بچے تو جانور بھی پیدا کر لیتے ہیں۔۔۔قراۃ العین یوسف

اللہ‎ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اسے تمام جانداروں پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ اُس کی زندگی بے مقصد نہیں ہے۔ چوپایوں، کیڑوں مکوڑوں اور چرند پرند کی طرح انسان صرف مرنے کے لئے پیدا نہیں ہوتا۔ مرنے سے پہلے انسان کو اپنے انسان ہونے کا حق ادا کرنا ہوتا ہے، جو وہ اپنی زندگی کو با مقصد اور معنویت سے بھرپور بنا کر کرتا ہے۔ ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت اس کے کچھ فرائض ہیں۔ ہر رشتہ اور ہر تعلق کچھ حقوق و فرائض کا تقاضا کرتا ہے اور ان حقوق و فرائض کا پورا نہ ہونا انسان کو معنویت سے محروم کر دیتا ہے۔ اور اس کا شکار صرف ایک فرد نہیں ہوتا بلکہ اس کی پوری نسل میں وہ جینز منتقل ہوتی ہیں۔ موروثی خصوصیات میں آبائی سیلز سے دختر سیلز میں صرف رنگ، قدوغیرہ کی ہی خصوصیات منتقل نہیں ہوتیں ،بلکہ نیتوں کا بھی بننے والے سیلز پر اثر پڑتا ہے۔
انسان کی ارتقاء اور بقا شادی کے نظام پر قائم ہے۔ ہمارے دین میں نکاح کو بہت خوبصورت تعلق بتایا ہوا ہے، اتنا محبت بھرا تعلق کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔ لباس کے دو مقصد ہوتے ہیں 1۔ لباس آپ کے عیب چھپاتا ہے 2۔ لباس خوبصورتی میں اضافے اور تزئین وآرائش کا سبب بھی ہے۔
ایک خوبصورت ازدواجی تعلق ان دونوں باتوں کو پورا کرتا ہے۔ایک دوسرے کے عیبوں، کمیوں، کوتاہیوں کو چھپانے اور ایک دوسرے کی خوبصورتی بننے کے بعد اللہ‎ نے مرد کے فرائض میں شامل کردیا کہ بیوی کے نان ونفقہ کی ذمہ داری اس کے کندھوں پہ ہے اور عورت کے ذمے اولاد کی تربیت کا کام لگا دیا۔ یہ تو تھا وہ نظام جو کہ ایک خوبصورت تعلق کی بنیاد بنتا ہے اور ایسی نسل پروان چڑھاتا ہے جن میں بنیادی انسانی اقدار کا تقدس بھرا ہوتا ہے۔ جن میں صحیح اور غلط کو پرکھنے کا شعور ہوتا ہے۔ جن کے اندر اپنی ذات کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اور جو اپنی ذات کی سچائیوں اور روشنیوں سے دنیا کو منور کرتے ہیں۔
لیکن جب میں اپنے معاشرے میں دیکھتی ہوں تو مجھے انسانوں کے روپ میں دو پیروں پہ چلنے والے جانور نظر آتے ہیں  جو اپنے مقصدِ تخلیق، اخلاقیات، روایات اور اقدار سے اتنے ہی نا آشنا تھے جتنا کوئی جانور ہوتا ہے۔
ایسے لوگ کیسے معاشرے کا حصہ بنتے ہیں اس کی وجہ میرے سامنے جو آئی وہ ہر دس میں سے چھٹے گھر کی کہانی ہے۔
میرے پاس دو بچیاں ایسی پڑھتی ہیں جو مسلسل خراب کارکردگی دکھا رہی تھیں۔ ہر وہ طریقہ جس سے کسی کو کچھ سکھایا جا سکتا ہے۔۔آزمانے کے بعد جب کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا تو میں نے ان بچیوں کی ماؤں کو بلوا لیا۔ ایک خاتون کا کہنا تھا چودہ سال ہوگئے ہیں میری شادی کو، جب سے میری شادی ہوئی ہے میرے گھر میں جھگڑا رہتا ہے اور اب نوبت طلاق تک پہنچ چکی ہے۔ میں ان باتوں کو سوچ سوچ کر اتنا پریشان ہوتی ہوں کہ مجھے بچوں پہ دھیان دینے کو وقت نہیں ملتا۔ دوسری خاتون جو کہ اپنے ڈیڑھ سالہ بیٹے کو گود میں اٹھائے بیٹھی تھی کہنے لگی کہ باجی میں کیا کروں ،میرے دس بچے ہیں شوہر ہر وقت جھگڑتا رہتا ہے، ہفتوں گھر نہیں آتا ہے، دوسروں کے گھروں میں کام کر کے خرچہ چلاتی ہوں۔
میں نے کہا محترمہ آپ کے دس بچے ہیں پھر بھی آپ کو گلہ ہے کہ آپ کا شوہر ہر وقت جھگڑتا رہتا ہے، جواب میں اس خاتون نے قہقہہ لگایا اور “کہا بچے تو ہو جاتے ہیں”۔ میری کولیگ جو ہمارے ساتھ ہی بیٹھی تھی کہنے لگی اس میں اتنی حیرانی والی کیا بات ہے؟ “بچے تو جانوربھی پیدا کر لیتے ہیں”۔
یہ تو وہ واقعات ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے ایسے ہزاروں واقعات ہیں جو ہمارے ارد گرد ہوتے ہیں۔ اور صرف اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ میاں بیوی جو کہ ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں ان کے رشتے کو صرف لباس اتارنے تک محدود کردیا گیا ہے۔ جب جسموں کی بھوک اور ہوس نے وحشت کا روپ دھار کر محبت کو نگل لیا تو انسانوں نے وہ مخلوق پیدا کی جو کسی طور اشرف المخلوقات نہ بن سکی۔ جب انسان خدا کا نائب بننے کی بجائے ایک جنسی درندہ بن گیا تو انسانوں کی نسل میں ایسے حیوانوں نے جنم لیا جو صرف سونے، جاگنے، کھانے، پینے اور سیکس کرنے کے لئیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ ان کے اندر صرف وحشت ہوتی ہے جو انہیں ورثے میں ملی ہوتی ہے جو وہ اگلی نسل میں منتقل کرتے ہیں اور ایسا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں جس میں صرف نفرت ہی نفرت ہے، قتل و غارت، حسد، تکبر اور ہر وہ برائی ہے جو انسان کو انسان کے درجے سے گراتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں نظر آنے والی ہر بد صورتی اُس بیج کا اثر ہے جو ہم نفرت سے بوتے ہیں۔ ظلم اور نا انصافی اور جہالت سے کبھی بھی خوبصورتی جنم نہیں لے سکتی۔ خوبصورتی صرف عدل میں ہے، انصاف میں ہے اور محبت میں ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply