے بعد مرکزی حکومت اپنی مرضی سے یا کسی فارمولے کے تحت کچھ اختیارات صوبوں کو منتقل کر دیتی ہے۔ اس انتظام کے تحت صوبائی حکومتیں قائم ہوتی ہیں جن کی اپنی وزارتیں ہوتی ہیں اور وہ حکومتیں اور وزارتیں ان اختیارات کے تحت کام کرتی ہیں جو ‘مرکز’ نے انہیں دیے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ صوبوں کے اپنے عدالتی اور پولیس کے نظام ہو سکتےہیں اور ان کی اپنی صوبائی اسمبلی بھی ہو سکتی ہے جو اپنے صوبے کی حد تک قانون سازی کر سکتی ہے۔ اس انتظام میں مرکزی حکومت بہت مضبوط ہوتی ہے اور اس کے پاس صوبوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اختیارات ہوتے ہیں۔ اس صوبائی بندوبست کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں:

پہلی قسمUnitary state
کہلاتی ہے جس میں مرکز بہت زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور صوبوں کو کم سے کم اختیارات دیے جاتے ہیں اور مرکز کو یہ حق حاصل ہوتا ہے جب اپنی صواب دید پر جو اور جتنے اختیارات چاہے واپس کے سکتا ہے۔

دوسری قسم Federation
ہے۔ اس نظام میں مرکز صوبوں کو کافی زیادہ اختیارات دیتا ہے اور یک طرفہ طور پر کوئی چیز واپس نہیں لے سکتا۔ پاکستان اٹھارویں ترمیم کے بعد بہت حد تک فیڈریشن بن گیا ہے، گو کہ مجھے ٹھیک سے معلوم نہیں کہ مرکز کے یکطرفہ طور پر صوبوں سے اختیارات واپس لینےکاحق واپس لے لیا گیا ہے یا نہیں۔

اس کے برعکس ،اگر پہلے سے موجود کچھ خود مختار یا نیم خود مختار علاقے مل کر اپنے علاقوں پر مشتمل ایک نیا ملک قائم کرنے کا فیصلہ کریں تو وہ اکائیاں صوبے نہیں کہلائیں گی، بلکہ ‘ریاست’ کہلائیں گی۔ اس انتظام میں ملک قائم کرنے کا فیصلہ کرنے والی اکائیاں طے کرتی ہیں کہ مرکزی حکومت کو کون کون سے اختیارات دینے ہیں۔ اس انتظام میں مرکزی حکومت کمزور ہوتی ہے اور اصل طاقت ریاستوں کے پاس ہوتی ہے۔

اسی طرح ایک سے زیادہ ملک مل کر ایک نیا ملک بنانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ایک ملک جو پہلے سے موجود ممالک مل کر بنائیں اس انتظام کو Confederation کہتے ہیں۔

صوبوں اور ریاستوں کا فرق سمجھنے کے بعد اب پاکستان اور اس میں پائی جانے والی قوم پرستی، اور اس کی کوکھ سے نکلنے والی علیحدگی پرستی کو دیکھ لیتے ہیں۔

پاکستان نام کا ملک قائم تو 14 اگست 1947 کو ہوا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا تھا کہ اس کی آبادی اس کے قائم ہونے کے دن کہیں اور سے آ کر اس میں آباد ہوئی ہو۔ جن علاقوں میں پاکستان بنا وہ ہمیشہ سے موجود ہیں اور یہاں پر لوگ معلوم تاریخ سے بھی پہلے سے بستے ہیں۔

جو علاقے پاکستان میں شامل ہوئے وہ اور ان میں بسنے والے لوگ موجود تو ہمیشہ سے ہیں، لیکن وہ تاریخی طور پر مستقلاً یا طویل عرصوں تک کسی ایک مخصوص انتظام کے تحت نہیں رہے ہیں۔ بر صغیر میں تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف سلطنتیں قائم رہی ہیں جن کی سرحدیں پھیلتی اور سکڑتی رہی ہیں۔ کبھی کسی شہزادے نے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کر کے اس صوبے کو اپنی سلطنت قرار دے دیا جس کا گورنر اسے اس کے باپ نے لگایا تھا، کبھی بادشاہ کے کسی جرنیل نے بغاوت کر کے اپنے زیر کمان سپاہیوں کی مدد سے کسی جگہ اپنی بادشاہت قائم کر دی۔ یہاں مختلف وقتوں میں مختلف خود مختار اور نیم خود مختار ریاستیں بھی وجود رکھتی رہیں ہیں۔ پھر یہاں پر صدیوں تک غیر ملکی حملہ آور آ کر لوٹ مار بھی کرتے رہے ہیں اور حکومت بھی۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ بر صغیر پر حملہ آور ہمیشہ ہی تعداد میں مقامی آبادی سے بہت کم ہوتے تھے اور وہ جس جس علاقے پر بھی اپنی حکومت قائم کرتے تھے وہاں کا انتظام مقامی لوگوں کے ذریعے چلایا کرتے تھے۔ جب تک ان حملہ آوروں کے بس میں حکومت کرنا ہوتا تھا وہ تب تک کرتے تھے، پھر یا تو خود اپنے آبائی علاقوں میں واپس چلے جاتے تھے، اس صورت میں ان کے نامزد کردہ مقامی گورنر اور دیگر افسران وہاں کے نواب اور رئیس وغیرہ بن جاتے تھے؛ یا کوئی اور حملہ آور انہیں ہرا کر ان کی جگہ خود حکم ران بن جاتا تھا۔ نئے آقاؤں کو بھی حکومت کرنے کے لیے مقامی لوگوں کی ضرورت پڑتی تھی۔

جب میں اس تاریخ کو سامنے رکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ زمانۂ قدیم سے ہی لوگوں کا جینا مرنا اپنے ہی علاقوں میں ہی ہوتا تھا جہاں ان کا واسطہ اپنے علاقوں میں موجود اپنی قوم کے لوگوں سے پڑتا تھا، یہاں تک کہ ان کے علاقوں میں تعینات گورنر، افسر شاہی اور داروغہ وغیرہ بھی مقامی ہوتے تھے۔ اس لیے ان کا سابقہ اپنے خطے کے اصل حکم رانوں سے اور دار الحکومت میں موجود دربار کے رئیسوں سے پڑتا ہی نہیں تھا۔ چوں کہ اس زمانے میں ذرائع مواصلات اور سفر کی سہولیات بہت ترقی یافتہ نہیں تھیں اس لیے انہیں زیادہ اندازہ نہیں ہوتا ہوگا کہ ان سے مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف رسوم و رواج رکھنے والے لوگ بھی ان کے ساتھ کسی بڑی ریاست یا سلطنت کی رعایا شمار ہوتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ان وجوہات کی وجہ سے بر صغیر کے لوگوں کی ہمدردیاں اور وفاداریاں کسی بڑے انتظام سے وابستہ نہیں ہو پائیں، بلکہ اپنے روائتی علاقوں سے ہی وابستہ رہیں۔ اسی لیے یہاں کے بسنے والے لوگ ‘قوم’ کی اصطلاح ایک زبان بولنے والوں، یا ایک جیسی رسوم و رواج رکھنے والوں، یا ایک سی ثقافت رکھنے والے لوگوں، یا ایک روائتی طور پر مخصوص علاقے کے باسیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں؛ ایک سلطنت یا ملک کے رہنے والوں کے لیے نہیں۔

جب انگریز برصغیر میں آئے تب یہاں مغل سلطنت ایک وسیع علاقے پر حکمران تھی، لیکن پورے بر صغیر پر نہیں۔ یہاں مغلوں کے عروج کے دور میں بھی مختلف ریاستیں اور راج واڑے ہوا کرتے تھے جن میں سے کچھ مغلوں کے باج گزار ہوتے تھے اور کچھ نہیں۔ کچھ تو مغل سلطنت سے حالت جنگ میں بھی رہتے تھے۔ انگریزوں نے بنگال سے اپنی فتوحات کا آغاز کیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ انگریزوں نے علاقے فتح کیے تو اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ برطانوی حکومت نے بر صغیر کے علاقوں پر قبضہ کیا اور ساری جنگیں برطانوی فوج نےلڑی اور جیتی تھیں۔ جس زمانے کا ذکر میں کر رہا ہوں اس زمانے میں ‘انگریز’ کی اصطلاح سے مراد انگریزوں کی قائم کی ہوئی تجارتی کمپنی ‘ایسٹ انڈیا کمپنی’ اور اس کمپنی کی اپنی کھڑی کی گئی افواج ہوتی تھیں جن میں سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد مقامی افراد پر مشتمل ہوتی تھی۔ انہوں نے کچھ نوابوں کو اپنے ساتھ ملا کر دوسرے نوابوں کو شکست دینے کے بعد ان کے علاقوں پر قبضہ کرنے والی ‘تقسیم کرو اور حکومت کرو’ کی پالیسی کے ذریعے برصغیر کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ یہاں تک کہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد تو سارا ڈھکوسلا ختم ہو گیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی (جسے عرف عام میں کمپنی بہادر کہا جاتا تھا) مغل شاہی سلسلے کو ختم کر کے اعلانیہ طور پر بر صغیر کی حکمران بن گئی۔

اس کے بعد 28 جون 1858 کو بر صغیر کی حکم رانی برطانوی حکومت نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے لے لی اور اس تاریخ سے یہ برائے راست تاج برطانیہ کے تحت آ گیا۔ 1872 میں ملکہ وکٹوریا کو باضابطہ ملکۂ ہندEmpress of India کا خطاب دیا گیا۔

انگریزوں نے ویسے تو تقسیم کرو اور راج کرو کی پالیسی پر عمل کر کے بر صغیر کو فتح کیا لیکن ایک بار اس پر قبضہ کر لینے کے بعد انہوں نے اس کو پہلی بار ایک مغربی طرز کا ملک بنایا۔ تاریخ میں پہلی بار انگریزوں کے انتظام کے تحت بر صغیر کے اتنے بڑے علاقے میں، جہاں ہمیشہ سے ہر تھوڑی دور پر کسی دوسرے راجا کی ریاست شروع ہو جاتی تھی جہاں قوانین اس کے راجا کے بنائے ہوئے ہوتے تھے، پولیس اور فوج کی وردیاں اور اسلحہ الگ ہوا کرتا تھا، وہاں یکساں قوانین، ٹیکس، اور ایک حکومت کا انتظام نافذ ہوا جس میں پولیس اور فوج کی وردی، اسلحہ، تربیت وغیرہ سب ایک جیسے ہوتے تھے۔

انگریزوں نے شروع میں کلکتہ اور بعد میں نئی دہلی کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ انہوں نے اپنے زیر انتظام علاقے کو صوبوں میں تقسیم کیا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ انہوں نے نوابوں، مہا راجاؤں، راجاؤں، وغیرہ والی نیم خود مختار ریاستوں کی اجازت بھی دی جو بعض اوقات کسی صوبے کے حدود رابعہ اندر واقع ہوتی تھی، جیسے ریاست پٹیالہ اس وقت کے صوبۂ پنجاب کے اندر واقع تھی، مگر وہاں قانون صوبۂ پنجاب کا نہیں ریاست کے مہا راجہ کا چلتا تھا۔ اس انتظام میں صوبوں کو وہی اختیارات حاصل تھے جو وائسرائے نے انہیں سرکاری طور پر عطا کیے تھے۔ تقسیم ہند کے وقت یہاں 11صوبے اور 565 ریاستیں ہوتی تھیں۔

تقسیم ہند کے عمل کے ذریعے دو ملک قائم کیے گئے جو جدید مغربی طرز کے ملک ہیں۔ یہ دونوں ممالک اپنی ہیئت میں اس بر صغیر سے بالکل مختلف ہیں جس پر انگریزوں نے قبضہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک انگریزوں نےقائم کیے تھے اور یہ انگریزوں، کونگریس پارٹی اور مسلم لیگ کے ساتھ مذاکرات کے بعد طے پانے والے 3 جون 1947 کے سمجھوتے کے تحت قائم کیے گئے تھے۔ اس انتظام کے تحت انگریزوں نے اپنی نو آبادی کو دو ملکوں میں تقسیم کر کے آزادی دی اور خود اپنے ملک چلے گئے۔

ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے بر صغیر کے تمام صوبوں کو آزاد کر کے خود مختار ریاستیں بنا دی ہوں اور ان آزاد ریاستوں نے بعد میں آپس میں مذاکرات کے بعد خود کو ضم کر کے بھارت اور پاکستان نام کے دو ملک بنا لیے ہوں۔

تقسیم ہند کے دوران انگریزوں نے کوشش کی جو ریاستیں بھارت کے حدود رابعہ کے اندر واقع تھے وہ بھارت کے ساتھ الحاق کر کے بھارت کا حصہ بن جائیں اور جو ریاستیں پاکستان کی سر زمین میں واقع تھیں، جیسے بہاول پور، خیر پور، دیر وغیرہ، وہ پاکستان میں ضم ہو جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply