دنیا دہشت گرودں کے نشانے پر کیوں آگئی ہے؟ انسان اپنے ہی جیسے دوسرے انسان کا دشمن کیوں ہوگیا ہے؟ یہ بات قطعی غلط ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اگر دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تو وہ ہمیشہ مذہبی تہواروں کو ہی کیوں ٹارگٹ کرتے ہیں؟ وہ ہمیشہ ثواب کی نیت سے ہی کیوں حملہ آور ہوتے ہیں؟ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کی کئی جہات سامنے آئی ہیں، لیکن اس دہشت گردی کی جڑ مذہبی ہی ہے۔ کیا القاعدہ کوئی سیکولر مسلح جماعت تھی؟ کیا طالبان سوشلسٹ مزاج اور فکر کے آدمی ہیں؟ نہیں بالکل بھی نہیں۔ اس بیانیے یا مغالطے کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ دہشت گردوں کا ٹارگٹ بھی ہوتا ہے اور ان کی کوئی نہ کوئی مذہبی تفہیم بھی ہوتی ہے۔
یہاں سوال کروٹ لیتا ہے؟ کیا دہشت گرد یا دہشت گردی کا شکار صرف مسلمان ہی ہیں؟ بالکل نہیں۔ بدھ مت بھی انتہاء پسند ہیں۔ بھکشو بھی انتہاء پسند ہیں۔ لیکن سارے نہیں، جس طرح مسلمانوں کی غالب تعداد امن پسند اور صلح جو ہے، بالکل اسی طرح بدھ مت اور بھکشوئوں کی غالب تعداد بھی دیگر مذاہب کے بارے میں متناسب رویہ رکھتے ہیں۔ دہشت گردی اور مذہب کے تعلق پر اگر تحقیقی مقالہ لکھا جائے یا کسی کتاب کا موضوع بنایا جائے تو شاید ہی کوئی مذہب ایسا بچے جس کا کسی نہ کسی طرح انتہاء پسندی سے واسطہ نہ ہو۔ اس مرحلے پر دیکھنا پڑے گا کہ دہشت گردی اور مذہب ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں یا کسی وجہ سے ایک مذہب یا مسلک اپنے فہم کے مطابق دوسروں پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے۔
کالعدم دہشت گرد تنظیم داعش کا فکری تصور کیا ہے؟ خلافت؟ اور اس نام نہاد خلافت کے لیے انہوں نے غیر مسلم تو ایک طرف کلمہ گو مسلمانوں کو بھی بے دردی سے ذبح کیا۔ ایزدی جنھیں یزیدی بھی کہا جاتا ہے، اس قبیلے کی خواتیں کو زبردستی جنسی “جہاد” کا نشانہ بنایا۔ حتیٰ کہ داعشیوں کے حق میں جہاد النکاح کے فتاویٰ تک جاری ہوئے۔ داعش کے نام نہاد جہادیوں سے “جہاد النکاح” کے لیے سب سے پہلے تیونس کی پارلیمنٹ میں انکشاف ہوا کہ تیونس کی ہزاروں کنواری لڑکیاں “مجاہدین” سے جہاد النکاح کرکے واپس آرہی ہیں۔ تفصیل دردناک ہے۔ ہمیں موضوع کی طرف پلٹنا ہے۔
عالمی برادری سری لنکن عوام سے اظہار یکجہتی کر رہی ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ سول و عسکری قیادت نے بھی سری لنکا کی تاریخ میں ہونے والی بدترین دہشت گردی پر اظہار افسوس کیا ہے۔ ایسٹر عیسائیوں کا مذہبی تہوار ہے۔ سری لنکا میں ایسٹر کے روز ہونے والے سلسلہ وار 8 بم دھماکوں کے الزام میں اب تک 14 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، ان دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں کم از کم 290 افراد ہلاک جبکہ 500 افراد زخمی ہوئے ہیں، دھماکوں میں مسیحی عبادت گاہوں اور ہوٹلوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ سری لنکن حکام نے بم دھماکوں کے فوری بعد لگایا جانے والا مختصر کرفیو پیر کی صبح اٹھا لیا، تاہم اب تک کسی بھی گروہ یا تنظیم نے ان منظم دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ سری لنکن حکام کے مطابق دھماکوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں 32 غیر ملکی شامل ہیں، جن میں 5 بھارتی، 3 برطانوی، 2 ترکی اور ایک پرتگال کا شہری جبکہ 2 افراد کے پاس برطانیہ اور امریکا دونوں ممالک کا پاسپورٹ تھا۔
اس کے علاوہ سری لنکن دفتر خارجہ کے حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ 9 غیر ملکی افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں، تاہم 25 ایسے افراد کی لاشیں بھی موجود ہیں، جن کی اب تک شناخت نہیں ہوسکی اور ممکنہ طور پر وہ غیر ملکی ہیں۔ سری لنکن حکومت کی جانب سے یہ اعلان بھی سامنے آیا ہے کہ دھماکوں میں غیر ملکی عناصر کے ملوث ہونے کے حوالے سے بھی تفتیش کی جائے گی، جبکہ لنکن وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ عارضی طور پر معطل کی جانے والی سماجی روابط کی ویب سائٹس کو اس وقت تک بند رکھا جائے گا، جب تک حکومت مسیحی عبادت گاہوں اور ہوٹلوں میں ہونے والے بم دھماکوں کی تفتیش میں کسی نتیجے تک نہیں پہنچ جاتی۔
ایک عالمی نشریاتی ادارے کے مطابق مطابق سری لنکا کے پولیس چیف نے 10 روز قبل خبردار کیا تھا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں قائم مسیحی عبادت گاہوں کو خودکش بمبار نشانہ بنا سکتے ہیں۔ پولیس چیف نے 11 اپریل کو حکام کو ایک انٹیلی جنس شیئر کی تھی، جس میں حملوں کے حوالے سے خبردار کیا گیا تھا۔ انٹیلی جنس معلومات میں کہا گیا تھا “کہ غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسی نے رپورٹ دی ہے کہ نیشنل توحید جماعت (این ٹی جے) کولمبو میں معروف مسیحی عبادت گاہوں اور انڈین ہائی کمشنر پر حملے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔” لیکن حیرت انگیز طور پر ابھی تک کسی گروہ یا جماعت نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ اس کے باوجود سری لنکن تاریخ کی بدترین دہشت گردی کے بعد ملک میں مذہب کی بنیاد پر فسادات کا خطرہ موجود ہے۔
اتوار کی رات کو شمال مغربی علاقے میں ایک مسجد پر پیٹرول بم سےحملہ کیا گیا جبکہ مسلمان افراد کی 2 دکانوں کو آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ نیز سری لنکن وزیراعظم رانیل وکراما سنگھے نے اس بات کی تصدیق کی کہ حکومت کو پہلے ہی ایک غیر معروف مسلمان گروہ کی جانب سے مسیحی عبادت گاہوں پر متوقع حملے کی اطلاع مل گئی تھی، لیکن ان کے وزراء نے انہیں اس بارے میں آگاہ نہیں کیا۔ اب سوال یہ نہیں رہا کہ کون سا گروہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والا ہے؟ یا دہشت گردی پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار اس کو کس گروہ کی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تامل ناڈو کی دہشت گردی کا شکار رہنے والے ملک، سری لنکا کو ایک بار پھر اس وقت کیوں چرکا لگایا گیا، جب وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو رہا ہے؟ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ تامل باغیوں کو بھارتی سپورٹ حاصل تھی۔ کیا ایک بار پھر بھارت کوئی نئی چال چل گیا ہے؟ کیا اب مذہب کا تعارف عالم انسانیت میں قتل و غارت گری کے سوا کوئی نہیں رہے گا؟ حالانکہ تمام الٰہی مذاہب کی تعلیمات میں سماجی اخلاقیات اور انسانی جان کی حرمت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔
واقعہ اگرچہ سری لنکا میں ہوا، لیکن اس کا ردعمل پوری دنیا میں دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ جیسا کہ برطانیہ کی ایک مسجد پر مسلمانوں کے خلاف نسل پرستانہ اور تعصب پر مبنی جملے لکھے گئے ہیں۔ کیا دہشت گرد امن قائم کرنے کی کوشش میں مگن قوتوں سے زیادہ طاقتور اور بہتر منصوبہ ساز ہیں؟ یا واقعی دہشت گردوں کو عالمی شیطانی قوتوں کی پشت بانی حاصل ہے؟ آخر الذخر زیادہ قرین قیاس ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیئے کہ پاک سری لنکا تعلقات بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ ایک غیر معروف دہشت گرد تنظیم کا ظہور خطے میں دہشت گردی کی نئی حکمت عملی کا اظہار بھی ہے۔ کیا واقعی دنیا اپنے انجام کے قریب ہے؟ یا ابھی اہل دانش عالم انسانیت کی بقا کے لیے ایک دوسرے کا دست و بازو بن کر دہشت گردی کی تمام اقسام کو شکست دیے سکیں گے؟ ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیئے۔ فتح کا نقارہ امن کے حق میں ہی بجے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں