• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں ۔۔۔۔عامر عثما ن عادل

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں ۔۔۔۔عامر عثما ن عادل

میڈیا کا جن بوتل سے آزاد کیا ہوا ریٹنگ کی دوڑ میں تمام چینلز ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے کی خاطر تمام اخلاقی حدیں پھلانگ چکے ہیں ٹاک شوز کے نام پر جس طرح عدم برداشت نفرت اور طعن و تشنیع کا کلچر پروان چڑھایا جا رہا ہے یہ کہانی پھر سہی آج اس کے ایک انتہائی نازک پہلو پر بات کرتے ہیں۔۔

آج کل یہ رحجان خاصا مقبول ہے کہ تمام چینلز کے خاص اینکرز جرم و سزا پہ مبنی شوز کی میزبانی کرتے ہیں پولیس کے تعاون سے گھناونے جرائم کی وارداتوں کو باقاعدہ ڈرامائی  انداز میں فلمایا جاتا ہے تھانوں میں سیٹ لگا کر شوٹنگ کی جاتی ہے ملزمان کو حوالات سے نکال کر تماشا بنانا اور اینکرز کا تفتیش کے سے انداز میں تابڑ توڑ سوال کرنا قابل دید ہے۔ سب سے زیادہ ریٹنگ اغوا برائے تاوان ،آبرو ریزی، ناجائز تعلقات اور قتل و غارت کی کہانیوں پر مبنی پروگرام کماتے ہیں۔

کچھ دن قبل ٹی وی کے سامنے بیٹھا اکتاہٹ سے تنگ آ کر بار بار چینلز تبدیل کر رہا تھا جونہی جرم و سزا پر فلمایا گیا کوئی  پروگرام سکرین پر آتا بچے شور مچاتے کہ اسے دیکھنے دیں چینل مت بدلیں۔ میرا ماتھا ٹھنکا اور اس دن کے بعد غیر محسوس طریقے سے بچوں کی نگرانی شروع کر دی میرے لئے یہ بات باعث تشویش تھی کہ بچے ایسے تمام پروگرام بڑے انہماک سے دیکھتے ہیں ۔یہ مشاہدہ صرف اپنے بچوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ اپنے آس پاس جاننے والوں کے ہوں یا سکول میں زیر تعلیم بچے حیرت انگیز بات تھی کہ اکثریت ایسے پروگراموں کی دلدادہ نکلی۔

یہ پروگرام کیا ہیں گھناونے جرائم کے ریفریشر کورس منصوبہ بندی سے عملی جامہ پہنانے تک کے تمام مراحل جنہیں دیکھ کر بچے باآسانی سیکھ سکتے ہیں کہ واردات کیسے کی جاتی ہے ریپ کیا ہوتا ہے اغوا برائے تاوان کسے کہتے ہیں۔۔

آپ تھانوں کا ریکارڈ چیک کر لیجئے بہت سی وارداتوں کی تفتیش کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ کھاتے پیتے گھرانوں کے نوعمر لڑکوں نے محض ایڈونچر کے طور پر کسی کی جان لے لی ،کسی کو اغوا کر بیٹھے۔۔

کہاں ہے پیمرا ؟

کون ہے اس کا ذمہ دار؟۔۔۔ ملزمان کو ہتھکڑی لگانے کو غیر اسلامی فعل قرار دینے والی اسلامی نظریاتی کونسل کہاں ہے ؟

نسل نو کے بگاڑ کا محرک بننے والے یہ پروگرام ان کی نظر التفات کے سزا وار کیوں نہیں ؟

سیاست سے ثقافت معیشت سے معاشرت داخلہ و خارجہ پالیسی پر دانش کے جام لٹانے والے فلاسفر منہ سے جھاگ اڑاتے دوسروں کو اخلاق کے بھاشن دیتے اینکرز اس ایشو پر بھی کوئی  پروگرام کریں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors

دنیا بھر کے مہذب ملکوں میں میڈیا کو سختی سے اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ پرائم ٹائم کے دوران کوئی  ایسا مواد نشر نہیں کیا جا سکتا جو بچوں کے اخلاق کے لئے زہر قاتل ثابت ہو۔ بچوں کے جاگنے کے اوقات تک کوئی ایسا پروگرام آن ائیر نہیں ہوتا۔
ایک ہم ہیں کہ نسل نو کی تباہی کے سارے سامان وافر کر کے ریت میں سر دبائے بیٹھے ہیں۔
کیا ہمارے بچے ہمیں معاف کریں گے؟؟

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply