مرد اور عورت۔۔۔شاہد محمود ایڈوکیٹ

عورت ہر صورت و رشتے میں اللہ کریم کی رحمت ہوتی ہے۔

پیارے اللہ کریم اور ہمارے پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین ﷺ نے عورت کو انتہائی قدر و منزلت و عزت عطاء فرمائی ہے۔ عورت ماں ہے تو رب العالمین نے اپنی رحمت کا استعارہ ماں کو قرار دیا اور اس کے پیروں تلے جنت رکھی۔ (آخرت کی جنت ماں کے قدموں تلے ہے تو دنیا میں آپ کی زندگی و گھر تبھی جنت بن سکتے ہیں جب آپ کے بچوں کی ماں آپ سے خوش و راضی ہو)۔ عورت بیٹی ہے تو پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین ﷺ نے بیٹی کی پرورش اچھے طریقے سے کرنے والے کو جنت میں اپنے ساتھ کی خوش خبری دی ہے۔ بہن بڑی ہے تو ماں کی طرح آپ کے لئے دعا گو رہتی ہے اور چھوٹی ہے تو بیٹیوں کی طرح محبت و خلوص سے آپ کے لئے رحمتوں کا باعث بنتی ہے۔ عورت بیوی ہے تو میاں بیوی کا رشتہ انسانوں میں پہلا رشتہ ہے جو اللہ کریم نے تخلیق کیا باقی سب رشتے اس کے بعد کے ہیں۔ اور میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس و سکون ہیں اس سے بڑھ کر کیا استعارہ اس رشتے کی اہمیت و تقدس کا کیا ہو سکتا ہے؟ اور اگر کوئی عورت بظاہر کسی مرد سے خونی رشتہ Blood Relation نہیں رکھتی تو بھی وہ پیغمبر اول سیدنا آدم علیہ السلام کی بیٹی ہونے کے ناطے اس مرد کی بہن ہے کہ اللہ کریم نے سیدنا آدم علیہ السلام و اماں حوا علیہ السلام سے ہی ساری نسل انسانی چلائی ہے۔

تو عرض یہ ہے کہ اس مردوں کے معاشرے Male chauvinist society میں اگر کوئی عورت کسی گناہ میں بظاہر مبتلا نظر آتی ہے یا تصور کی جاتی ہے تو اس کا باعث مرد ہیں عورت نہیں۔ اس لئے اپنی نگاہوں، دل، نیت و نیٹ ورک کو پاکیزہ بنائیں اور عورت کو اللہ کریم کی رحمت سمجھتے ہوئے ایک درجہ بڑھ کر عزت و احترام و شفقت سے پیش آئیں تو پھر آپ مرد کہلانے کے لائق ہو سکتے ہیں ورنہ جس مرد کے منفی رویے کی وجہ سے عورت خوف محسوس کرے یا اس کی آنکھ میں آنسو آئیں وہ مرد کچھ بھی ہو انسان نہیں ہو سکتا۔ اللہ کریم نے مرد و عورت دونوں کو انسان بنایا ہے اور اللہ کریم تمام انسانوں کا رب ہے صرف مردوں کا نہیں۔ اور قرآن کریم بھی سب انسانوں کے لئے یکساں ہے۔ عورت و مرد دونوں اس سے راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں اور اللہ کریم کی کتاب کہیں بھی عورتوں کو مردوں کا غلام نہیں بناتی۔

پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و شفقت اپنی ازواج مطہرات اور بیٹیوں کے ساتھ و دیگر خواتین کے ساتھ حسن سلوک دیکھ کر اس کو مشعل راہ بنائیں اور معاشرے کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیجئے۔ عورت سے حسن سلوک اللہ کریم کی رحمت کے حصول کا ذریعہ ہے۔

اور جو عورت کے گناہ کا ذمہ دار میں نے بالعموم مرد کو کہا ہے اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ بازار حسن میں سب “گاہک و تماش بین” مرد ہی ہوتے ہیں عورت کوئی نہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے باقی ہر شعبہ زندگی میں بھی مرد کی حرص و ہوس عورت کے گناہ کا باعث ہے۔ یہاں ساحر لدھیانوی کے اشعار بھی اس بات کو سمجھنے میں معاون ہوں گے؛

عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا

جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا

تلتی ہے کہیں دیناروں میں بکتی ہے کہیں بازاروں میں

ننگی نچوائی جاتی ہے عیاشوں کے درباروں میں

یہ وہ بے عزت چیز ہے جو بٹ جاتی ہے عزت داروں میں

عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا

مردوں کے لئے ہر ظلم روا عورت کے لیے رونا بھی خطا

مردوں کے لئے ہر عیش کا حق عورت کے لیے جینا بھی سزا

مردوں کے لئے لاکھوں سیجیں، عورت کے لیے بس ایک چتا

عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا

جن سینوں نے ان کو دودھ دیا ان سینوں کو بیوپار کیا

جس کوکھ میں ان کا جسم ڈھلا اس کوکھ کا کاروبار کیا

جس تن سے اگے کونپل بن کر اس تن کو ذلیل و خوار کیا

سنسار کی ہر اک بے شرمی غربت کی گود میں پلتی ہے

چکلوں ہی میں آ کر رکتی ہے فاقوں سے جو راہ نکلتی ہے

مردوں کی ہوس ہے جو اکثر عورت کے پاپ میں ڈھلتی ہے

عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا

عورت سنسار کی قسمت ہے پھر بھی تقدیر کی ہیٹی ہے

اوتار پیمبر جنتی ہے پھر بھی شیطان کی بیٹی ہے

یہ وہ بد قسمت ماں ہے جو بیٹوں کی سیج پہ لیٹی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 8 تبصرے برائے تحریر ”مرد اور عورت۔۔۔شاہد محمود ایڈوکیٹ

    1. جزاک اللہ خیرا کثیرا
      جہاں معاملات عورت و رب کے درمیان ہیں وہاں رب جانے جو اس کی مرضی کے وہ مختار ہے

      جہاں عورت پر مرد قوام ہے وہاں اس کے آنسوؤں کی پوچھ مرد سے ہے۔ قوام قوت کے مظاہرے والا نہیں بلکہ وہ ہے جو اللہ کریم کے بنائے اسے رشتے کی نگہبانی رحمت بن کر کرے زحمت بن کر نہیں۔

Leave a Reply to شاہد محمود Cancel reply