عقیدے کا جنون اورجبلت۔۔۔ادریس آزاد

’’عقیدے کا جنون جبلی امرہے۔ اگر آپ کے ہاں کسی مذہبی عقیدے کا جنون موجود نہیں تو قدرے دھیان سےدیکھنے پر آپ کو اپنے ہاں کسی اور طرح کے عقیدے کا جنون ضرور لاحق ہوا نظرآسکتا ہے۔ وہ معاشرے جہاں مذہبی عقائد کے جنون کا دور تمام ہوچکا وہاں ہیومین رائٹس سے متعلق عقائد کا جنون پروان چڑھ چکاہے‘‘

یہ وہ الفاظ ہیں جو میں نے اُس وقت لکھے تھے جب پاکستان میں یوٹیوب بند تھی اور ’’اِنّوسینس آف مسلمز‘‘ کا چرچا تھا۔ تب ایک موقع پر برطانیہ میں دس ہزار مسلمان گوگل کے دفتر کے باہر احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے لیکن گوگل کے نمائندے نےباہر آکر کہا تھاکہ وہ ویڈیو نہیں ہٹائیں گے کیونکہ ویڈیو کا وہاں ہونا ’’نکوالا بیسلے‘‘ کے بنیادی انسانی حقِ آزادیِٔ گفتارمیں سے ہے۔

یہی نہیں، امریکہ میں اگر کوئی گورا کسی کو کالا کہہ دے یا کوئی کالا کسی کو گورا کہہ دے تو یہ بُرا سمجھاجاتاہے۔ امریکہ میں کسی شہری کے لیے ’’نسل پرست‘‘ کا لفظ انتہائی بُری گالی ہے۔ بعض موقعوں پر جب کوئی کسی کو ’’یوآر اَ ریسسٹ‘‘ کہہ دے تو وہیں میدان میں لوگ ایک دوسرے دست و گریبان ہوجاتےہیں۔

پاکستانیت میں بھی ایسے عقائد موجود ہیں۔ آپ کسی پاکستانی کے منہ سے ایسی اردو برداشت نہیں کرسکتے جس میں ہندی کا کوئی لفظ ہو۔ تاریخِ پاکستان میں آپ مہاتما گاندھی کو ایک دشمن اور ایک ولن کی حیثیت سے جانتے ہیں لیکن تاریخِ حقیقی میں ایسا نہیں ہے بلکہ گاندھی جی دنیا کے چند بہترین انسانوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔

یہی نہیں، پاکستان کے بڑے بڑے اصنام میں، قائدِ اعظم، علامہ اقبال، ہندوستان دشمنی، فوج پرستی وغیرہ جیسے کئی ایسے عقائد ہیں جو جنون کو جنم دیتے رہتے ہیں۔ عقیدے کا جنون ایک جبلی امر ہے۔ عقیدہ اچھا بھی ہوسکتاہے اور بُرا بھی۔ اور ایسا بھی کہ بظاہر دِکھنے میں اچھا ہو لیکن فی الحقیقت اس کے اچھے اور بُرے دونوں پہلو ہوں جیسا کہ ’’آزادیٔ گفتار‘‘ کا عقیدہ ہے۔

نئے زمانے میں خدا کی جگہ سائنس نے لے رکھی ہے اورمذہبی عقائد کی جگہ سائنسی عقائد نے۔ حالانکہ اس حقیقت سے کسی کو انکار بھی نہیں کہ سائنس کا منصب اخلاقیات وضح کرنا نہیں ہے۔ دنیا کی مشترکہ حکمت میں اس بات کے ثبوت بار بار ملے ہیں کہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام ہرعہد کا کارسازوکارآفریں رہاہے۔ ایسی تمام اخلاقیات جس کے پس پردہ سائنس ہے، فی الاصل سرمایہ دارانہ اخلاقیات ہے۔ فی زمانہ جس آزادیِ گفتار کے عقیدہ پر انسانی عظمت کا واویلا مچایا گیاہے، وہ خود ان تہذیبوں میں مفقود ہے جہاں سے یہ تصور برآمد ہواہے کیونکہ اوپر کی سطح پر سرمایہ دار موجود ہے۔

کسی نہ کسی عقیدے کے جنون میں مبتلا رہنا لگ بھگ تمام انسانوں کا المیہ رہاہے اور اس لیے ایسا کہنا بے جا نہیں ہے کہ ’مذہبی عقیدہ نہ ہوگا تو کوئی ماڈرن فیشن ایبل غیر مذہبی عقیدہ ہوگا جس کے جنون میں مبتلا ہوکر ہم رات دن بولیں گے، لکھیں گے اور بعض اوقات لڑبھی پڑیں گے‘۔

Advertisements
julia rana solicitors

مزہ تو جب تھا کہ ’ہمارے جذبات‘ بقول ڈیوڈ ہیوم ’ہماری عقلوں کے آقا نہ ہوتے‘۔ تب کوئی عقیدہ نہ ہوتا۔ کسی بھی ذہن میں۔ مذہبی ذہن میں مذہبی عقیدے کا جنون نہ ہوتا اور سائنسی ذہن میں سائنسی عقیدے کا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply