یوں نہ جھانکو غریب کے دل میں۔۔۔۔عامر عثمان عادل

آج صبح حسب معمول سکول اپنے دفتر میں مصروف کار تھا کہ آیا جی میرے پاس آئیں کچھ دیر خاموش کھڑے رہنے کے بعد جھجکتے ہوئے گویا ہوئیں سر جی میرے بیٹے کا سرٹیفیکٹ دے دیں ۔میں چونک اٹھا اور پوچھا خیریت تو ہے، کیا ہوا سرٹیفیکیٹ کیا کرنا ہے؟۔۔ کچھ توقف کے بعد بولیں میرا بیٹا پریشان رہتا ہے کہتا ہے، امی یا آپ کام چھوڑ دو یا پھر مجھے دوسرے کسی سکول میں داخل کرا دو

اب میری حیرت تشویش میں بدل گئی، کیا ہوا کسی نے کوئی  بات کہہ دی؟۔۔۔

کہنے لگیں دوسرے بچے اسے کہتے ہیں تمہاری امی تو یہاں کام کرتی ہیں بچوں کو واش روم لے کے جاتی ہیں ۔۔بس وہ کہتا ہے میں نے اس سکول میں نہیں رہنا، آیا جی تو یہ کہہ کر دفتر سے چلی گئیں مگر میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔۔حیران کر دینے والی بات یہ تھی کیا محض پانچ سال کا بچہ یہ ساری باتیں کر سکتا ہے اس انداز سے سوچ سکتا ہے اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ اس کے ہم  عمر کس انداز میں سوچتے ہیں اور کیا اس عمر کے بچے زندگی کو اس انداز سے دیکھتے ہیں۔

سوچا اس بچے کو کونسلنگ درکار ہے سو اسے اپنے پاس بلایا ،باتوں باتوں میں اسے سمجھانے کی کوشش کی تم ایسا کیوں سوچتے ہو تمہاری امی تو تمہارے لئے اتنی محنت کرتی ہیں تمہارے بابا کا بوجھ بانٹتی ہیں اور بچے محنت  کرنے میں تو کوئی  بری بات نہیں، تمہاری امی تو بہت اچھی ہیں اور ہاں وہ یہاں نوکری نہیں کرتیں وہ تو میری بہن ہیں اور یہ سکول آپ لوگوں کا ہی تو ہے ،مجال ہے وہ ایک لفظ بھی بولا ہو، مجھے لگا  تھا میرا جذباتی لیکچر سن کر وہ رام ہو جائے گا مگر وہ پتھر بنا کھڑا تھا، اب اس کی خاموشی مجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی گویا
مجھے اس کی چپ نے رلا دیا
جسے گفتگو میں کمال تھا
اس کی آنکھوں میں تیرتی نمی کی تاب لانا اب میرے بس سے باہر تھا اسے تھپکی دی اور کہا آج گھر جا کے اپنی امی کے ہاتھ چومنا۔۔۔۔
تب سے میں بے سکون ہوں ،رہ رہ کر خیال آتا ہے کیا اتنی سی عمر کا بچہ اس قدر حساس ہو سکتا ہے کہ اتنی بڑی بات کہہ دے ۔۔یہ اس کی عزت نفس کا سوال تھا یا خود داری کا تقاضا اپنے گھرانے میں اس بات کا تذکرہ کیا تو کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ خواتین جہاں بطور آیا کام کرتی ہیں وہاں ان کے بچوں کو زیر تعلیم نہیں رہنا چاہیے ، ورنہ ایسے عوامل  لازمی پیدا  ہوجاتے   ہیں ،بچے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔۔۔

لیکن میری رائے اس کے برعکس تھی، میری دانست میں کام کرنے والوں کے بچوں کو بھی مساوی حقوق حاصل ہونا ضروری ہیں ،کیا تفریق پیدا کرنا ضروری ہے ؟ انسانوں کے بیچ امارت و غربت کی لکیر کھینچنے کی بجائے کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم یہ دیوار ہی گرا دیں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سونے لگتا ہوں تو وہ ننھی سی آنکھیں اور ان کی نمی میں تیرتے سوال کچوکے لگاتے ہیں کہ صاحب مجھے جذباتی لیکچر دینے کی بجائے اپنے بچوں کو احترام آدمیت کا سبق ہی پڑھا دو ،انہیں سکھا دو کہ کام کرنا کوئی  عیب ہے نہ گالی اور کیا ہوا جو میں کسی آیا کا بیٹا ہوں ،یہ تو اوپر والے کی تقسیم ہے ،میری ماں پر انگلی اٹھانے والوں کو یہ بتا دو کہ غریب کی بھی عزت ہوتی ہے۔۔
اور اس لمحے میں اس کی نظروں کی تاب نہ لا کر کانپ اٹھا تھا جب اس نے میری جانب دیکھا گویا کہہ رہا ہو
یوں نہ جھانکو غریب کے دل میں
یہاں خواہشیں بے لباس رہتی ہیں!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply