ووٹ کی خاطر جمہوریت پر چوٹ۔۔۔۔ ابھے کمار

گزشتہ پانچ سالوں میں اگر خوب ‘وکاس’ ہوا ہے، تو پھر انتخابی تشہیر کے دوران بھگوا لیڈران ذات برادری، دھرم اور مذہب کا کارڈ کیوں کھیل رہے ہیں؟ اگر مودی حکومت کے دور اقتدار میں ملک میں اتنی ترقی ہوئی ہے، جتنی اب تک کی کسی بھی حکومت میں دیکھنے کو نہیں ملی، تو پھر دہشت گردی کا ڈر دکھا کر ووٹ کیوں مانگا جارہا ہے؟ کیا ووٹ حاصل کرنے کی خاطر جمہوریت کے ستون پر چوٹ کرنا کسی بھی طرح سے مناسب ہے؟ ملک کے مفاد کو اولین ترجیح دینے کی بات کرنے والے لوگ آخر کیوں انفرادی اور پارٹی کے مفاد کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں؟

مگر یہ بےحد تشویشناک بات ہے کہ ملک کے مفاد کا ذرا بھی خیال اُن کو نہیں ہے جو اسکا ڈھنڈھورا پیٹتے نہیں تھکتے۔ ستّہ پانے کے لیے، بھگوا سیاست داں ہر حد کو پار کر رہے ہیں۔ مثلاً بی جی پی کے سینئر لیڈراور مرکزی وزیر مینکا گاندھی نے اتر پردیش کے سلطان پور پارلیمانی حلقے میں مسلمانوں کے ایک ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے، کہا کہ “میری جیت مسلمانوں کے بغیر ہوتی ہے تو مجھے بہت اچھا نہیں لگے گا کیونکہ پھر دل کھٹا ہو جاتا ہے اور پھر جب مسلمان آتا ہے کام کرانے کے لیے پھر میں سوچتی ہوں کہ رہنے دو کیا فرق پڑتا ہے آخر نوکری ایک سودے بازی بھی تو ہوتی ہے۔”

دراصل مینکا گاندھی نوکری کی نہیں بلکہ ووٹ کی سودے بازی کی بات کر رہی تھیں، جو ہر اعتبار سے جمہوری اقدار اور انتخابی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ اچھی بات ہے یہ ہے کہ انتظامیہ نے اس معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے انہیں نوٹس بھیجا ہے۔

مینکا گاندھی کو کون بتلائے کہ جب کوئی امیدوار انتخاب لڑتا ہے، تو اسے کسی بھی حالت میں تمام رائے دہندگان کے ووٹ حاصل نہیں ہوتے ہیں۔ نریندر مودی کے زیرِ قیادت میں پچھلی بار بی جی پی کو 31 فیصد ہی ووٹ حاصل ہوئے تھے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ 69 فیصد عوام نے مودی حکومت کو نکار دیا تھا۔ مگر جب بی جے پی نے حکومت سازی کی اور مودی وزیر اعظم بنے تو وہ سب کے وزیر اعظم بنے۔ تبھی تو جمہوری نظام میں اصولاً عداوت کی جگہ نہیں ہے۔ جیسے ہی کوئی امیدوار الیکشن جیت لیتا ہے تو وہ سب کا نمایندہ بن جاتا ہے۔ کس نے اس کو ووٹ دیا اور کس نے نہیں دیا یہ سب انتخاب کے بعد فراموش کر دیا جاتا ہے اور منتخب امیدوار سب کے لیے برابر کام کرتا ہے۔

دریں اثناء بی جے پی کے بارہ بنکی، اُتر پردیش کے لیڈر رنجیت بہادر شری واستو نے انتخابی ضابطوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی نسلوں کو تباہ کرنے کے لئے بی جی پی کو ووٹ دیں۔اس طرح کے اِنتہائی گھٹیا بیان دے کر بھگوا عناصر ووٹرز کو دھرم اور مذہب کے نام پر باٹنے کی پوری کوشش کر رہی ہیں۔

فرقہ وارانہ بیانات کے لیے بد نام بی جی پی کے اناؤ سے ایم پی ساکشی مہاراج بھی اپنی خستہ حالی کو دیکھ کر اُلٹا رائے دہندگان کو دھمکی دے رہےہیں کہ اگر انہوں نے اپنا ووٹ اُن کے جیسے سنیاسی کو نہیں دیا تو وہ گناہگار ہونگے۔ اقتدر سے اس قدر رغبت آپ نے کسی دوسرے سنیاسی میں دیکھی ہے کیا؟

انتخابی تشہیر کے دوران دھرم اورمذہب کے کارڈ کھیلنے اُتر پردیش کے وزیر اعلٰی یوگی ادتیاناتھ بھی اُتر گئے ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی کو حضرت علی کا پیروکار بتا دیا اور اس کے برعکس بی جے پی کو ہندوؤں کے بھگوان بجرنگ بلی کے بھگت سے تعبیر کردیا۔

ذرا سوچئے تو صحیح کہ اس طرح کے بیان سے سماجی تانے بانے کو کس قدر چوٹ پہنچائی جا رہی ہے۔ یہ کتنی غلط بات ہے کہ حضرت علی کو بی جے پی ہندو مخالف ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ حضرت علی کے لیے نہ صرف مسلمانوں بلکہ عام ہندوؤں کے دلوں میں بھی احترام پایا جاتا ہے۔

یوگی یہیں تک نہیں رکے بلکہ کانگریس پارٹی کو سبز (مسلم) وائرس کی زد میں ہونے کا بے بنیاد الزام لگا دیا۔ یوگی کو کون بتلائے کہ سبز رنگ مسلمانوں اور اسلام سے ہی نہیں جڑا ہوا ہے اور نہ ہی سبز رنگ کا پرچم انڈین مسلم لیگ کا ہے۔ اس حقیقت کو سامنے نہیں لایا جاتا کہ سماجی انصاف کی بہت سی پارٹیوں کا بھی پرچم سبز ہے۔کیا یوگی جی کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل کا پرچم بھی سبز ہے؟ سبز رنگ کی اپنی اہمیت بھی ہے یہ فطرت اور زندگی کی بھی علامت ہے۔ ساون کے مہینے میں بہار کے گاؤں کی ہندو عورتیں ہری چوڑیاں اور ہری ساڑی پہن کر موسم برسات کا استقبال کرتی ہیں۔ کیا یہ عورتیں بھی کانگریس کی طرح سبز وائرس کی زد میں ہیں، یوگی جی؟

اس الیکشن میں ذات برادری کا کارڈ بھی کھیلا جا رہا ہے۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی اپنی ذات کا استعمال انتخابی ریلی کے دوران کر رہے ہیں۔ مہاراشٹرا میں منعقد ایک انتخابی ریلی کے دوران انہوں نے کہا کہ ان کو چور اس لئے کہا جا رہا ہے کیونکہ وہ پچھڑ ی ذات سے تعلق رکھتے ہے۔ “مجھے گالی دو میں کئی سالوں سے برداشت کرتا رہا ہوں، کر لوں گا۔ لیکن چاہے چوکیدار ہو، سماج کا پچھڑا ہو، دلت ہو، مظلوم ہو، آدی واسی ہو، اگر کسی کو بھی آپ نے ذلیل کرنے کے لیے چور کہنے کی ہمت کی تو مودی برداشت نہیں کرے گا.”

حزب اختلاف رافیل ڈیل کے متعلق بدعنوانی کو لے کر مودی سرکار سے جانچ کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ان مطالبات کو ماننے اور اس معاملے میں تعطل دور کرنے کے بجاۓ، مودی اسے پچھڑے طبقے کی تذلیل سے جوڑ رہے ہیں۔ کیا رافیل ڈیل میں امبانی کو شامل کیے جانے پر سوال پوچھنا پسماندہ طبقات کا اپمان ہے؟ کیا حزب اختلاف کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ سرکار کی پالیسیوں کا حساب لے اور جو کچھ غلط چل رہا ہو اسے منظر عام پر لائے؟

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مودی سرکار کو دلت اور پسماندہ طبقات کی یاد انتخابی تشہیر میں کچھ زیادہ ہی آتی ہے؟ وہیں جب وقت آتا ہے کہ اُن کے مفادات کا تحفظ کیا جائے، تو مودی حکومت سرمایہ داروں اور ہندوتو تنظیموں کو ھی صرف یاد رکھتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو سرکار ریزرویشن پر ہوئے حملے کے دوران خاموش نہ رہتی۔ جب لاکھوں آدی واسیوں کو ان کے گھروں اور جنگلوں سے اجاڑنے کی سازش کی جا رہی تھی، تب بھی مودی سرکار کو اُن کی یاد نہیں آئی۔ مودی کے دور حکومت میں مزدوری بڑھنے کے بجائے کم ہوتی چلی گئی اور حکومت فلاحی کاموں سے مزید پیچھے ہٹتی چلی گئی۔اتنا ہی نہیں بلکہ مودی حکومت کے پانچ سالوں میں ڈاکٹر امبیڈکر کی انگریزی تحریروں کی اشاعت بند رکھی گئی اور اس طرح ان کے لیٹریچر کو مزید پھیلنے سے روکا گیا۔ یہ سب کس طرح کا دلت پریم ہے، مودی جی؟

انتخابی تشہیر کے دوران فوجی جوان کی شہادت اور دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے نام پر بھی ووٹ مانگا جارہا ہے۔ حد تو تب ہو گئی جب یہ کہا گیا کہ ملک کا نیوکلیئر بم دیوالی کے لیے نہیں بچا کر رکھا گیا ہے۔پھر کہا گیا کہ ہندوستانی پائلٹ ابھینندن کو پاکستان رہا نہیں کرتا تو وہ رات قتل وغارت گری کی رات ہوتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اتنا ہی نہیں مالیگاؤں بم دھماکہ کی ملزمہ پرگیا ٹھاکر، جو ضمانت پر جیل سے رہا ہیں، کو بی جے پی نے بھوپال سے پارٹی کا ٹکٹ دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کی دہشت گردوں کے خلاف اُس کی لڑائی کی بات سہولیات کے مطابق بدل جاتی ہے۔ بار بار یہ بھی دہرایا جا رہا ہے کی اگر مودی کو دوبارہ اقتدار میں نہیں بھیجا گیا تو ملک کی سالمیت محفوظ نہیں رہ پائے گی۔ کیا رائے دہندگان کو یہ پوچھنے کا حق نہیں ہے کہ مودی سے پہلے ملک کی حفاظت کون کر رہا تھا؟ کیا پرگیا ٹھاکر کو پارلیمنٹ بھیج کر ملک زیادہ محفوظ ہو جائے گا؟

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply