مولاجٹ گلیلیو اور ویسٹرن نسیم حجازیئے

مولاجٹ گلیلیو اینڈ ویسٹرن نسیم حجازیئے
حصہ اول
۔
تحریر: لالہ صحرائی
انتساب: اپنے نسیم حجازیوں کے نام
۔

نسیم حجازی صاحب کے ناولوں کا خلاصہ ہم ڈالیں گے اگلی قسط میں، پھر ان کے سامنے مغرب کے جنگی نسیم حجازیوں کو رکھیں گے اور وہ چارپائی اچھی طرح سے ٹھوک کے دیں گے جسے ڈھیلی دیکھ کے ہر مغرب زدہ “اوئے مسلمانوں اپنی اوقات دیکھو” کہہ کے اس پر ناچنے لگتا ہے، سردست بس اتنی سی عرض ہے کہ:

جھوٹ رے! اتنا بولیو، جتنا جھوٹ سوہائے
اسی من کا گھونگرو، ماچھر باندھے جائے

مچھر جیسے وجود پہ اسی من کا گھنگھرو باندھ کے ہمارے سامنے ناچنا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں لیکن اس حصے میں بات صرف ادب آداب اور آپ جناب کے پیرائے میں ہوگی کیونکہ آجکل ہم ایک درماندہ قوم ہیں، اس وقت ہمارا سر دوسروں کے گھٹنوں میں دبا ہوا ہے، ہمیں اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ ہمارا لب و لہجہ کیا ہونا چاہئے اور ہم ان کا وطیرہ بھی جانتے ہیں جو صرف فاتحین کے ساتھ کھڑے ہونا پسند کرتے ہیں خواہ وہ دوسری قوم کے ہی کیوں نہ ہوں اس پر مستزاد یہ کہ اپنی اس طوطا چشمی پر پردہ ڈالنے کیلئے اپنی حرکات کو یہ لوگ قوم کی اصلاح احوال کا نام بھی دیتے ہیں۔

حضور آپ ہمیں کیا بتائیں گے کہ ہمارے ساتھ کیا بیتی اور ہمیں واپس کھڑے ہونے کیلئے کیا کرنا چاہئے، آج ہم خود بتائیں گے کہ حقیقی ماجرا کیا ہے، ہوا یہ کہ ایک دن انکل سام کا فون آیا، کہا اگر تم نے ہمارے مطالبات نہ مانے تو بائی۔گاڈ ہم تمہیں پتھر کے دور میں پہنچا دیں گے۔

نسیم حجازی کے مطابق مسلمان بھی کبھی ایسا ہی لہجہ اختیار کیا کرتے تھے، بخدا ہم یروشلم اور غرناطہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، پھر چشم فلک نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوتا تھا۔

چرخ فلک نے پھر یہ بھی دیکھا کہ فون سن کر ہم نے سر جھکا دیا، اور جس نے سر نہ جھکایا وہ آج پتھر کے دور میں ہی جی رہے ہیں، کل جب انکل سام کے بچے اس دور کی تاریخ لکھیں گے تو اسی پیرائے میں بیان کریں گے جس میں نسیم حجازی بیان کرتا رہا ہے۔

بلکہ ایسا کام شروع بھی ہو چکا ہے، مسلمانوں کو فاتح قرار دے کر ان کی تباہ حال بستیوں اور مدمقابل کو شکست خوردہ قرار دے کر ان کے روشن شہروں کی تصویروں کا تقابل کرنیوالے یہ کام بخوبی انجام دے رہے ہیں، ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کو اپنی اوقات میں رہنے کا مشورہ دینے کیلئے ادھر ادھر کی مثالیں بھی ٹھونستے ہیں اور اس کوشش میں اپنی خانہ ساز سچائی کی مبادیات سمجھانے کیلئے ایسے ایسے نادر روزگار تاریخی پارچہ جات گھڑتے ہیں کہ ہم جیسے نسیم حجازیئے بھی اب دم بخود رہ جاوے ہیں، نمونے کے طور پر یہ جملہ دیکھئے جو ان ضخیم حجازیوں نے اپنی بات میں زور بازو فٹ کرنے کیلئے لکھا ہے۔

“گلیلیو نے چرچ سے نکل کرکہا کہ زمین تو گھومتی ھے اور گھومتی ھی رھے گی، تمھارا باپ بھی اس کا کچھ نہیں اکھاڑ سکتا”

گلیلیو پر بات کریں گے زرا بعد میں، ابھی گفتگو فون چل رہی فون کال پر، تو ہم نے فون سن کر جب سر جھکا دیا تو ہماری جان پھر بھی نہ چھوٹی کیونکہ انکل نے ہم سے ڈومور کا مطالبہ کر دیا، جب ہم نے ڈومور پر عمل کیا تو گلوخلاصی پھر بھی نہ ہو سکی بلکہ ناؤ۔ڈومور۔فردر کا مطالبہ آگیا اور بلآخر نوبت باایں جا رسید کہ کالے پانی والے ہم سے تقاضہ کرنے کی بجائے بذات خود دن دہاڑے یہاں چار بندے مار کے باعزت واپس چلے جاتے رہے۔

گزارش ہے کہ “اور تلوار ٹوٹ گئی تک” ہمارے آباءواجداد جنگ و جدل پر آمادہ صرف اسی لئے رہتے تھے تاکہ ان کی نوبت “باایں جا رسید” نہ ہو جاوے، وہ لوگ کئی سو سال پہلے بھی اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھے کہ دشمن کو طاقتور جان کر اس کے آگے بلا چوں چراں کئے سر جھکانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔

علامہ اقبالؒ نے اسی بات کو ایک جملے میں جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کہہ دیا تھا لیکن اس کا اثر نہ ہوتا دیکھ کر نسیم حجازی نے اسی حقیقت کو ادبی چاشنی میں بگھو بگھو کر بار بار کھول کھول کر بیان کیا تاکہ صلاح الدین ایوبیؒ والا جذبہءحمیت زندہ رہے۔

صلاح الدین ایوبیؒ کی حمیت نے رچرڈ شیردل سے کیا کہا تھا اور کس لب و لہجے میں کلام کیا تھا اسے سمجھنے کیلئے پہلے چار صفحات تاریخ کے پلٹیں گے تاکہ نسیم حجازی کی جذباتیت اور ایوبیؒ کی حمیت صحیح طریقے سے نہاں خانہء دانش میں بیٹھ سکے لیکن یہ لٹھ ماریں گے اگلی قسط میں کیونکہ میں وعدہ کر چکا ہوں یہاں بات صرف ادب آداب کے دائرے میں ہوگی تاکہ پہلے نسیم حجازی کے اسلوب بیان کو سمجھا جاسکے۔

انسان کسی مخصوص وقت یا حالات کے تحت جب کسی اچھی بری کیفیت کا شکار ہو تو اپنے اس وقت کے احساسات دوسروں تک پہنچانے کیلئے لب و لہجے کے اتار چڑھاؤ کا محتاج ہوتا ہے، اس کے بغیر بات سننے والا آپ کے رنج و الم کی گہرائی ناپ سکتا ہے نہ خوشی کا عالم جان سکتا ہے، اگر یہی کیفیت لکھ کر پہنچانی مقصود ہو تو الفاظ کا انتخاب بھی ایسا کرنا پڑتا ھے کہ پڑھنے والا کرب کی کیفیات کو محسوس کئے بغیر رہ نہ سکے، عالم طرب و نشاط کو اینجوائے کر سکے اور بہادری کی داستان سے حوصلہ پکڑ سکے۔

کل رات ہجر یار میں رویا میں اسقدر
چوتھے فلک پہ پہنچا تھا پانی کمر کمر

ادب سے اگر سحر بیانی، لہجے کی کاٹ اور مبالغہ آرائی کو خارج کر دیا جائے تو باقی صرف سادہ سی خبر بچتی ھے، اس سادہ و مجرد خبر کو ادب کا درجہ اردو تو کجا انگریزی ادب میں بھی حاصل نہیں ہوتا، نسیم حجازی کے اسلوب پر مزید بات کریں گے لیکن پہلے مغربی نسیم حجازیوں کی تھوڑی تھوڑی شکلیں دیکھ لی جائیں تاکہ زبان و بیان کے علمی مغالطے دور ہو جائیں اور یہ بھی پتا چل جائے کہ نسیم حجازیانہ پن ہندی مسلمانوں کی بدخیالی پر ہی موقوف نہیں بلکہ ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے، عالم کا عالم ہی اس مرض کا شکار ہے بلکہ ہماری قوم سے نکل کر آپ جس فاتح لشکر سے جا ملے ہیں وہ بھی نسیم حجازیانہ پن سے سرتاپا مخمور ہے۔

امریکی لوک داستان‌، پال بنیان لکڑہارے، کا ایک پیراگراف دیکھئے:
پھر ہوا یوں کہ سردیاں آگئیں، سردیاں بھی اتنی کہ تمام برفانی بطخیں الٹے پاؤں اڑنے لگیں، آل دی گیز فلیو بیک وارڈ، اور مچھلیاں شمال کی طرف نکل گئیں، یہاں تک کہ ٹھنڈ کی شدت سے برف کا رنگ بھی نیلا پڑ گیا، ایون دی سنو ٹرنڈ بلیو۔

مزید پرکاری دیکھئے:
رات کے آخری پہر، سب کچھ ایسے جمنے لگا کہ زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ اس سے قبل کہ سنا جاتا برف کی ڈلی بن جاتا، لوگوں کو یہ جاننے کیلئے سورج نکلنے کا انتظار کرنا پڑتا تاکہ لفظ پگھلیں اور پتا چلے کہ رات کو کس نے کس سے کیا بات کہی تھی۔

ایمانداری سے بتائیں کہیں ایسا ویسا کچھ ہوتا ہے؟ لیکن اس گفتگو میں سے اگر انشاءپردازی نکال دی جائے تو باقی صرف سردی شروع ہونے کی دو حرفی خبر رہ جاتی ہے جس میں دلچسپی کا کوئی عنصر باقی نہیں بچتا، یہ صرف انشائیہ ہی ہے جو ایک ادبی پیرائے میں اس موسم کی شدت کو بحسن خوبی محسوس کرا جاتا ہے۔

اولڈ ٹائمز آن دی مسیسیپی بائی مارک ٹوائن:
میں بے یارومددگار تھا، میں نہیں سمجھتا تھا کہ اب دنیا میں کرنے کیلئے کوئی حیلہ باقی بچا ہے، میں سر تا پا لرز رہا تھا اور اپنا ہیٹ اپنی آنکھوں پر لٹکا سکتا تھا کیونکہ وہ باہر ابل رہی تھیں۔

یہ مایوسی اور خوف کی ایک کیفیت ہے لیکن اس خبر کو انشاءپردازی نے ایک ادبی دلچسپی مہیا کردی ورنہ خوف سے آنکھیں کبھی اتنی بھی باہر نہیں آتیں کہ ان پر اپنا ہیٹ لٹکایا جا سکے۔

رومیو اینڈ جولیئٹ بائی شیکسپئیر:
جولیٹ کے عارض کی چمک ایسی ہے کہ ستارے دیکھ کر شرما جائیں، اس کی آنکھیں جنت کی صبح بھی ایسے روشن کردیں جیسے کوئی چراغ دن پیدا کر دیتا ہے اور ان مہکتی فضاؤں میں روشنی یوں چمکتی پھرے کہ چڑیاں اس روشنی میں رات کو دن سمجھ کر چہچہانے لگیں۔

کسی محبوب کے گال سورج جیسے روشن نہیں ہوتے، نہ آنکھیں ایسی روشن کہ چڑیاں ان کی لو میں رات کو دن سمجھ بیٹھیں لیکن رومیو کی محبت کا والہانہ پن اس پیرائے کے بغیر پہنچانا ناممکن ہے۔

ایڈونچرز آف پیناکیو بائے سی۔کولوئیڈ:
وہ ساری رات رویا، صبح دم بھی اس کی یہی حالت تھی اگرچہ صبح تک اس کے آنسو جم چکے تھے لیکن اس کے خشک آنسو بھی ایسے ہیجان انگیز تھے کہ ان کی ہچکیاں دور کی پہاڑی چوٹیوں تک کو سنائی دے رہی تھیں۔

ٹو ہز کوائے مسٹریس بائی اینڈریو مارویل:
یہ مارویل کی ایک خوبصورت اور طویل نظم کا صرف ایک پیراگراف ہے، پوری نظم پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

کئی صدیاں درکار ہیں اس کی تعریف کیلئے
اس کی آنکھوں اور پیشانی کو نظروں میں سمونے کیلئے
دو صدیاں ہر ایک پستان کی پزیرائی اور عقیدت میں بِتانے کیلئے
تیس ھزار باقی سراپا کیلئے
اور اک عمر چاہئے دیگر اعضاء کے واسطے

شیکسپئیر کے پلے میک۔بیتھ سے اقتباس:
بادشاہ کا قتل کرکے تاسف سے میکبتھ یوں کہتا ہے، میرے ہاتھوں سے اب نیپچون کا سمندر ہی خون کے ان دھبوں کو دھو سکتا ہے، پھر کہتا ہے، نہیں، شائد اس خون سے رنگین میرے یہ ہاتھ اس سمندر کے سبز پانیوں کو بھی سرخ کر دیں گے۔

شیکسپئیر کے ڈراموں اور نظموں سے درجنوں مبالغہ آمیز حوالے پیش کئے جا سکتے ہیں، لیکن رومیو اینڈ جولیئٹ کے ایک مزید اقتباس پر اکتفا کرتے ہیں:

وہ تو فانوسوں کو بھی تیزتر چمکنا سکھاتی ہے
یوں لگتا ہے جیسے وہ رات کے عارض پہ چمکنے کیلئے ہی بنی ہے
جیسے قیمتی چمکدار ہیرا کالے ایتھوپین کے کان میں چمکتا ہے

رالف ایمرسن کی مشہور زمانہ کنکرڈ ہائم سے اقتباس:
یہاں دشمنوں کے نرغے میں گھرے کسان کھڑے تھے
پھر انہوں نے جو فائر کیا وہ پوری دنیا میں سنا گیا
وہ ایک جذبہ ہے جو ان ہیروز کو جرآت دلاتا ہے
کہ خود بیشک مرجاؤ لیکن اپنے بچوں کو آزادی کی نعمت دلا جاؤ

امریکہ کی جنگ آزادی کے پس منظر میں لکھی گئی چار اسٹینزا پر مشتمل خوبصورت استعاروں سے مزین یہ علامتی نظم ہے، سمجھ آجائے تو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، اس کی علامات توڑ کر دیکھیں تو یہ کسی بھی مشرقی رزمیہ کلام یا جنگی ترانے سے کم آتشیں نہیں بلکہ یہ جنگی ترانہ ہی ہے، اس کا مرکزی خیال یوں ہے کہ دریائے کنکرڈ کے کنارے جو فائر امریکی کسانوں نے کیا وہ امریکی آزادی کی صورت ساری دنیا میں دیکھا اور سنا گیا

واضع رہے کہ یہ معرکہ بلکل سن پینسٹھ کی بی۔آر۔بی نہر کے دفاع جیسا ہی تھا، اس فرق کیساتھ کہ ہم نے کم نقصان پر بی۔آر۔بی کا دفاع کیا اور امریکنز اس معرکے میں ہزاروں کی تعداد میں کام آئے جبکہ ان کے مدمقابل کو چند سو افراد کا نقصان پیش آیا، وہاں ایک یادگار شہداء بھی بنی ہے، پتا نہیں لوگوں کو ہمارے جنگی ترانے کیوں چبھتے ہیں جبکہ اس جذبے میں امریکن بھی ہم سے پیچھے نہیں، ایمرسن کے اس نسیم حجازیانہ پن پر کوئی دوحروف ضرور پڑھیئے گا، بڑی مہربانی ہوگی۔

کینڈیڈا بائی وولٹیئر سے اقتباس:
میں نے سینکڑوں بار اپنے آپ کو مارنے کی کوشش کی ہے، یہ بیہودہ سی کمزوری شائد ہمارے خمیر میں کسی دکھ کے نتیجے میں یاسیت پسندی کے عنصر سے پیدا ہوتی ہے، زندگی کے مزید بوجھ اٹھانے کی حماقت کرنے کی بجائے یہ خواہش اس سے بہتر لگتی ہے کہ اس زندگی کو ہی بخوشی اٹھا کے پرے کہیں دے مارا جائے، انسان اس زندگی میں آہیں بھی بھرتا ہے اور اس کی ڈور تھامے بھی بیٹھا رہتا ہے، یہ اس بھوکے سانپ کیساتھ کھیلنے جیسی حرکت ہے جو بلآخر ہمارا کلیجہ کاٹ کھاتا ہے۔

بظاہر ایک بوڑھی عورت زندگی کے دکھوں کا نوحہ کہتی ہے جو جینے سے مایوس ہے، یہ ایک سادہ خبر ہے مگر انشائیے کی بدولت یہ نثرپارہ بن کے ہر انسان کو نہ صرف یہ کرب محسوس کرا جاتی ہے بلکہ اس گھمبیر سچائی کو منوا بھی لیتی ہے۔

نسیم حجازی قتل و غارت جیسی شقاوت کو مذموم مقاصد کیلئے بیان کرنا مرغوب رکھتا تھا اس لئے نسیم حجازیوں سے گزارش ہے کہ تھوڑی دیر کیلئے اپنی عقیدت پر پتھر رکھ کے مجھے اجازت دیں کہ میں نسیم حجازی کو شقی القلب انسان کہوں یا انتہاپسند اور جنونی کہوں۔

آپ کی اس مہربانی سے مجھے یہ بہانہ مل جائے گا کہ مغرب کے معروف نسیم حجازی جوناتھن سؤفٹ کو میں انتہا پسند، شقی القلب اور جنونی مصنف کہہ سکوں جو سماجی اور سیاسی معاملات پر لکھتے ہوئے انتہائی دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرنے سے کبھی نہیں چوکتا تھا، مثال کے طور پہ آئرلینڈ کی غربت دور کرنے کا اس نے جو طریقہ بیان کیا ہے، وہ دیکھیں زرا، اسے وہ مقدس تجویز کا نام بھی دیتا ہے۔

اے موڈیسٹ پروپوزل بائی جوناتھن سؤفٹ:
آئرلینڈ کو غربت اور کثرت آبادی سے بچانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ غریب خاندانوں کے بچوں کا قتل عام کیا جائے اور ان کا گوشت آئرلینڈ کے اشرافیہ کی ظیافت طبع کیلئے پیش کر دیا جائے۔

سؤفٹ مزید لکھتا ہے کہ
ان مارے جانے والے جانوروں میں سے جو تنومند نظر آئیں ان کی کھال اتار لینی چاہئے جس سے خواتین کیلئے آرام دہ دستانے اور فائن جینٹلمینز کیلئے بوٹ بنائے جا سکیں۔

اشرافیہ کی خودغرض پالیسیوں پر اسقدر سؤفٹ طنز کیلئے اگر آپ جوناتھن کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن مبالغہ کی یہ قدر نسیم حجازی کے ہاں بھی آپ کو ماننی پڑے گی، تنگ نظری کی بنا پر چاہیں تو اس کی تحسین بیشک نہ کریں لیکن انگلی مت اٹھائیں۔

آخر میں جان ڈونے کی مشہور نظم، سونگ، سے صرف اقتباس پیش کرنا تھا لیکن پھر لگے ہاتھوں پوری نظم کا ہی ترجمہ کرکے شامل کردی، پہلے نظم بغور پڑھ لیں پھر اسے شامل کرنے کی اصل وجہ بتاتا ہوں۔

جاؤ گرتے ہوئے ستاروں کو کیچ کرو
یا بچپنے کے مینڈریک روٹ پر پہنچو
(مینڈریک کا ترجمہ آخر میں)
اور یہ بتاؤ کہ ماضی کے سارے سال کہاں گئے
اور یہ کہ شیطان کے قدم کس نے چیر دیے

مجھے سکھاؤ کہ مرمیڈز کے گیت کیسے سنوں
یا حسد کی بیچینوں کو خود سے کیسے دور پٹخوں
اور بتاؤ کہ
یہ فضا سرگوشیوں میں کیا کہتی ہے
ایک سلجھے ہوئے شفاف ذہن انسان سے
جو ایک انجانا خالی پن بھگتنے کیلئے پیدا ہوا ہے
کچھ ان دیکھی چیزوں کیلئے

جاؤ دس ھزار دن اور راتوں کا طویل سفر اختیار کرو
یہاں تک کہ سفید بالوں والا برفانی دور سامنے آ جائے
(یعنی جب تمھارے بالوں پر چاندی اتر آئے)
پھر جب تم واپس آؤ تو مجھے سب کچھ بتانا
وہ تمام حیرتیں جو تمہیں اس سفر میں پیش آئیں

پھر قسم کھا کے
سچ سچ بتا دینا
کہ ایسی عورت ناپید ہے جو التفات میں قطعی مخلص ہو
اگر تم نے واقعی کوئی مخلص دیکھی ہو تو مجھے بھی بتانا
ایسے سفر بہت میٹھے اور متبرک ہوتے ہیں
لیکن پھر بھی میں وہاں جانے کی ہمت نہیں کرپاؤں گا
خواہ اس کا پتا دوچار دروازے پرے کا ہی کیوں نہ ہو

اسلئے کہ ممکن ہے جب تم اس سے ملے تو اسوقت وہ مخلص ہی ہو
بلآخر جب تک تمہارا خط مجھے پہنچے گا
تب تک
وہ پھر چکی ہوگی
یا اپنا خلوص مجھ سے، کسی دو سے یا کسی اور تین سے بانٹ چکی ہوگی
۔۔۔
۔
ہمارے سماج میں معاشرتی رویے اور خاص طور پہ ادیب کو یہ طعنہ عام دیا جاتا ہے کہ ان کے سر پہ عورت سوار ہے، ان کو سب بے حیائی عورت میں ہی نظر آتی ہے اور مزے کی بات یہ کہ اس پرچار میں پیش پیش وہی روشن خیال لوگ زیادہ ہیں جو دوسروں کی عورتوں کو جدوجہد کے نام پہ بغل میں لئے لئے پھرتے ہیں، گویا چور مچائے شور والا قصہ ہے۔

یہ نظم بطور خاص اسی لئے شامل کی ہے کہ اگر عورت کے متعلق یہ رویہ ہماری کمینگی پر منحصر ہے تو پھر دیکھ لو کہ تمہارے پسندیدہ مغربی معاشرے کا ادیب بھی کن خطوط پر سوچتا ہے اور اپنی سوچ کو ادب بھی قرار دیتا ہے اور یہ انگریزی ادب کی ٹاپ نظموں میں سے ایک ہے۔

سرسری نظر سے دیکھا جائے تو اس نظم میں ایک ایسا عاشق نظر آتا ہے جسے عورت پر اعتبار نہیں، وہ کسی محبوب کی بیوفائی سے زخم خوردہ اس بات کو حقیقت کے طور پر بیان کر رہا ہے کہ باوفا عورت کا ملنا محال ہے خواہ کتنی ہی خاک کیوں نہ چھان لی جائے اور عورت واقعی ایک ناقابل اعتبار چیز ہے۔

لیکن ایسا ہے نہیں بلکہ ایسا سمجھنا ایک زبردست علمی مغالطہ ہوگا، یہ نظم دراصل کچھ اور کہہ رہی ہے اسی لئے ادبی شہہ پارہ قرار دی گئی ہے، یہ نظم بھی چونکہ فنی اور ادبی مہارت کیساتھ علامت اور استعارے میں قید ہے اس لئے اسے سمجھنا سادہ عقل کے بس میں نہیں، رالف ایمرسن کی اوپر پیش کردہ نظم کنکرڈ ہائم بھی اسی طرح علامت میں بند ہے، اور ہمارے دوست ارشد معراج صاحب کی مشہور زمانہ نظم “فاحشہ عورتیں” بھی عورت کی کردار کشی کی بجائے دراصل کسی اور بات کا مرثیہ ہے۔

اس نظم کو سمجھنے سے پہلے یہ جان لیجئے کہ اس میں لفط عورت کا استعمال جنس یا فرد کی بجائے بطور استعارہ استعمال ہوا ہے، یہ استعارہ اس لئے اختیار کیا جاتا ہے کہ ایک ادیب عورت کو قدرت کے وفاداروں میں سرفہرست سمجھتا ہے، یہ وہ آبگینہ ہے جو کسی بھی حالات میں اپنے مرکزومحور سے کبھی دور نہیں جاتا تاکہ آلودہ نہ ہو جائے یا ٹوٹ نہ جائے، یہ عورت کی عظمت کا اعتراف ہے نہ کہ اس کی کردار کشی۔

اب امر واقع یہ ہے کہ اس نظم میں شاعر دراصل کہنا یہ چاہتا ہے کہ تم زمین کے اندر اپنی جڑوں سے ستاروں پر کمند ڈالنے تک جو چاہو سو کرو لیکن یہ بتاؤ کہ وہ ہمارا ایک ماضی کہاں گیا جس میں کچھ ویلیوز تھیں، مجھے وہی مقدس گیت پھر سنے کا کوئی طریقہ بتاؤ جس سے میرے خالی پن کی بیچینیاں دور ہو جائیں، یہ خلا ان چیزوں کی عدم موجودگی سے پیدا ہوا جو کبھی میرے لئے ویلیوز کا درجہ رکھتی تھیں۔

میرے اس درد کو سمجھنے کیلئے تم ہزاروں دن کی زندگی گزارو حتٰی کہ تمہارے بال سفید ہو جائیں اور تم زندگی کا ہر سردگرم چکھ لو، پھر اپنے اس وسیع تجربے کی روشنی میں بتانا کہ کیا واقعی وہ قدرت کی وفادار ہستی اپنے عہد پہ قائم ہے، کیونکہ اگر وہ اپنے عہد سے گر چکی ہے تو پھر یوں سمجھ لو کہ باقیوں کا تو بیڑا ہی غرق ہو چکا ہے اور اسی بات نے شیطان کے قدم چیر دئے ہیں کیونکہ وہ جو اپنے عہدوفا میں سب سے زیادہ سخت جان تھی وہی ہارڈ ٹارگیٹ تھی باقی سب سوفٹ ٹارگیٹ تھے، جب وہی وفادار ہستی اب اپنے عہد سے پھر چکی ہے تو شیطان کے پاس کوئی ایسا سخت جان ٹارگیٹ نہیں بچا جسے بہکانے کیلئے اسے کوئی قدم اٹھانا پڑے۔

مزید اختصار کریں تو ایک تنقید نگار کے بقول دو لفظی کہانی اس نظم میں یہ ہے کہ انسان جو خود کو خدا کا روحانی نائب کہتا ہے وہ دراصل اسقدر بے اعتبار چیز ہے کہ دوپہر تک ایک دو یا تین بار گناہ کے سمندر میں چسکا ضرور لگا لیتا ہے، اسی لئے شیطان یکسر فارغ پھرتا ہے اور مجھ جیسے لوگ اس وقت کے کھو جانے پر درد سے بیچین روتے پھرتے ہیں جب انسان خدا کے دائرے میں رہتا تھا۔

(مولی کیساتھ ہاتھوں اور پاؤں جیسی دو دو شاخیں نکل آئیں تو وہ بلکل انسان جیسی نظر آتی ہے، مینڈریک ایسی ہی ایک ہربل چیز ہے، شائد سوہانجنے کی مولی بھی ایسی ہوتی ہے، مینڈریک چونکہ انسان جیسی ہے اور زمین کے اندر ہوتی ہے اس لئے یہاں بطور استعارہ استعمال ہوئی ہے کہ انسان کی جڑیں اس کی زمین کے اندر اور اسے اپنی ویلیوز یا عہد وفا کا پابند رہنا چاہئے)

اس نظم میں شامل مبالغہ، استعارہ، علامت اور دیگر ادبی و فنی محاسن کو ایک طرف رکھ کر مجھے صرف یہ بتا دیں کہ اس نظم کے مرکزی خیال میں ایسا کیا ہے جو نسیم حجازی اور کسی مولوی کی سوچ سے رتی بھر بھی کم ہے۔

دوسری قسط میں میرے ذمے یہ بتانا باقی رہ گیا ہے کہ جنگ و جدل میں قتل و غارت کو جس طرح نسیم حجازی نے بیان کیا ہے، مغربی نسیم حجازیوں نے بھی اپنے کارنامے اسی طرح ہی بیان کئے ہیں اور عقلمندوں کے ذمے یہ بتانا باقی ہے کہ گلیلیو کی وہ مولاجٹوی بھڑک تاریخ کے کس پنے پر درج ہے جو آپ کیلئے باعث صد افتخار ہے، حوالہ ڈھونڈ کے رکھیئے گا ورنہ اس کا پول بھی ہم ایسے کھولیں گے کہ عاجز کرکے رکھ دیں گے۔

نسیم حجازی کی نذر حافظ شیرازی کا یہ شعر معنون کرتا ہوں

اے شہنشاہ بلند اختر، خدا را ہمتے
تا ببوسم، ہمچو گردوں، خاکِ ایوانِ شما
۔

لاسٹ بٹ ناٹ دی لیسٹ
آخری گزارش یہ ہے کہ ادب لکھنے، پڑھنے، سمجھنے اور اسپر تنقید کرنے کا ایک فریمورک ہے، اس کے بغیر خبر ادب نہیں بنتی، ادب فن نہیں بنتا، فن کسی معراج تک نہیں پہنچتا اور جو کسی فنی معراج سے ناآشنا ہو اسے اہل فن پر تنقید زیب نہیں دیتی۔

محض کاغذ، قلم اور موقع انسان کے ہاتھ لگ جائے تو وہ لکھاری نہیں بن جاتا، ایسا سمجھ کے نسیم حجازی کو ہاتھ ڈالنے والے اس مچھر کے مصداق ہیں جو اسی من کا گھنگھرو پہن کر ناچنے پر بضد ہو، ایسے نابغہ روزگار آشفتہ سروں کیلئے کسی نے کیا خوب کہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

سنبھل سکتا نہیں سر وفور ناتوانی سے
اگر تکئیے سے اٹھتا ہے تو آرہتا ہے زانوں پر
۔
اینجوائیز
۔
۔

Facebook Comments

لالہء صحرائی
ایک مدھّم آنچ سی آواز ۔۔۔ ایک حرفِ دلگداز لفظوں کے لشکر میں اکیلا ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply