توجہ کے محتاج ۔۔۔ عبد اللہ خان چنگیزی

آپ سب کی توجہ چاہتا ہوں قارئین کرام اور اگر آپ صاحبان اپنی کسی ذاتی کام یا مسئلے میں سرگرداں ہیں تو ہم آپ کو کسی قسم کی تکلیف دینے کے بالکل حق میں نہیں ہیں۔  آپ کا جب دل کرے ہماری اِس تحریر پر نظر ڈالیں نہ چاہیں تو آپ نگاہ پھیر سکتے ہیں۔
بات کرتے ہیں ایک اہم مسئلے کے بارے میں جو میرے نقطہ نگاہ سے تو ایک مسئلہ ہی ہے۔ وہ ہے توجہ کے طلبگار کچھ فیس بکی خدمتگاروں کا اور خدمتگار بھی ایسے کہ جِن کے قلم کی روشنائی سے زبردست قسم کی ایجادات ہوتی رہتی ہیں۔  ایسی ایجادات کہ جِن سے نہ تو کوئی فائدہ حاصل کرسکتا ہے نہ ہی تبرک کے طور پر اپنے پاس رکھا جاسکتا ہے۔ موضوع سمجھ نہیں آئی تو وضاحت پیش کرتا ہوں

ایک دیہاتی ایک گڈریے کے پاس گیا اور اُس سے پوچھا کہ بھئی یہ تو بتاو کہ جو دودھ اِن بکریوں کے تھنوں  میں جمع ہوتا رہتا ہے وہ باہر کیوں نہیں گِرتا خودبخود؟  ہمیں کیوں دوھنا ہوتا ہے؟ گڈریا بیچارہ پریشان حال اُس کے منہ کو تکنے لگا کہ اب میں جواب دوں بھی تو کیا دوں کیونکہ اُس کے پاس تو اتنا علم ہی نہیں تھا۔ آخر ہوا یہ کہ اُس نے دیہاتی کو برا بھلا کہا اور پاگل قرار دے کر اُس کے پاس سے چلا گیا۔ دیہاتی سوچنے لگا کہ میں نے اِس سے بڑا جاہل نہیں دیکھا جو یہ بھی نہیں جانتا کہ دودھ گرتا کیوں نہیں جبکہ وہ دن رات اِنہی بھیڑ بکریوں کے پاس رہتا ہے۔ اب چونکہ وہ تو ایک گڈریا تھا بھلا وہ کیسے جانتا اِس منطق کو کہ جو دودھ تھنوں  میں جمع ہوتا ہے وہ اصل میں رگ اور پٹھے ہوتے ہیں اُسی میں جمع ہوتا رہتا ہے اور اللہ تعالی نے ایسا نظام بنایا ہے کہ جب تک ان کو دبایا نہ جائے وہ دودھ نہیں نکلتا ۔

یعنی یہ سارا نظام اِس لئے بنایا گیا کہ دودھ ضائع نہ ہوا کرے۔ اب اگر دیکھا جائے تو دیہاتی ہی سب سے بڑا جاہل ہے کہ وہ ایک ایسے شخص سے یہ سوال پوچھنے گیا جو بیچارہ اُس کے بارے میں جانتا ہی نہیں تھا۔

یہی دیہاتی والا رویہ آج کل سوشل میڈیا کے ہر ایک پلیٹ فارم پر دیکھائی دیتا ہے۔ لوگ توجہ حاصل کرنے کے لئے کیا کیا نہیں کر رہے۔ کوئی مذہبی نقطوں اور رموز کو ایسے پیش کر رہے ہیں کہ دوسرے بیچارے جو زیادہ معلومات نہیں رکھتے وہ منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔  اُن کے پاس آخر میں بجائے مُتفق ہونے کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ کچھ صاحبان فلسفے کو بنیاد بنا کر عقائد پر وار کر رہے ہیں جِن کی منطقی دلیل ہی کوئی نہیں بنتی۔ ایسے ایسے اشکال و سوالات اپنے مسکین دوستوں کے سامنے رکھتے ہیں جِن کی سمجھ میں اُن کے الفاظ کی الف ب بھی نہیں آتی۔  نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ وہ صاحبِ تحریر کو فیسبک کی دنیا کا اکیس گریڈ کا دانشور قبول کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔

یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ سوشل میڈیا میں ہر کوئی نہ عالم ہے نہ ہی صاحب علم و دانش جو کسی ایسی موضوع پر سامنے والے کو مُدلل دلائل کے ساتھ اُس مسئلے کو حل کرے اور اُن کے شکوک رفع کردے۔  یہ بات اُن سوال پوچھنے والوں کو بھی معلوم ہے کہ جو بات وہ جان بوجھ کر پوچھ رہے ہیں اُس کا تعلق علم کی ایسی  صنف سے ہے کہ  جید علماء کے علاوہ کوئی اُس کا حل پیش نہیں کر سکتا۔ لیکن نہیں وہ براہ راست کسی ایسے عالم سے پوچھنے کا سوچتے بھی نہیں۔  وہ تو اپنی واہ واہ کروانا چاہتے ہیں، اپنی اکیس گریڈی دانشوری پر مُہر در مُہر لگانا چاہتے ہیں خواہ کچھ لوگوں کے ذہنوں میں اپنے عقائد کے بارے میں غلط شکوک و شبہات ہی کیوں نہ جنم لے لیں۔

کچھ حضرات سماجی اور انسانی زندگی کے حقائق پر ضرب لگاتے نظر آئیں گے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ جو بات وہ پوچھنا چاہتے ہیں اُس کی سچائی پر کسی شکوک و شبہات کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی ہے مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ آ بیل مجھے مار یا وہ مداری جو ڈگڈگی بجا بجا کر گاہگوں کو اپنے قریب بلواتا ہے کہ آئیں اور مداری کا تماشہ دیکھیں۔

میری تحریر کسی قسم کی نفرت کی ترجمان بالکل نہیں مگر میں مذہبی اور معاشرتی اقدار کو بنیاد بنا کر ڈگڈگی بجانے کے   حق میں  بھی نہیں۔ لوگ جب بیمار ہو تے ہیں تو   اپنا علاج کروانے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں نہ کہ کسی ہوٹل میں کام کرنے والے بیرے کے پاس۔ اشکالات و شُبہات کسی کے بھی ذہن میں آنا ایک فطری عمل ہے۔ کوئی بھی ہوسکتا ہے جس کے ذہن میں دنیاوی اور دینی احکام و شرائط کے بارے میں شکوک پیدا ہو سکتے ہیں مگر بجائے اِس کے کہ وہ اپنے شکوک و شُبہات دور کرنے متعلقہ ادارے سے رجوع کریں وہ اُن شکوک و شُبہات کو عام انسان کے سامنے رکھ دیتے ہیں جو  اُن کے بارے بالکل نہیں جانتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسئلہ اور اشکال پیش کرنے والے کو تو جواب ملتا نہیں اوپر سے جن لوگوں کے سامنے وہ مسائل پیش ہوتے ہیں وہ بھی گومگو کا شکار ہو جاتے ہیں۔  سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اپنا وسوسہ پیش کرنے والا اُس کے حل میں بالکل بھی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اُس کو تو صرف توجہ چاہئے ہوتی ہے خواہ  کسی بھی قیمت پر  بھی ملے۔
دینی و معاشرتی مسائل کا حل جید علماء کے پاس ملتا ہے جِن کے پیچھے مُستند ادارے اور قابلِ بھروسہ اَساتذہ و مفتی کرام ہیں نہ کہ فیسبُک کے کچھ کچے ذہن طفل مکتب مخلوق کے پاس۔

(اے نبی ﷺ)
کہہ دیجیے کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(سورۃ الزمر آیت نمبر 9)

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply