آپ کا خدا پرستش کے لائق نہیں رہا۔۔۔۔اسد مفتی

ایک خبر کے مطابق نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ )این وائی پی ڈی(نے انتہائی خفیہ طریقے سے شہر کی تمام مساجد کو دہشتگردی کے اڈے اور تنظیمیں قرار دے دیا ہے۔اس کے ساتھ ہی پولیس کو مساجد میں ہونے والی تقریبات،محافل ،تقاریل اور خطبات کو ریکارڈ کرنے،ان کے ویڈیو اور آڈیو بنانے ،نما ز پڑھنے اور وہاں آنے جانے والے لوگوں کی جاسوسی اور نگرانی کرنے کی بھی چھوٹ مل گئی ہے۔
مسجد کودہشتگرد تنظیم قرار دینے کا مطلب ہے کہ یہاں آنے والے کسی بھی شخص کو کسی وقت گرفتار کیا جاسکتا ہے اور ان کی گرفتاریوں کے لیے انٹیلی جنس اداروں میں ایک لاکھ ساتھ ہزار افراد ملازم ہیں ۔
یہ اب کی بات نہیں بہت سال پہلے نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ نے شہر میں اور اس کے اطراف زائداز 250 مساجد اور مسلم طلبا گورپس کے بارے میں انٹیلی جنس اطلاعات اکٹھا کی تھیں ،میڈیا عہدیداروںاور اے پی کے حاصل کردہ راز کے داخل دستاویزات کے بموجب امریکہ کے اس بڑے شہر کی مسلم آبادی سے متعلق انٹیلی جنس معلومات و اطلاعات کے حصول کے لیے اکثر خفیہ عہدیداروں اور مخبروں اور جاسوسوں کو استعمال کیا گیا،مخبر اور جاسوس بھرتی کرنے کے لیے سی آئی اے اور ایف بی آئی نے اخبارات میں اشتہار شائع کروائے ،جس میں یہاں تک تحریر تھا کہ اردو،فارسی اور پشتو بولنے والوں کو ترجیح دی جائے گی۔ہاتھ لگنے والی دستاویزات میں سے کئی دستاویزات پر “راز یا خفیہ” کا لفظ درج ہوتا ہے۔۔ان دستاویزات میں سے کئی دستاویزات سے اندازہلگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ عشرے کے دوران دہشت گرودں ،انتہا پسدوں وغیرہ کی ایک خاص تعداد سے بھی پوچھ تاچھ کی گئی ۔یہ وہ لوگ تھے جو اپنی روزمرہ عبادات کے لیے مساجد ایا کرتے تھے یا پھرمساجد جانے والوں سے ان کا باقائدہ رابطہ تھا ،کئی سماجی گروپس کو بھی تحقیقات کے دائرے میں لایا گیا۔
گزشتہ چند ماہ کی تحقیقات اور پوچھ تاچھ ا سے انکشاف ہوا ہے کہ ایک خفیہ سکواڈ المعروف ڈیموگرافکس یونٹ “نے کئی مسلم گروپس کے بارے میں چھان بین میں مدد کے لیے خفیہ عہدیداروں کی ٹیمیں روانہ کی تھیں ،ایک ناقابلِ تردید حقیقت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ کئی مسلمان خواتین و حضرات اورمردو زن مسلمانوں ہی کی صفوں میں جاسوسی کے لیے تعینات کیے گئے ہیں ۔
2001 میں نائن الیون کے بعد سے پولیس ڈیپارٹمنٹ نے امریکہ کی ایک نہایت “جارح” داخلی انٹیلی جنس قائم کی ہے،جو اس شہر کی حدود سے کافی باہر بھی پیر اور پر پھیلائے ہوئے ہے۔اور ایک حساس فہرست بھی رکھتی ہےجس کی رونی میں خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی اور کوششوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
ان خفیہ سرگرمیوں اور پوچھ تاچھ کے لیے وفاق سے ایک “ہیوی بجٹ “وصول کیا جاتا ہے۔۔۔۔یہ ایجنسی،سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ساتھ غیر معمولی قریبی تعلق رکھتی ہے،اور بعض صورتوں میں تو اس ایجنسی اور سی آئی اے کے درمیان فرق و امتیاز مشکل ہوجاتا ہے۔
2016 کے بعد پولیس دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ صرف نیویارک کی زائد از 250 مساجد ا بغور جائزہ لے کراور معلومات اکٹھی کرکے نسلی شناخت،قیادت،فرقہ ،گروپ،وابستگی،تعلیم،پیشہ،آبائی ملک،گاؤں ،یا شہر سے تعلق وغیرہ جیسی معلومات لے کر فائلیں بنائی گئی ہیں ،پولیس نے اس سلسلہ میں مخبروں ،جاسوسوں اور سادہ لباس میں ملبوس کارکنوں سے بھی کام لیا۔۔اس تفتیش میں ملوث ایک عہدیدار نے اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ میری انٹیلی جنس کی بنیاد پر پولیس نے 53 مساجد کی نشاندہی کی ،انان مساجد کو “بے حد تشویش ناک مساجد” کے زمرے میں شامل کیا گیا۔۔۔۔ان مساجد کے آس پاس سادہ کپڑوں میں مخبروں اور خفیہ ایجنسی کے لوگوں کو تعینات کیا گیا ۔ان میں کئی مساجد کو “بے حد خطرناکاور مجرمانہ سرگرمیوں کی حامل عبادت گاہ قرار دی گئی ہیں ۔
اس کے علاوہ اسمگلنگ ،حماس فنڈنگ ،فلسطینی عسکریت پسندی ،القائدہ فنڈنگ اور خفیہ دولت جمع کرنے کے الزامات بھی لگتے گئے۔
بعض مساجد کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ان مساجد کا تعلق سلفی فرقہ سے ہے،جو اسلام کا انتہا پسند فرقہ کہلاتا ہے۔۔۔۔۔بعض دیگر مساجد کی شناخت “بیان بازی مساجد: کے طور پر کی گئی ہے،جو صرف اپنے بیانات سے مسلمانوں کے جذبات بھڑکاتے تھے۔دو مساجد کے بارے میں کہا گیا کہ ان کا تعلق جامعہ الازہر سے ہے،
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ جامعہ الازہر ان اولین مذہبی اداروں میں سے ایک ہے جس نے نائن الیون کے حملوں کی مذمت کی تھی۔
مغربی دنیا میں صرف اور صرف یہ کلیہ ہی مساجد او ر مسلم گورپس پر نظر رکھ رہا ،برطانیہ بھی مسلم انتہا پسندی کو روکنے کے لیے مدارس اور مساجد میں جاسوسوں کا تقرر کررہا ہے۔ڈچ نیوز ایجنسیوں کے مطابق حکومت برطانیہ نے انتہا پسندوں کے خاتمے کے لیے مدارس اور مساجد میں جاسوسی کے لیے سابق ایم آئی فائیو و فور کے جاسوسوں کی خدمات حاصل کرلی ہیں ۔برطانیہ کے اخبار ڈیلی ایکسپریس کے حوالے سے ہالینڈ کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ برطانیہ کی حکومت کو مسلم مبلغین کی سرگرمیوں پر تشویش ہے کہ یہ علما حضرات مدارس میں انتہا پسند خیالات کی تعلیم دیتے ہیں ،حکومت سے خفیہ محکمہ کے سابق عہدیداروں کو بھرتی کیا اور انہیں مدارس میں اسلامی انتہا پسندوں پر نظر رکھنے کی ہدایت دی گئی۔ادھر برطانوی وزیر تعلیم کو بھی تشویش لاحق ہے کہ نئی نسل کے فی سکول مسلم مبلغین کے نشانے پر ہیں ،حکومت نے محکمہ پولیس میں بھی مذہبی انتہا پسندی روکنے کے لیے یونٹس قائم کیے ہیں ،۔
برطانوی جریدے اسکاٹ ہیرالڈ نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے نارویجن دہشت گرد آندرے ہیرنگ بریویک کی جانب سے برطانیہ میں اپنے ساتھیوں اور اپنے ہم خیال لوگوں کی موجودگی اور ایک مضبوط نیٹ ورک کے انکشاف کے بعد برطانیہ کے عوام اور برطانوی سکیورٹی میں کھلبلی اور ہلچل مچی ہے،اور کئی برطانوی شہروں میں سکیورٹی اسکریننگ شروع ہوگئی ہے،کہ برطانیہ کو دو جانب سے خطرہ لاحق ہے،مسلم انتہا پسند اور کرسچئن انتہا پسند۔۔۔۔
برطانیہ کو القائدہ کے ساتھ ساتھ ان عیسائی دہشت گردوں سے بھی دو دو ہاتھ کرنے پڑیں گے،قطع نظر اس کے کہ دونوں کے نقطہ نظر اور منزل الگ الگ ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ نے حال ہی میں بی بی سی کے اینڈرہومر شو میں دئیے گئے ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ القائدہ ،داعش ،جدید نیٹ ورکس کے مقابلے میں انفرادی سطح پر ڈھائی جانے والی تباہی کو روکنا برطانیہ کے لیے انتہائی مشکل ہے۔برطانوی وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ القائدہ اب تک مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ،حالانکہ اوسلو میں حملہ کسی بین الاقوامی سازش سے تعلق ظاہر نہیں کرتا ۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ ملک میں ایسے خطرات کی سطح بہت بلند ہے۔۔۔انہوں نے بی بی سی شو میں ملک کو حملوں کو محفوظ رکھنے میں پولیس اور انٹیلی جنس سروسز کے انتہائی اعلی سطح کے کام کی تعریف کی اور کہا کہ ہم مزید چیک کریں گے،کیا دہشت گردی کی تمام اقسام پر ہماری توجہ مرکوز ہے؟
میرےحساب سے تایخ میں تشدد و طاقت اور انتہا پسندی کو دوام حاصل نہیں رہا ہے،نہ بادشاہت نہ شہنشاہت اور نہ ہی  فوجی آمریت لازوال رہی ہے،خواہ اس کے جبرو استعداد کتنے ہی بڑے ہوئے کیوں نہ ہوں ماور تشدد و انتہا پسندی کی شکل کچھ بھی رہی ہو،شدت پسندی ، تشدد،اور دہشت گردی خواہ کیسی بھی ہو ،اس کا انجام شکست ہے صرف شکست کہ انتہا پسندی مجھے کسی طور بھی قبول نہیں ۔۔۔۔جیسے عدل و انصاف کےمعاملے میں مجھے اعتدال پسندی کسی طور قبول نہیں ۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ انتہا پسندی کے خلاف جتنا کام اب تک ہوا ہے اس سے کہیں زیادہ ایسا ہے جو نہیں ہواسکا۔۔۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply