• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ثقافتی مطالعے ، تنقید کا مزاج ،اس کے فکری میدان اور اقسامیت ۔۔۔احمد سہیل

ثقافتی مطالعے ، تنقید کا مزاج ،اس کے فکری میدان اور اقسامیت ۔۔۔احمد سہیل

ثقافتی مطالعے عمرانیات سے لے کر ادب کے تنقیدی نظرئیے میں اس صدی کا سب سے زیادہ دلچسپ اور نئی مناجیات اور تازہ کاری کے سبب عہد حاضر کا سب سے زیادہ ‘ من پسند’ موضوع ہے۔ یہ روائتی حاشیائی نظام مراتبیات کی جمالیاتی نظریہ حیات  میں  پوشیدہ ہے۔ یہ ثقافت کی تشکیل کی پرانی تعریفوں کے خلاف جنگ ہے۔  یقیناً ثقافتی تنقیدی نظریات کبھی کبھی قدیم تعریفوں سے لڑنے کے بعد خود بخود ختم بھی ہوجاتے ہیں ، جس کو” ادبي کینن ” یا” ادبی توپ” {literary canon} کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

ثقافتی تنقید، یا ثقافتی مطالعہ، نئے تاریخی تنازعات سے متعلق ہے، لیکن سنجیدہ نظر سے دیکھا جائےتو یہ گورے یورپی لوگوں کا اس انداز فکر اور نظریات کا روایتی ” ذہن ” ہے۔ جس میں سامراج/ نو آبادیات سے لے کر معاشرتی۔ سیاسی اور معاشی حالات کی جانچ ہوتی ہے۔ اور ان کے تقابلہ اور قوسی مطالعے کیے جاتے ہیں۔ اور ادب و فکریات کی ” روایتی اقدار” پر سوالات اٹھاتی ہے اور اس کی اثبات اور نفی کرتی ہے۔

ثقافتی تنقید ایک حالیہ اور تازہ روّیہ اور تحریک ہے، جس کی بین الاقوامی تعلیمات، اقدار، قوانین کے نمائندے کے طور پر تفسیر کی جا سکتی ہے جس میں اشیاء یا طریقوں کے لئے صرف ادبی کاموں کی تفہیم و تشریح کے لیے علوم و   دیگرسے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ثقافتی ادبی مطالعات اور ادبی تنقید کی تعریف اس طرح کریں کہ ثقافت ایک ایسا ڈھانچہ ہے کہ جو معاشرے کو اپنے گھیرے میں لئے ہو تی ہے اور معاشرے کو ہدایت دیتا نظر آتا ہے۔  یہ ڈھانچہ درحقیقت اسلاف کے تجربات ہیں کہ جو ہمیں ایک راہ دکھاتے ہیں کہ ہم اس طرح کا لباس پہنیں،کیا کھائیں ،کیسے کھائیں ،انداز گفتگو کیا ہو، ایک ثقافت کو اجاگر کرنے کے لئے ایک مدت درکار ہے ،تکرار درکارہے تاکہ وہ اپنی جگہ بنا لے اور ایک بنیاد میں تبدیل ہو، اس عنوان سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ زبانی تاریخ کا کام ایک طرح سے تجربات کی شفافیت ہے جو تجربات کے دوام اور ثقافت کی تبدیلی کا باعث ہوگی۔ ہمارے پاس دو طرح کی ثقافتیں ، ہیں ایک جامد اور ایک مداخلتی ثقافت، دوسرے لفظوں میں ایک ثقافت تقسیم شدہ ہے اور ایک جاری و ساری ہے۔ اشرف لون نے اپنے مضمون ” ادبی تھیوری’ ضرورت اور اہمیت “میں لکھا ہے۔ “ادبی تھیوری کسی بھی تحریر کی تاریخی اہمیت اور اس کو تاریخی تناظر میں سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ ادب اور تاریخ کے ازسر نو رشتے پر غور کرتی ہے۔جیسا کہ  نئی تاریخیت کسی تحریر کو اس ثقافتی حوالے سے سمجھنے پر اصرار کرتی ہے۔نئی تاریخیت ادب کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کی بھی قائل ہے اور یہ تاریخ کو ادب اور دوسرے فنون کے ذریعے سے بھی سمجھنے پر اصرار کرتی ہے۔” { مکالمہ، ۱۲ دسمبر ۲۰۱۷}

ادبی تھیوری تخلیق میں زبان اور اس کے تفاعل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔تھیوری کا یہ بھی کام ہے کہ وہ متن میں موجود تہوں کو دیکھ سکے اور معنی کی ہر پرت کے نیچے موجود دوسری پرت تک رسائی حاصل کرسکے۔زبان کس ثقافت کی نمائندگی کر رہی ہے اور کسی بھی کردار کی زبان سے ہم اُس کی نفسیات یا اس کے اندرون کا پتہ لگاتے ہیں۔تحریر کے پیچھے کون سے ثقافتی،سیاسی اور تاریخی عوامل کارفرما ہیں، تھیوری ان سے بحث کرتی ہے اور کس طرح زبان یا تحریر ایک نئی دنیا کو تخلیق  کرتی ہے اور اُس کا حقیقی دنیا سے کیا اور کیسا تعلق ہوتا ہے۔مابعد نوآبادیاتی مطالعے میں زبان یا تحریر نے بنیادی اہمیت اختیار کی ہے۔

خاص کرنئی تاریخیت اور ثقافتی مادیت کی علمی میراث سے ‘ ثقافتی نظریہ’ خلق ہوا ہے۔ اس کو وسیع طور پر نہ ہی کسی نظریاتی مکتبہ فکر اور نہ ہی اسےاس طور پر شناخت کیا جاسکتا ہے۔ ثقافتی مطالعوں میں ذرائع ابلاغ ، معاشرتی تنقید، بشریات، ادبی تنقید، عمرانیات کے اصولوں پر بھی عمومی اور تخصیصی نوعیت کے مطالعے کئے جاتے ہیں۔ ٹیلی وژن، فلم انٹر نیٹ اور برقی آفاق میں پھیلی ہوئی مخصوص ثقافت جو معاشرتی ابلاغ { سوشل میڈیا} کی بدولت ان ثقافتی مطالعوں کو کثیر الجہت بنادیتے ہیں۔ یہ ۱۹۸۰ کے بعد ‘خود شعوری’ کا ایک ایسا مطالعاتی وظیفہ بن گیا ہے جو زمین سے لے کر آسمان تک پھیلے ہوئے آفاق میں ثقافت کے نئے اجزاء کو متعارف اور کچھ نئے رموز کو لارموز کرتے ہوئے یہ معاشرتی تاویلات کو دینائے فکر پر سوچنے پر مجبور کرتی ہیں جو خاصی حد تک عملیاتی بھی ہوتی ہے۔ اور خاص طور پر سیاست میں معاصر ثقافت کے درمیان حاشیائی امتیازات بھی مٹ جاتے ہیں۔ ثقافتی مطالعے  میں پوپ موسیقی سے لے کر برقی شبہیہ کاری اور ویب سائٹ کا ادب، موسیقی کے وڈیو نے نوے/ ۹۰ کی دہائی میں دھوم مچا دی اور ثقافت کے روایتی عمودی رویوں کو سطحی فکر یا افقی بنادیا۔ اور یوں ‘ شارٹ کٹ’ کی دنیا بسائی گئی جس کو ‘ مقبول ثقافت’ کہا گیا۔

جدید ثقافتی مطالعوں سے قبل فرینکفرٹ اسکول نے ان رجحانات کا عندیہ چالیس/۴۰ کی دہائی میں دے دیا تھا جہاں ثقافتی نمونے ” بازاری” ہوکر فروخت کئے جائیں گے۔ اس زمانے میں ‘ بین الکلیاتی’ اصولوں کے تحت ثقافتی مطالعے کرنے پر زور دیا گیا لیکن اصول شکنی کے رویوں نے ثقافتی مطالعوں میں متضاد طریقوں سے ایک مخصوص اجتماعی ذہن بنانے کی کوشش کی۔ ثقافتی مطالعے ثقافت سے پیدا ہوتے ہیں جو انفرادی تجربات ، روزمرہ زندگی،معاشرتی تعلقات، اقتدار کی تبدیلی کی بھی چھان بین کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہوتی ہے جس میں دنیا کے  لچکدارپیمانوں کی مدد سے علامتی اورمواصلاتی مطالعہ کیا جاتا ہے۔ جس میں معاشرے کے مختلف گروہوں کی تاریخ، کمیونٹی کی  مخصوص شرائط کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس میں مستقبل کے چیلنجوں کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے اور روایتی ثقافت کو ادبیات اور معاشرتی علوم میں اس کی آوازیں کبھی مدھم نہیں ہوتیں۔ فرخ ندیم نے لکھا ہے “ادیب کی حیثیت ثقافت کار کی  سی ہوتی ہے ، اور زبان سہولت کار۔یہ کس نے سوچا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی ہوگا جب لفظ تہذیب و ثقافت بھی تمام مجرد لفظیات سمیت رد تشکیل کے مراحل سے گزریں گے اورلفظ اور معنی میں تعلق کو لسانی سیاست سے بھی انسلاک کر کے دیکھا جائے گا۔ انسان کو ثقافتی متن سمجھا جائے گا اور اس کی موضوعیت کی ثقافتی نظریات کی رو سے تعریف کی جائے گی۔نیچر، کلچر اور جینڈر کے درمیان جدلیات سے نیا نصاب سامنے آئے گا جو انسانی جلدسے اس کی زبان تک ، زبان سے حقیقت تک، حقیقت سے تشکیل تک،شناخت سے بحران تک، علت سے معلول تک،کلامیہ سے سٹیریو ٹائپنگ تک، آرکیٹائپ سے ساخت تک،دال سے مدلول تک، جنس سے جینڈر تک، سیاہ سے سفید تک، مرکز سے’ دوسرے‘ تک۔ اپنے سے غیر تک،طاقت سے کلامیہ تک اور کلامیہ سے بیانیہ تک، بیانیہ سے نظریہ تک اور نظریہ سے آئیڈیالوجی تک،رمز سے کشائی تک، ثقافت سے کثافت تک، پلیس سے سپیس تک، نسا ء سے نسائیت تک، شعور سے لا شعور تک، لفظ سے معنی تک اور معنی سے التوا تک، یہی نہیں ادب کے تصورِ جمالیات پہ بھی پسِ ساختیاتی اطلاق کیا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ ادب عالیہ کی مبادیات کس طور متشکل ہوئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عصری تنقید نام منا جیات کا ساختیاتی اور پسِ ساختیاتی مطالعہ بھی ہے جس میں ان تمام تصورات اور معقولات کا تنقید ی جائزہ لیا جاتا ہے جن کی صفت نام نہاد ہے۔”{“ایک روزن” ۲۳ دسمبر ۲۰۱۶}

ثقافتی مطالعوں کے جدید نظریاتی موضوعات پر جامعات اور فکری حلقوں میں یہ موضوعات سب سے زیادہ مباحث کا حصہ بنے ہیں :

۱۔ تاریخ اور یادیں

۲۔ قرون وسطی، نشاۃ ثانیہ

۳۔ مقبول { پاولر} ثقافت

۴۔ بصری ثقافت

۵۔ عکاسی/ تصویر کشی اور فلم

۶۔ ثقافت اورذیلی ثقافتیں

۷۔ نسلی ثقفت

۸۔ تقابلی ادب اور ادبی تنقید

۹۔ تعمیرات اور شہری مطالعات

۱۰۔ کثیر الجہت ثقافت، موضوعی اور ماورائی ثقافت

۱۱۔ صنفی مطالعات، لزبن ازم کویر نظریہ { ہم جنس پرستی کا نظریہ}

۱۲۔ تھیٹر اور ڈرامہ

۱۳۔ ثقافت اور تعلیم

۱۴۔ مقامی ثقافتی مطالعے

۱۵۔ سیاسی اور بشریاتی مطالعے

۱۶۔ نوآبادیاتی/ سامراجی مطالعے

* ثقافتی مطالعوں اور ادبی تنقید پر چند منتخب کتابیں یہ ہیں: *

Brantlinger, Patrick. Crusoe’s Footprints: Cultural Studies in Britain and America. New York: Routledge, 1990.

Desan, Philippe, Priscilla Parkhurst Ferguson, and Wendy Griswold. “Editors’ Introduction: Mirrors, Frames, and Demons: Reflections on the Sociology of Literature.” Literature and Social Practice. Ed. Desan, Ferguson, and Griswold. Chicago: U of Chicago P. 1989. 1-10.

Eagleton, Terry. “Two Approaches in the Sociology of Literature.” Critical Inquiry 14 (1988): 469-76.

Giroux, Henry, David Shumway, Paul Smith, and James Sosnoski. “The Need for Cultural Studies: Resisting Intellectuals and Oppositional Public Spheres.” Dalhousie R eview 64.2 (1984): 472-86.

Gunn, Giles. The Culture of Criticism and the Criticism of Culture. New York: Oxford, 1987.

Hall, Stuart. “Cultural Studies: Two Paradigms.” Media, Culture and Society 2 (1980): 57-72.

Humm, Peter, Paul Stigant, and Peter Widdowson, eds.Popular Fictions: Essays in Literature and History. New York: Methuen, 1986. See especially the intro. by Humm, Stigant, and Widdowson, and Tony Bennett’s essay “Marxism and Popular Fiction.” 237-65.

Hunt, Lynn, ed. The New Cultural History: Essays. Berkeley: U of California P. 1989.

Johnson, Richard. “What Is Cultural Studies Anyway?” Social Text: Theory/Culture/Ideology 16 (1986-87): 38-80.

Pfister, Joel. “The Americanization of Cultural Studies.” Yale Journal of Criticism 4 (1991): 199-229.

Punter, David, ed. Introduction to Contemporary Critical Studies. New York: Longman, 1986. See especially Punter’s “Introduction: Culture and Change” 1-18, Tony Dunn’s “The Evolution of Cultural Studies” 71-91, and the essay

Du Gay, Paul, et al. Doing Cultural Studies: The Story of the Sony Walkman. Culture, Media and Identities. London ; Thousand Oaks Calif.: Sage in association with The Open University, 1997.

During, Simon (2007). The Cultural Studies Reader (3rd ed.). London: Routledge. ISBN 978-0-415-37412-5.

Edgar, Andrew and Peter Sedgwick. 2005. Cultural Theory: The Key Concepts. 2nd edition. NY: Routledge.

Engel, Manfred: “Cultural and Literary Studies”. Canadian Review of Comparative Literature 31 (2008): 460-467.

Grossberg, Lawrence; Nelson, Cary; Treichler, Paula A., eds. (1992). Cultural Studies. New York: Routledge. ISBN 0-415-90351-3.

Hall, Stuart, ed. (1980). Culture, Media, Language: Working Papers in Cultural Studies, 1972-1979. London: Routledge in association with the Centre for Contemporary Cultural Studies, University of Birmingham. ISBN 0-09-142070-9.

Hall, Stuart. “Cultural Studies: Two Paradigms.” Media, Culture, and Society 2 (1980).

Du Gay, Paul, et al. Doing Cultural Studies: The Story of the Sony Walkman. Culture, Media and Identities. London ; Thousand Oaks Calif.: Sage in association with The Open University, 1997.

During, Simon (2007). The Cultural Studies Reader (3rd ed.). London: Routledge. ISBN 978-0-415-37412-5.

Edgar, Andrew and Peter Sedgwick. 2005. Cultural Theory: The Key Concepts. 2nd edition. NY: Routledge.

Engel, Manfred: “Cultural and Literary Studies”. Canadian Review of Comparative Literature 31 (2008): 460-467.

Grossberg, Lawrence; Nelson, Cary; Treichler, Paula A., eds. (1992). Cultural Studies. New York: Routledge. ISBN 0-415-90351-3.

Hall, Stuart, ed. (1980). Culture, Media, Language: Working Papers in Cultural Studies, 1972-1979. London: Routledge in association with the Centre for Contemporary Cultural Studies, University of Birmingham. ISBN 0-09-142070-9.

Advertisements
julia rana solicitors

Hall, Stuart. “Cultural Studies: Two Paradigms.” Media, Culture, and Society 2 (1980)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply