• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایم کیو ایم اور مقتدر ریاستی ادارے ۔ سبط حسن گیلانی ۔ برمنگھم

ایم کیو ایم اور مقتدر ریاستی ادارے ۔ سبط حسن گیلانی ۔ برمنگھم

اس وقت پاکستانی ریاست چوطرفی مسائل میں گھری ہے۔ کشمیر۔ دہشت گردی۔ بدعنوانی۔ مشرق میں ہندوستان اورمغرب میں افغانستان سے ملحقہ سرحدیں۔بلوچستان۔ طرح طرح کے داخلی مسائل۔کمزور معیشت اور روزافزوں بڑھتی پھیلتی ہوئی آبادی۔تعلیم اورصحت کا دم توڑتا ڈھانچہ۔عفریت کی طرح منہ کھولے بے روزگاری اور لمحہ بہ لمحہ بڑھتی مہنگائی۔اس پر مستزاد ریاستی معیشت کا انجن کراچی۔ یہ سارے پہاڑ جیسے مسائل ہیں جن پر قابو پانا ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ لیکن حکومت کو ان مسائل پر قابو پانے کے لیے جس لگن اورسنجیدگی کی ضرورت ہے۔ اس کا فقدان نظر آتا ہے۔ مثلاً کشمیر جیسے اہم ترین موضوع پر بین الاقوامی برادری کو اصل حالات سے آگاہ کرنے کے لیے حکومت نے جو وفد تشکیل دیا اس میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنہیں کشمیر کے بارے میں الف ب کا بھی علم نہیں۔ حکومت اور حزب مخالف میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بہترین انتخاب ہو سکتے ہیں لیکن حکومت اپنی ناک سے آگے دیکھنے پر تیار ہی نہیں۔

ایسے میں بہت سارے سنجیدہ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت ریاستی داخلی معاملات میں سرفہرست کراچی کا مسئلہ ہے۔اور کراچی کے تمام مسائل ایک ہاتھی کی دُم سے بندھے ہیں۔ اس ہاتھی کا نام ہے ایم کیو ایم۔ ابھی ابھی اس ہاتھی کی اپنے بے رحم مہاوت سے جان چھوٹی ہے۔ اب دو ہی طریقے ہیں۔ ایک تو مہاوت کے ساتھ ساتھ اس ہاتھی سے بھی عجلت میں جان چھڑائی جائے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اسے مکمل طور پر کُچلا تو جا نہیں سکتا۔ زیادہ سے زیادہ اس کی سونڈھ کاٹی جا سکتی ہے اورکٹی ہوئی سونڈھ والا ہاتھی بستیوں میں جو حشر برپا کر سکتا ہے اس کا تجربہ ہم سے زیادہ کسے ہو سکتا ہے۔

دوسرا طریقہ ہے اس کی طینت سے آگاہ کسی تجربہ کار مہاوت کے سپرد کیا جاے جو اسے سدھا کر مثبت کام میں لائے۔ وہ مہاوت فاروق ستار سے بہتر کون ہو سکتا ہے۔ جو اس کی رگ رگ سے واقف ہے۔ دوسرا مہاوت مصطفی کمال ہے مگر اس کی شرط ہے پہلے اسے میری حویلی میں لاؤ۔ اس کی پیٹھ پر میرے فیل خانے کا داغ لگاؤ۔ جیسا کہ ہم آئے روز سنتے ہیں کہ ذمہ داران کے ساتھ ساتھ سہولت کاروں کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔ کاش ایسا ممکن ہو جائے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اس جماعت کے پہلے سہولت کار ہمارے سابق مرد مومن امیرالمومنین جنرل ضیا تھے۔فوج اور پولیس کا تو مجھے پتہ ہے ایک لانگری بھی بھرتی کیا جائے تو جب تک اس کے متعلقہ تھانے سے اس کے کردار کی تصدیق نہ آجائے اسے مستقل نہیں کیا جاتا۔پھر ایک مجوزہ جماعت کا سربراہ بھرتی کرتے وقت اس بات کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا؟ ۔کیا22اگست کی شام ہمیں ان کے باطنی خیالات کا علم ہوا؟ موصوف14اگست1979کو چٹے سفید دن کسی کچی بستی کی گلی چوراہے پر نہیں بلکہ قائد اعظم کے مزار پر پاکستان کا پرچم جلانے کا کارنامہ سرانجام دے چکے تھے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ بھائی اپنے مستقبل کو سنوارنے کی خاطر پاک فوج میں سپاہی بھی بھرتی ہوے تھے۔ کاش وہیں قیام کرتے اور اپنی بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں کے سبب آج کم از کم صوبیدار میجری کی پنشن پارہے ہوتے۔ طلبا سیاست میں ٹھہرے رہتے تو کالج سے فراغت کے بعد زیادہ سے زیادہ اوروں کی طرح ایک قبضہ گروپ بنا لیتے۔ لیکن تھے مقدر کے سکندر کہ مردِ مومن کی نگاہ میں آگئے۔ نگاہء مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔اس نگاہء کامل کا کرشمہ تھا کہ ایسی تقدیر بدلی جس کی مثال تاریخ کے ہر چوہرائے پر نہیں ملتی۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کی تقدیر پھوٹ گئی۔ دن دگنی رات چوگنی ترقی کا سفر جاری تھا جس میں چند ایک موڑ بھی آئے تاآنکہ جنرل مشرف کا سورج طلوع ہوا۔ موصوف ابھی میجر جنرل ہی تھے کہ کراچی میں تعیناتی کے دؤران بھائی سے ایک اٹوٹ رشتے میں بندھ چکے تھے۔ جب اقتدار پر قابض ہوے تو اس وقت بھائی لندن میں قدم جما چکے تھے۔

جب بھائی نے بھارت جا کر پاکستان کے قیام پر اپنے بزرگوں کے ’’ گناہوں‘‘ کی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی اس وقت پاکستان کی فصیل پر مشرفی پرچم لہرا رہا تھا۔بھارت میں پاکستانی سفارت خانے کو بھائی کی میزبانی پر اس تقریر کے بعد اعتراض تھا لیکن پیغام بھیجا گیا تم وہ نہیں جانتے جو ہم جانتے ہیں۔ اب ہمارے بھائی بند اس کا الزام میاں نواز شریف پر دھر رہے ہیں کہ انہوں نے اس جماعت کے500خطرناک ترین مجرم جیلوں سے رہا کر دیےاور ساتھ ریاست کی طرف سے ان کی تالیف قلب کی خاطر کروڑوں روپے بھی نذر کیے۔

ایسے لوگ تاریخ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش فرما رہے ہیں۔ یہ مجرم میاں نواز شریف نے نہیں جناب عزت مآب سیدنا مشرف نے رہا کیے تھے۔ آج ایک بڑا طبقہ تواتر سے یہ راگ الاپ رہا ہے کہ مرکزی حکومت مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کی خاطر بھارت کی ایما پراس جماعت کو سپورٹ کر رہی ہے۔ یہ پاکستان کے عوام کی منتخب حکومت پر ایک سنگین الزام ہے۔ جو ہرگز پاکستان کی خدمت نہیں ہے۔

دوسرا وہ طبقہ ہے جو فاروق ستار سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اپنے سابق قائد پر اعلانیہ تبرا کریں۔ اعلان لا تعلقی، ۔جماعت کے آئین سے سابق قائد کے نام اور اختیارات کو مٹا ڈالنا، ایوان میں قرار داد مذمت ۔کیا کم ہے؟ اس وقت ریاست کے اداروں پر بہت نازک ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان۔ ہم قوم کی امنگوں کے ساتھ ساتھ چلیں گے۔ڈی جی رینجر کا بیان۔ کوٹہ سسٹم کی لعنت ختم کی جائے۔ سوکھے دھانوں پر برکھا رُت جیسے محسوس ہوے۔ مقام شکر ہے کہ ہماری آج کی فوجی اور سول قیادت اس معاملے پر یک سو ہیں۔ قانون نافز کرنے والے اداروں کا کام ہے جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا۔باقی رہا ایم کیو ایم کا سیاسی مستقبل توبہتر ہے کہ اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے گا۔ کراچی کے عوام مصطفی کمال کے پرچم تلے جمع ہوتے ہیں یا فاروق ستار کو اپنا نمائندہ منتخب کرتے ہیں، انہیں اس سلسلے میں پوری آزادی ہونی چاہیے۔ اجتماعی دانش جب بروئے کار آتی ہے تو راستے ہموار ہوتے ہیں۔ جب اوپر سے قیادت کا نزول ہوتا ہے تو منزل ہمیشہ کھوٹی ہوتی ہے۔ تجربہ مشاہدہ اور تاریخ اس بات پر متفق ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(سید سبط حسن گیلانی برطانیہ میں مقیم اور جنگ لندن سے وابستہ ہیں۔ آپ بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ ہیں اور برطانیہ میں بھی سرگرم ہیں۔ وہ “مکالمہ” کیلیے باقاعدہ اپنے کالم عنایت کریں گے۔ ایڈیٹر)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply