نیو لبرل نظریہ۔۔۔۔ عمیر فاروق

نیو لبرل نظریہ کی بنیاد اس فلسفہ پہ ہے کہ فرد کے مفاد کو اجتماعی مفاد پہ ترجیح حاصل ہے۔ اس سے جو سیاسی سوچ برآمد ہوتی ہے وہ ریاست یا ریاستی اداروں کی مخالفت ہے جسے جبر کا ذریعہ کہہ کے مسترد کیا جاتا ہے۔

بظاہر یہ کافی خوشنما ہے لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے؟ غیر جانبداری سے سوچا جائے تو شائد قرون وسطی میں تو ایسا تھا جب ریاست چند افراد کے مفاد کی نگہبانی کرتی تھی لیکن عہد جدید کی ریاست خاص طور پہ جمہوری ریاست اس سے کوسوں دور ہے۔ دوسری چیز جو واضح طور پہ محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ ایسے دور میں جب بینک کارڈ شناختی کارڈ سے زیادہ اہمیت حاصل کرچکا ہے۔ جبر کا منبع حقیقی طور پہ ریاست ہی ہے یا سرمایہ کو کنٹرول کرنے والی طاقتیں؟

عراق جنگ کے لئے امریکہ پہ تنقید تو پھر بھی آپ سن لیں گے لیکن کیا کبھی یہ سنا کہ اسلحہ ساز فرموں اور تیل نکالنے والی فرموں مثلاً لاک ہیڈ مارٹن اور ٹیکساکو وغیرہ کے اندھا دھند منافع کمانے کی حرص نے عراق پہ جنگ مسلط کی؟

دلچسپ امر ہے کہ مابعد جنگ اگر بیلنس شیٹ دیکھی جائے تو امریکہ پہ قرضوں کا بوجھ بڑھا لیکن اسلحہ ساز اور تیل نکالنے والی فرموں کا منافع یا منافع کی استعداد میں اضافہ ہوا۔ لیکن ان پہ تنقید کم ہی سنی۔ کیونکہ میڈیا بھی سرمائے کا محتاج ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بینکوں، میڈیا اور سیاستدانوں کی ایک غیر مقدس تکون جنم لے چکی ہے۔ سرمایہ، جس کے کنٹرول کی علامت بینک ہے سیاست پہ میڈیا کے ذریعے اثر انداز ہوتا ہے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرتا ہے۔ یہاں بھی نیو لبرل نظریہ اپنی تنقید کا ہدف ریاست اور ریاستی اداروں تک محدود رکھتا ہے۔ یہاں فلاحی ریاست کے ادارے مثلاً تعلیم و صحت ان کا ہدف ہے جس کی نجکاری کی حمایت کی جاتی ہے۔ مغرب میں تعلیم یافتہ اور بلند سیاسی شعور رکھنے والی عوام کے باعث رویہ بہت محتاط رہتا ہے۔

ترقی پذیر ممالک نسبتاً آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں جہاں تعلیم کی بھی کمی ہے اور ریاستی ڈھانچہ پہلے ہی کمزور اور خامیوں کا شکار ہے۔ افریقہ اور ایشیا کے ممالک نوآبادیاتی دور کے آغاز سے ہی ترقی یافتہ ملکوں کے سرمایہ داروں کی دلچسپی کا محور بنے رہے اپنے قدرتی اور افرادی وسائل کے باعث۔ مابعد نوآبادیاتی یا بعض کے نزدیک نئے نوآبادیاتی دور میں ان ممالک میں جدید ریاستیں قائم ہوئیں۔ تو یہ غیر ملکی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کے تبادلہ کا تعلق تھا جو ان ترقی یافتہ ممالک کے اداروں اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان قائم ہوا۔ یہ دونوں کے لئے مفید ہے بشرطیکہ منصفانہ ہو اور ترقی پذیر ممالک اور ان کے عوام کے جائز مفاد کا لحاظ رکھا جائے۔ لیکن ظاہر ہے سرمایہ کار ادارے اپنے زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ ان ممالک کی ریاستوں اور ان کے اداروں کی کوشش ملکی اور قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے ان اداروں سے معاملات طے کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح عالمی سرمایہ کاری اور ترقی پذیر ملکوں اور ان کے ریاستی اداروں کے مفادات کا ایک ٹکراؤ موجود ہوتا ہے۔

اس طرح ترقی پذیر ملکوں میں نیو لبرل نظریہ نیو کالونیلازم کے لئے ایک ہتھیار کاکام دے سکتی ہے۔ جس کے ذریعے سرکش ریاستوں اور ان کے سرکش اداروں پہ حملہ کیا جاسکے۔ اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔

  سیاسی تحریکوں کا مطالعہ کرنے والے دوستوں کو خوب یاد ہوگا کہ سرد جنگ کے عہد میں جب سوویت یونین اشتراکی نظریہ کو عالمی سطح پہ برآمد کررہا تو اس کو دو مختلف صورتوں میں برآمد کیا جاتا تھا۔ جن ریاستوں سے عالمی سیاست میں مخالفت ہوتی تھی ان میں سرمایہ اور محنت کی روایتی کشمکش سے زیادہ قومیتی کشمکش پہ زور دیا جاتا تھا اس قدر کہ سرمایہ کو استحصالی بتانے کی بجائے اس ریاست کے اندر ہی کوئی استحصالی قومیت دریافت کرکے اس سے آزادی کو مزدوروں کی جنت کانام دیا جاتا تھا۔ یہاں اس کا اصل مقصد سرکش ریاست سے نجات پانا یا اس کو کمزور کرنا ہوتا تھا۔ بعینہ یہی حربہ آج کے دور میں عالمی سرمایہ کاری کا مرکزاپنی ناپسندیدہ ریاستوں کے لئے استعمال کرتا ہے اور نیو لبرل تھیوری نا پسندیدہ ریاست میں ریاست کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پہ استعمال کی جاتی ہے۔

پچھلے دنوں اسی تھیوری کے ایک ذیلی نظریہ کا پرچار شروع ہوا، وہ تھا بغیر ریاست کے معاشرہ! یعنی ریاست تو جابر ہے لہذا اس کے بغیر معاشرہ کا قیام! شائد آپ نے بھی یہ نظریہ سنا ہو، مزدوروں کی جنت سے ملتی جلتی لبرل جنت! مزید دلچسپ کہ جب اس کے پرچارک دوستوں کو یاد دلایا جاتا ہے کہ ایسا معاشرہ تو عصر حاضر میں وجود پاچکا، تو داعش کی مثال یاد دلانے پہ ناراضی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس میں ہمارا کیا قصور؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ داعش بغیر ریاست کے ایک معاشرہ ہے جو چل بھی رہا ہے اور اس کے ظہور میں آنے کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کا گرنا بھی معنی خیز ہے جو بہت کچھ سمجھا دیتا ہے۔

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست اور ریاست کے اداروں کی غیر مشروط مخالفت کیوں؟ بالفرض یہ جبر یا استحصال کو جنم دیتے ہیں تو کیا یہ حقیقت نہیں کہ عالمی سرمایہ داری اس سے زیادہ جبر اور استحصال کو جنم دیتی ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سرمایہ داری کی اندھی اور بے لگام منافع کی ہوس کے سامنے فرد کی واحد ڈھال اس کی ریاست اور ریاستی ادارے ہی ہیں؟ فرد اپنی ریاست کو تو اپنے جمہوری ادروں کے ذریعے کنٹرول کرسکتا ہے لیکن تیسری دنیا کے فرد کا عالمی سرمایہ داری پہ قطعاً کوئی اختیار نہیں یہ اس کی ریاست ہی ہے جو اسے بے پناہ طاقت کے مقابلے میں تحفظ دے سکتی ہے۔ اگر ریاست میں کچھ خامیاں ہیں تو اس کا حل مثبت اور تعمیری تبدیلی ہے نا کہ ریاست کی غیر مشروط مخالفت اور اس کے اداروں سے دشمنی۔

کاش ہم ایسے خلاء میں موجود ہوتے کہ ہمارے دائیں بائیں کوئی نہ ہوتا تو شائد بغیر ریاست کے معاشرہ کا خیالی تصور قابل عمل ہوتا لیکن ہم حقیقی دنیا میں رہتے ہوئے خطرناک خدشات سے گزرتے تابناک امیدوں کی طرف بڑھنے کی سعی میں مصروف ہیں جن میں زمینی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے تخیلات کی گنجائش نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(عمیر فاروق ایک ایسی بے چین روح ہے جو اکثر اپنے قالب سے نکل کر سفر میں رہتی ہے۔)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply