قطعی الثبوت_____قطعی الدلالہ ۔۔۔ ڈاکٹر طفیل ہاشمی

آج کل قرآن کے حوالے سے ان اصطلاحات پر گفتگو ہو رہی ہے، قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ۔

قرآن، قطعی الثبوت ہے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ، آیات، کلمات، جملے اور ترتیب ہم تک ایسے یقینی ذرائع سے پہنچے ہیں کہ ان کے ثبوت میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا. اس موقف پر امت مسلمہ کا مکمل اتفاق ہے اور غیر مسلم اسلامی سکالرز کی اکثریت بھی اسی کی قائل ہے.

جبکہ قرآن، قطعی الدلالة کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے ہر لفظ، جملے، اور آیت کا ایک ہی مطلب متعین ہے اور دوسرا کوئی مفہوم درست نہیں ہے.

دنیا کی ہر زبان میں مشترک الفاظ و تراکیب ہوتی ہیں مثلاً اردو میں کافر، بت، صنم وغیرہ الفاظ اپنے اصلی معنوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں اور محبوب کے معنی میں بھی، عبارت کے سیاق و سباق کو دیکھ کر کوئی ایک معنی متعین کیا جاتا ہے. یہی صورت حال قرآن میں بھی ہے البتہ قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ ایسے الفاظ و تراکیب میں جونسا معنی لیا جائے مفہوم قرآنی ہدایت کے دائرے کے اندر ہی رہتا ہے. ایسے مواقع پر مفسرین کے رجحانات مختلف ہوتے ہیں.

ایک طبقہ ان میں سے کسی ایک مفہوم کو ترجیح دیتا ہے اور باقی مفاہیم کو نظر انداز کر کے یہ دعوٰی کرتا ہے کہ اس آیت کا یہی ایک مفہوم متعین ہے اور اس کے لیے وہ تاویل (یعنی متعدد معانی میں سے ایک کو ترجیح) کی اصطلاح استعمال کرتا ہے. مولانا اصلاحی کا یہی رویہ ہے. یہ طبقہ قرآن کے الفاظ و تراکیب کو قطعی الدلالة کہتا ہے، یعنی دوسرے کسی معنی کی گنجائش نہیں ہے.

دوسرا طبقہ ان تمام معانی کو ذکر کر کے یہ بتاتا ہے کہ اس آیت کے دو یا تین مفہوم ہو سکتے ہیں اور سبھی درست ہیں. مولانا مودودی کا یہی طریق کار ہے. یہ طبقہ ایسے الفاظ و آیاتِ کوظنی الدلالة کہتے ہیں یعنی اس کے ایک سے زائد معانی ہو سکتے ہیں.

یہ دونوں رویے درست ہیں اور ہمارے پاس کوئی ایسی کسوٹی نہیں ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو قطعی درست اور دوسرے کو قطعی غلط کہیں. یہ فہم قرآن کے مختلف پہلو ہیں اور حدیث میں ہے۔ بلاشبہ قرآن کے عجائب کبھی ختم نہیں ہو سکتے. البتہ نہ جانے کہاں سے ایک شدت پسند طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو یہ نقطہ نظر رکھتا ہے کہ قرآن کو قطعی الدلالة کہنا حدیث کا انکار ہے. اس نقطہ نظر کی کوئی علمی اساس نہیں ہے اور یہ محض منافرت پر مبنی ہے.

حدیث یا سنت کے ذریعے قرآن کی تفسیر کرنے کے دو پہلو ہیں : کسی بھی حدیث کے ذریعے قرآن مجید کے واضح اور متعین مفہوم کو تبدیل کرنا تحریف ہے. خبر واحد کے ذریعے قرآن کے صاف، واضح اور قطعی معانی کو ان کے اصلی مفاہیم سے ہٹا دینا ہدایت ربانی کے زلال صافی میں غیر معصوم افراد کی تعبیرات کی آمیزش کرنے کے مترادف ہے. پس اسے انکار حدیث سے تعبیر کرنا الہامی اور انسانی تعبیرات کو یکساں قرار دینے کی جسارت ہے.

البتہ قرآن حکیم نے بے شمار ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جن کے، لغوی معانی سے ہٹ کر سنت نے ان کو دوسرے معانی دیے ہیں، مثلاً ایمان، اسلام، صلاہ، زکوۃ، صوم، حج، نکاح اور طلاق وغیرہ. سنت کے مطابق تفسیر کرنا ہی تفسیر بالماثور ہے اور مذکورہ بالا دونوں طبقے اس کا اہتمام کرتے ہیں اس لیے کسی کو بھی انکار حدیث کا الزام دینا درست نہیں ہے.

اگر کوئی صاحب اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کرنا چاہیں تو تفہیم القرآن سے وہ آیات منتخب کر لیں جن کے بارے میں مولانا مودودی نے کہا کہ اس کے دو یا تین مفہوم ہیں اور سب مراد ہیں. پھر انہیں آیات کو تدبر قرآن میں دیکھیں کہ مولانا اصلاحی نے انہیں میں سے ایک مفہوم کو ترجیح دے کر بتایا کہ اس آیت کی یہ تاویل ہے.

اللہ تعالٰی ہم سب کو فہم قرآن کی نعمت سے نوازے.

Advertisements
julia rana solicitors london

(ڈاکٹر طفیل ہاشمی، ماہر اسلامی علوم اور استاذ الاساتذہ کے مقام پر ہیں۔ آپ طلبا میں سوچنے اور تحقیق کرنے کی اس روایت کا احیا چاہتے ہیں جو کبھی ہمارا اثاثہ تھا۔)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”قطعی الثبوت_____قطعی الدلالہ ۔۔۔ ڈاکٹر طفیل ہاشمی

  1. Dr sahab mandarja bala school of thought kay ilawa tafseer e quran?mein aur kitni school of thought hain is silslay mein koi asan kitab hu to zaroor batain wassalam

Leave a Reply