آغا حسن عابدی ،ایک بھولا ہوا ہیرا۔۔۔۔۔عبدالحنان ارشد

مجھے یہ بات پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی ہے اور تب سے ایک عجیب سی سرشاری مجھ پر سوار ہو گئی ہے کہ جوش صاحب( جوش ملیح آبادی) کا آغا حسن عابدی کے ساتھ بہت گہرا اور پیارا تعلق رہا ہے۔ جوش صاحب کے خیرخواہوں میں آغا صاحب کا نام اولیں  لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔ آغا صاحب ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے چاہا تھا کہ جوش صاحب کا تمام مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کلام ازسرِ نو شائع کیا جائے۔ آغا صاحب جوش صاحب کا سارا کلام شائع کروانے کے لیے ہمہ وقت تیار تھے، لیکن خاندانِ جوش کی طرف سے اس حوالہ سے کبھی کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔ جوش صاحب آغا صاحب کو بینکنگ کی دنیا میں دیکھ کر کڑھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ آغا صاحب خود کو یہاں برباد کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آغا صاحب بینکر کے ساتھ ساتھ نکتہ سنج مفکر اور زندگی کے بے شمار مسائل سے آراستہ شخصیت تھی۔

ہمہ جہت  آغا حسن عابدی نہایت اعلی پائے کے بینکر تھے۔۱۹۵۹ میں یونائینڈ بنک کو شروع کرنے والے بھی آغا حسن عابدی ہی تھے جو پہلے اس بنک کے جنرل مینیجر بنے، بعد میں اسی بنک کے صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ یہ آغا صاحب ہی تھے جنہوں ہے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ایک صرف ایک عشرہ میں اس بنک کو پاکستان کی صفِ اوّل کی بینکوں کی فہرست میں شامل کردیا تھا۔ پھر ۱۹۷۲ میں بھٹو دور میں جہاں ہمیں اور بہت سی ذلتیں اور مصیبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ وہاں منافع کماتے نجی اداروں کو قومیانے کا مکروہ دھندہ بھی شروع کیا گیا تھا۔ کیونکہ عظیم قائد نے اپنے آپ کو مارکسٹ اور ساتھ ساتھ عوامی بھی تو ظاہر کرنا تھا اور قومیانے کا طریقہ بغیر پالیسی کو وضع کیے صرف حکومتی مشینری کے زور سے حاصل  کرنا بھی آسان تھا اور اس سے قائدِ انقلاب کا ٹھپہ بھی مل جانا تھا۔ پھر میرے عظیم بھٹو نے ایسا ہی کیا تھا۔


جس سے دلبرداشتہ ہو کر بہت سے نجی اداروں کے مالک وطنِ عزیر کو چھوڑ کر بیرون ملک جا بسے اور وہاں جا کر ہی ازسرِنو اپنے ادارے قائم کرنے میں عافیت جانی۔ جن میں ہمارے موجودہ وزیراعظم جنابِ عمران خان صاحب کے مشیر رزاق داؤد کا خاندان بھی شامل تھا۔ جو کسی زمانے میں پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی گھرانا ہوتا تھا۔اب اُس خاندان کا نام تک کوئی نہیں جانتا۔گزشتہ یاد کے جھرکوں سے آئی ہوئی یاد کو لے کر میں کہاں سے کہاں نکل گیا۔۔ لیکن بات چل نکلی تھی تو لازمی اسے جانا تو بہت دور تک ہی تھی۔ واپس آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف۔ باقی صنعتکاروں کی طرح آغا حسن عابدی بھی پاکستان سے دلبرداشتہ ہو کر انگلستان چلے گئے۔ جہاں انہوں نے دبئی کے شیخوں اور امریکہ کی ایک بنک کے سرمائے سے بینک آف کریڈت اینڈ کامرس انٹرنیشنل “بی سی سی آئی” بنک کا آغاز کیا۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے بہت کم عرصے میں آسمان کی بلندیوں کو چھونے والا بنک بن گیا۔ 78 ملکوں میں 400 سے زیادہ برانچوں کے ساتھ یہ دنیا کا ساتواں بڑا نجی بنک تھا-
مجھے نہیں پتا آغا صاحب نے جو کچھ کیا وہ درست تھا یا نہیں لیکن اتنا معلوم ہے اس سب کا آغاز بھٹو کی غلط پالیسیوں سے ہوا تھا۔ جو بندہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے یونائینڈ بنک کو بہت عرصے میں پاکستان کی دوسری بڑی بنک بنا سکتا ہے جو پاکستان میں بنک کی دنیا میں نئی نئی جدتیں متعارف کروا سکتا ہے سوچیں اگر بھٹو صاحب کی غلط پالیسیوں کا اطلاق نہ ہوتا تو آج پاکستان کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہوتا۔ وہ شخص کیونکر اس غلط کام کی طرف راغب ہوتا وہ غلط کام جس کا اُس پر الزام لگایا گیا تھا۔ ایک بار سوچیئے گا ضرور۔

میں آغا حسن عابدی سے کبھی ملا نہیں، انہیں کبھی دیکھا نہیں، انہیں کبھی سنا نہیں۔ کہتے ہیں جس سے آپ کبھی نہ ملے ہوں اس کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے اُس کے کام کو دیکھنا چاہیے۔ پھر اُس کے متعلق رائے قائم کرنی چاہیے۔ میرے لیے آغا حسن عابدی صاحب ایک مسیحا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کی دو نامور جامعات کی تکمیل کے لیے کلیدی کردار اور سرمایہ آغا حسن عابدی نے ہی فراہم کیا تھا۔ ان دو جامعات سے اب تک ہزاروں طالبِعلم اعلی تعلیم حاصل کرکے اپنے خاندانوں کی کفالت کے ساتھ ملک اور بیرون ملک کئی بڑی کمپنیوں میں بڑے عہدوں پر کام کررہے ہیں، اور دیارِ غیر میں پاکستانیوں کا نام روشن کررہے ہیں۔

ان جامعات میں میں جامعتہ تیز اور غلام اسحاق خان صوابی یونیورسٹی شامل ہیں۔ غلام اسحاق خان میں اُن کے نام کا ایک آڈیٹوریم بھی موجود ہے۔ جب کہ جامعتہ تیز کا نام “بی سی سی آئی فاسٹ” ہے۔ کیونکہ میری جامعہ بھی جامعتہ تیز تھی اور میں جامعتہ تیز سے ہی فارغ التَحصیل ہوں۔ ان سے ان ملے ہی عجیب سا عقیدت کا رشتہ قائم ہے۔ میرا ماننا ہے آغا حسن عابدی جیسا اعلی پائے کا بندہ سونے چاندی میں تولنے کے لائق تھا- جس کو ہم آج بھلا چکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

معلومات: پاکستان کے سابقہ وزیرخارجہ، مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے خواجہ آصف بھی آغا حسن عابدی کے ماتحت کام کرتے تھے۔

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply