جدلیاتی مادیت اور کارل مارکس۔۔۔۔فرمان اسلم

ہیگل کی فکر میں مثالیت اپنے نقطہء عروج کو پہنچ گئی تو اس نے یہ کہہ کر  کہ مادہ  عالم دین کی تخلیق ہے مادے کے معروضی وجود سے انکار کردیا۔یہ نقطہ ء نظر جدید سائنس کے منافی تھا،جس میں عالم مادہ  کو حقیقی سمجھ کر اس کے قوانین دریافت کیے جاتے ہیں۔ہیگل کی مثالیت کے خلاف جو ہمہ گیر ردعمل ہوا،کم و بیش تمام نئے مکاتب فکر پر اس کا عکس پڑتا ہو ا دکھائی دیتا ہے۔ ہربارٹ اور فوئر باخ، ہیگل کے ناقدین میں پیش پیش تھے۔ان فلاسفہ نے مثالیت کو رد کرکے اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرائی کہ حیات ہی علم کے اصل ماخذ ہیں اور سچا،حقیقی اور قابل اعتماد علم حواس ہی کے وسیلے سے حاصل کیا جاتا ہے البتہ محسوسات کو منظم ضرور کرتا ہے۔

لڈوگ فوئر باخ ،مذہب اور مثالیت کا مخالف تھا اور انہیں بے مصرف تخیل آرائی کے کرشمے سمجھتا تھا۔باخ نے بے باک ہوکر اور مدلل انداز میں مثالیت کا نہ صرف رد کیا بلکہ اس نے مذہب اور مثالیت کے مابین گہرے ربط و تعلق کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ اہل مذہب اپنے دینی عقائد کا اثبات مثالیت پسندی سے کرتے رہے ہیں کیونکہ مذہب اور مثالیت میں فکری و ذوقی رشتہ موجود ہے۔ کارل مارکس اور انجلز نے یہ کہہ  کر بات کو آگے بڑھایا کہ مقتدر طبقہ مذہب کی طرح مثالیت سے بھی اپنے خصوصی مفادات کے تحفظ کا کام لیتا ہے۔ کارل مارکس،ہیگل اور فوئر باخ کے درمیان ایک ضروری واسطہ تھا جس سے متاثر ہو کر کارل مارکس جو شروع شروع میں ہیگل کی مثالیت کا پر جوش مداح تھا، مادیت سے رجوع لایا لیکن فوئر باخ نے ہیگل کی مثالیت کے ساتھ اس کی جدلیات کو بھی رد کردیا تھا۔اس طرح بقول مارکس پانی کے ساتھ بچے کو بھی ٹب سے باہر پھینک دیا۔

مارکس اور انجلز نے ہیگل کے تصورات کی پیکار کو طبقات معاشرہ کی آویزش میں منتقل کردیا اور دونوں نے کہا کہ ہیگل کا یہ خیال درست ہے کہ کائنات اور فکر انسانی بدلتی رہتی ہے لیکن اس کا یہ کہنا صحیح  نہیں کہ ذہن میں جو تغیرات ہوتے ہیں وہی عالم مادی میں بھی وارد ہوتے ہیں۔حقیقت اس کے برعکس ہے۔عالم مادی اور معاشرے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ تصورات بھی بدل جاتے ہیں چنانچہ مارکس کہتا ہے ” جرمن فلسفہ آسمان سے زمین کی طرف آتا ہے، ہمارا فلسفہ زمین سے آسمان کی طرف جاتاہے “۔۔

کارل مارکس روائتی مادیت کو میکانکی کہتا ہے اس کے خیال میں مادیت مابعد الطبیعاتی گرفت سے آزاد ہوکر جدلیات کے قریب تر آگئی ہے کیونکہ جدید سائنس کی روح جدلیاتی تھی۔مارکس نے مادیت کو مابعد الطبعیات سے علیحدہ  کیا۔ اس میں ہیگل کے جدلیاتی اصول شامل کئے اور اپنا فلسفہ جدلیاتی مادیت کی تدوین کرکے پرولتاریہ کو وہ نظریاتی بنیاد فراہم کی جس کے بغیر ان کی انقلابی جدوجہد کو بامقصد اور ثمر آور بنانا ممکن نہیں تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جدلیاتی مادیت کے اصول درج زیل ہیں
1- مادہ شعور پر مقدم ہے اور شعور مادے ہی کی ایک صفت ہے کیونکہ شعور مغز سر کا فعل ہے اور مغز سر مادی ہے۔مادہ کائنات میں معروضی صورت میں موجود ہے۔
2_عالم مادی میں کوئی شے بھی قطعی، حکمی اور مطلق نہیں  ہے سب اشیاء مسلسل حالت حرکت و تغیر میں ہیں
3_ اضداد یعنی ہر شئے میں اس کی ضد موجود ہے جو اس کی نفی کردیتی ہے اضداد کا جدل و پیکار ہر وقت جاری رہتا  ہے حرکت و تغیر اسی کا نتیجہ ہے
4_ ہر اثبات میں اس کی نفی موجود ہوتی ہے اور ہر نفی کی نفی ہو جاتی ہے جس سے اثبات کا عمل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔
5_ عالم مادی کی کوئی شئے ایک حالت پر برقرار نہیں رہ سکتی اور بالجبر اپنی ضد میں بدل جاتی ہے۔
6_ کائنات میں اشیاء ایک دوسرے سے الگ تھلگ موجود نہیں ہیں بلکہ ایک دوسری پر اثر انداز ہوکر تغیرو تبدل کرتی رہتی ہیں۔
7_ جدلیاتی مادیت کی رو سے عالم مادی دو قسم کی اشیاء پر مشتمل ہے (1) وجود: جو اصل ہے (2) فکرو شعور جو اس کی فرع ہے

Facebook Comments

فرمان اسلم
ایم فل ہسٹری ۔ ایل ایل بی پنجاب یونیورسٹی گورنمٹ ٹیچر ۔ ہائی سکول شامکوٹ نو ۔ تحصیل چونیاں ضلع قصور

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply