مسیحا یا درندے؟۔۔۔۔ایم۔اے۔صبور ملک

لاریب قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری نسل انسانی کی جان بچائی،اور جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا گویا اس نے پوری نسل انسانی کو قتل کیا،انسانی جان کی حرمت اور انسانی خون کی عصمت کا اس سے بڑا اور کوئی جواز اور ثبوت نہیں،لیکن حیف مملکت خداداد پاکستان میں مسیحا مسیحائی کی بجائے موت کے ہر کارے بن چکے ہیں،انسانی صحت جیسا اہم ترین شعبہ ہمارے ہاں ناتجربہ کارڈاکٹر ز اور عطائیوں کے ہاتھوں میں ہے،ایک ماں جو 9ما ہ اپنے وجود کے اندرایک ننھی سی جان کو پالتی ہے،دوران حمل اور بچے کی پیدائش کے مرحلے میں اذیت ناک درد سہتی ہے،جو صرف ماں او ر ایک عورت ہی جان سکتی ہے،اور پھر پیدائش کے جاں گسل مرحلے کے بعد اپنا رات دن نومولو د کی نشوونما کے لئے اپنا سب کچھ تیاگ دیتی ہے،اس ماں کی شیر خوار جاں اور اس کے چمن کی کسی ننھی کلی،ماں باپ کے دل کا چین،آنکھوں کی ٹھنڈک،گھر بھر میں اپنی نٹ کھٹ شرارتوں سے سب کا دل بہلانے والی جان کو جب ڈاکٹر اور مسیحا کے روپ میں کوئی قصائی اوربھیڑیا مسل دے یا اسکے ننھے سے وجود کو تختہ مشق بنا لے تو ان والدین کے کرب کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس پر یہ قیامت گزری ہو،ابھی کراچی کی ننھی نشوہ کا غم تازہ تھا کہ راولپنڈی کے بے نظیر بھٹو ہسپتال میں 48دنوں کا نومولود فیضان نجی کلینک کے ایک قصائی نما ڈاکٹر کے ہاتھوں غلط انجکشن لگنے سے دم توڑ گیا،بچے کے والد کے مطابق چند دن قبل بچے کو معمولی بخار ہو ا،جس کوگھر کے قریب ایک نجی کلینک لے کرگئے،جہاں ڈاکٹر نے انجکشن منگوانے کا کہا،جو معصوم فیضان کے کو لہوں پر لگایا گیا،ہم بچے کو گھر لے آئے،لیکن تھوڑی دیر بعد بچے نے رونا شروع کردیا، ہم بچے کو بہلاتے رہے بعد ازاں معلوم ہو اکہ کو لہوں پر جہاں انجکشن لگا ہے وہاں سے خون بہنا شروع ہو گیا ہے،رات بھر خون روکنے کی کوشش کرتے رہے دوسرے دن جب دوبارہ اسی نجی کلینک گئے تو وہاں موجود اسی ڈاکٹر جس نے انجکشن لگایا تھا نے کسی نہ کسی طریقے سے خون روک کر ہمیں گھر بھیج دیا،لیکن گھر آکر بچے کی رنگت پیلی ہونے پر ہم بے نظیر بھٹو ہسپتال لے گئے جہاں بچے کی تشویشناک حالت کی وجہ سے اسے آئی سی یو میں منتقل کردیا گیا،ہسپتال کے ڈی ایم ایس سے رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ فیضان کی یہ حالت غلط انجکشن لگنے کہ وجہ سے ہوئی ہے،بچے کی جان بچانے کے لئے بے نظیر بھٹو ہسپتال والوں نے سر توڑ کو شش کی لیکن بچے جانبر نہ ہو سکا،اور نشوہ کی ماں کی طرح ایک اور ماں کی گود اُجڑ گئی،اُدھر آج ہی کے اخبارات میں رپورٹ ہوئے ایک اور واقعہ میں راولپنڈی کے ہی ایک نجی کلینک میں ڈاکٹر ز کی مبینہ غفلت سے مری کے رہائشی محمد شاکر علی کو بخا رہونے کے باعث نجی کلینک لایا گیا،جہاں مریض کوغلط ادویات دینے کی وجہ سے حالت غیر ہونے پر ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی منتقل کیا گیا،جہاں دوران علاج محمد شاکر علی دم توڑ گیا،علاقہ ازیں ملتان کے چک نمبر 109جہانیاں کے رہائشی کو نشتر روڈ ملتان کے ایک نجی کلینک میں دوران آپریشن انستھیزیا زیادہ مقدار میں دے دیا گیا،بعد از آپریشن دو دن تک ہوش نہ آنے کے بعد عالم بے ہوشی میں ہی مریض کی موت واقع  ہو گی،یہ صرف گزشتہ تین چار دن کے ناتجربہ کار اور عطائی قسم کے ڈاکٹروں اور ا ن کوالیفائیڈ پیرا میڈیکل سٹا ف کے ہاتھوں جان سے جانے والے معصوم بچوں اوران شہریوں کا حال ہے جن کے واقعات رپورٹ ہوئے،اور میڈیا کی وساطت سے باقی دنیا کو بھی اس سے آگہی حاصل ہوئی،وگرنہ اس طرح کے بے شمار ایسے واقعات ہر روز پاکستا ن کے گلی کوچوں میں کھلے نجی ہسپتالوں،کلینک اور حتی کے کیمسٹ حضرات نیز میڈیکل سٹورز،ڈینٹل کلینک،حکیموں کے ہاں ہوتے ہیں جہاں لو گ اپنے جسم کو کوئی نہ کوئی عضو ضائع کروا کر یا جان سے ہاتھ دھو کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں،وفاقی اور صوبائی سطح پر ان عطائیوں اور جعلی ڈاکٹرز کو چیک کرنے کے لئے اتھارٹی ہو نے کے باوجود یہ لوگ اتھارٹی کی جانب سے کارروائی مثلاً کلینک سیل یا جرمانہ ہونے کے کچھ عرصے بعد دھڑلے سے اپنا کاروبار دوبارہ سے کھول لیتے ہیں،شنید یہ بھی ہے کہ مرکز اور صوبائی سطح پر محکمہ صحت کی کچھ کالی بھیڑیں ان سے حصہ بقدر جشہ وصول کر کے ان کی جانب سے اپنی آنکھیں موند لیتے ہیں،اور نتیجتاًہر چند دن بعد کوئی نشوہ،کوئی فیضان کوئی محمد شاکر علی اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے،کچھ دن ایسے واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے اور پھر کیس داخل دفتر اور قصائی نما انسانی خون کے یہ پیاسے پھر سے اپنا ذبح خانہ کھول کر کسی نئے شکارکو تاڑ لیتے ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی صحت کے ساتھ کھیلنے والے ان درندوں کے خلاف موثر قانون سازی کی جائے،صرف محکمہ صحت کی جانب سے کسی کا کلینک سیل کردینے یا وقتی جرمانہ کردینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا،اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن PMA،تمام  صوبوں کے وزیر صحت،مرکز اورتما م صوبائی و مرکزی حکومت کو ملکر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا،کہ اگر خدا ناخواستہ کسی نجی یا سرکاری ہسپتال میں اس قسم کا المناک واقعہ پیش آجائے تو اس صورت میں کیا کرنا ہے،موجودہ قوانین کو بدلنے اور سخت بنانے کی ضرورت ہے،،خاص طور پرتما م نجی اور ساتھ سرکاری سطح پر موجودہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی اسناد کی تصدیق کی جائے،اور جعلی ڈگری رکھنے والے کو نشانہ عبرت بنایا جائے،ورنہ کل پھر ہم کسی نشوہ یا فیضان کا ماتم کررہے ہوں گئے،

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply