تصویر ۔ عمیر فاروق

کچھ عرصہ قبل کسی تحقیق کیلیے وادی سندھ پہ نئے مواد کی تلاش میں نظر دوڑائی۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کچھ انڈین یونیورسٹیوں کی طرف سے ایک نئی تھیوری یہ پیش کی جارہی ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کی بربادی میں آریائی حملہ آوروں کا کوئی کردار نہ تھا۔ بلکہ دراصل وہ تو مقامی دراوڑ لوگوں کے ساتھ گھل مل کے ایک نئی تہذیب کی تشکیل دینے لگے تھے۔ مجھے یوں لگا جیسے اندر دیوتا کو وید نکالا دے دیا گیا ہو۔ یہ ایسا بیانیہ ہے جس کی تائید نہ تو آرکیالوجی کے آثار کرتے ہیں اور نہ ہی سماجی یا تاریخی حوالہ جات۔ اس کی وجوہات بھی قطعی سیاسی نظر آتی ہیں۔ یہ ہی سوچتے ہوے بہت تاسف ہوا کہ خود ہم نے اپنی تاریخ کو کس بری طرح سے نظرانداز کیا ہے۔ جس وادی سندھ کے حقیقی وارث ہم لوگ خود ہیں، چاہئے تو یہ تھا کہ تقسیم کے بعد اس میں نئے سرے سے دلچسپی لی جاتی اور تحقیق کی جاتی۔ لیکن ہم نے اپنی تاریخ محمد بن قاسم تک محدود کردی ہے۔ غور کیجیے کہ فیس بک پہ ہونے والے مباحث تو خیر سے ۱۹۱۵ سے شروع ہوکر تقسیم پہ ختم ہوجاتے ہیں اور اس لمبی چوڑی تاریخ کو کبھی زیربحث ہی نہیں لایا جاتا جو وادی سندھ سے شروع ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں ہندو اور مسلم بیانیہ جات موجود ہیں جنہیں مذہبی اور لبرل طبقہ ذوق و شوق سے دہراتا ہے۔ لیکن خود لبرل طبقہ نے بھی غور کی زحمت کم ہی گوارا کی ہے کہ مسلم بیانیہ کی طرح ہندو بیانیہ بھی اپنی اصل میں مذہبی بیانیہ ہی ہے جس میں جابجا جھانکتے ہوئے سماجی حقائق کو مکمل طور سے نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس امر کا اعتراف کرنے میں مجھے کوئی باک نہیں کہ بچپن میں دادا سے جو شجرہ یاد کیا تھا، اس میں ایک خاص عہد سے قبل کے مسلم عربی اور ہندو سنسکرتی نام آج ذہن سے محو ہوچکے ہیں۔ ہاں وہ ایک دو اجنبی نام آج بھی ذہن میں تازہ ہیں جن کا تعلق نہ مسلم روایت سے ہے اور نہ ہندو، اور جن کی اجنبیت ان کے گرد پراسراریت کا ایک ہالہ قائم رکھےہوے ہے۔ ان ناموں کا تلفظ اور ادائیگی ہندو روایت سے زیادہ قدیم گاتھک روایت کے قریب ہے۔ آخر وہ لوگ بھی یہیں موجود تھے اور انہوں نے یہیں، اسی سرزمین پہ وقت گزارا تھا۔

جغرافیہ اور آب و ہوا معیشت اور معاشرت کی تشکیل کرتے ہیں اور معاشرت تاریخ پہ براہ راست اثرانداز ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان ہی عوامل کے باعث وادی سندھ ہمیشہ سے گنگاوجمنا کی وادی سے الگ ثقافتی اور تہذیبی وجود رکھتی ہے۔ اسی باعث قدیم عرب بھی سندھ و ہند کا الگ الگ حیثیت سے ذکر کرتے رہے، حتی کہ تاریخ کے بہت سے ادوار میں ایک ہی مذہب دوںنوں طرف ہونے کے باوجود بھی۔ جہاں ہندوستان پوری طرح مون سون کے خطے میں واقع تھا، وہاں وادی سندھ کا انتہائی شمال مون سون کو صرف چُھوتا تھا۔ اس کے باعث گنگا و جمنا کے علاقہ میں ابتدائی تاریخ سے ہی منظم اور بھرپور زرعی معاشرہ نے جنم لیا جبکہ یہ وادی سندھ میں ممکن نہ تھا۔ اسی لیے کم بارش والی سرزمین روایتی طور پہ گلہ بانی کی معیشت کی حامل رہی، افغانستان یا وسطی ایشیا کی طرح۔ اسی طرح گنگا و جمنا کی وادی میں عمومی طور پہ اشرافیہ اور اشرف تہذیب کی پرورش و پرداخت ہوتی رہی اور وادی سندھ کا کلچر عوامیت اور نیم قبائلیت کا حامل رہا۔ طرز معیشت اور معاشرت کا یہ بنیادی فرق برصغیر کی تاریخ کو متعین کرنے میں زمانہ حال تک مسلسل اثرانداز ہوتا رہا لیکن مسلم اور ہندو مذہبی تاریخی بیانیہ اس کے ذکر سے یکسر خالی ہے۔ اور اسی باعث قدرتی طور پہ ہمیں بہت سے سوالوں کے جواب فراہم کرنے سے قاصر بھی ہے۔

جب ہم اس سوال پہ غور کرتے ہیں کہ گوتم بدھ کی جنم بھومی تو گیا، بہار میں واقع تھی لیکن ہند کی نسبت سندھ اور افغانستان میں بدھ مذہب کو غیر معمولی کامیابی کیوں نصیب ہوئی تو فاتحین یا مبلغین کا دیا بیانیہ اس کا درست جواب نہیں دے سکتا۔ اس کا مکمل جواب طرز معیشت اور معاشرت میں ہی مل سکتا ہے۔ جہاں جہاں منظم زراعت موجود تھی، وہاں اتنی اضافی پیداوار ممکن تھی جو اعلی حکمران طبقہ اور پروہتوں کی پرورش کرسکتی تھی۔ اس کے باعث معاشی طبقات پہ مبنی ہندو مت کا جاتی نظام فروغ پایا اور طبقات پہ مبنی اس تقسیم نے عوام میں اپنی گہری جڑیں بنالیں۔ لیکن وادی کی عموماً گلہ بانی پہ مشتمل معیشت میں سماج قبائلی یا نیم قبائلی رہا۔ اس سماج میں طبقات پہ مبنی وہ معیشت موجود ہی نہ تھی جو جاتی نظام کو بنیاد فراہم کرتی۔ چنانچہ سندھ میں ہندو مذہب کے اندر رہ کے بھی طبقاتی نظام کو فروغ نہ مل سکا۔ اس امر کا اظہار خود گوتم بدھ بھی کرتا ہے جب وہ اس علاقہ کے ضمن میں کہتا ہے کہ

“وہاں کوئی شخص کوئی بھی پیشہ اختیار کرسکتا ہے اور کوئی شخص کسی سے بھی شادی کرسکتا ہے۔”

بدھ مذہب جاتی نظام کی نفی کرتا تھا اور انسانی برابری کا قائل تھا، لہذا اس کی یہاں مقبولیت ایک فطری امر تھا۔ حتی کہ جب چولا خاندان کے عہد میں بدھ مت کو ہندوستان میں ختم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، تب بھی وادی اور افغانستان میں بدھ مذہب پوری طرح سے قائم اور مقبول تھا جس کا تذکرہ ہیون سانگ بھی کرتا ہے۔

یہی الجھاؤ ہمیں محمد بن قاسم کے معاملہ میں بھی نظرآتا ہے۔ ایک بیانیہ کی رو سے وہ ایک مرد مجاہد تھا جس کی قوت ایمانی کی ایک پھونک سے باطل کی قوتیں ہوا میں اڑ گئیں۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتی کہ ملتان کے شمال میں مجاہدین پہ کیا گزری کہ قوت ایمانی کم ہوئی اور فتوحات بہت سست پڑ گئیں؟ دوسرا بیانیہ جو راجہ داہر کو دھرتی ماں کا بیٹا اور ہیرو قرار دیتا ہے ، اس سوال پہ دائیں بائیں دیکھنے لگتا ہے کہ اس عظیم ہیرو کے خلاف اس کے اپنے عوام ہی حملہ آوروں کے ساتھ کیوں مل گئے؟  لیکن زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو سمجھنا مشکل نہیں کہ وادی کے جنوب میں جہاں دریا سست رفتاری سے بہتے تھے، اس دور میں بھی نہریں نکالنا ممکن تھا جس کے باعث اعلی طبقہ جو ہندو تھا شہروں میں مقیم اور حکمران تھا۔ جبکہ نچلا دیہی اور مزدور طبقہ یا تو ابھی تک بدھ مذہب سے تعلق رکھتا تھا یا حالیہ ہی جبراً ہندو بنایا گیا تھا اور اس طبقاتی تقسیم پہ خوش نہیں تھا اور شاید اسی لیے بیرونی حملہ کے وقت بغاوت پہ آمادہ ہوا۔ لیکن ملتان کے شمال میں سماج مختلف تھا اور قبائل پہ ایسا کوئی جاتی نظام مسلط نہ تھا جس سے بغاوت کی وجہ موجود ہوتی لہذا مزاحمت کے باعث فتوحات سست پڑ گئیں۔

غزنی کا محمود شائد وہ کردار ہے جس پہ سب سے زیادہ بحث ہوئی۔ اسلام پسندوں کا بیانیہ یہ نہیں بتاتا کہ آنند پال جب لاہور کھونے کے بعد مشرقی پنجاب کو منتقل ہوا تو محمود اس کا پیچھا چھوڑ کے جنوب میں منصورہ کی مسلم ریاست پہ حملہ آور کیوں ہوا، جبکہ آنند پال کے خاندان سے جنگ کرتے محمود کے خاندان کی یہ دوسری نسل تھی۔ اسی طرح سومنات کے بعد اس کا دھیان بنارس اور کاشی کے مندروں کی طرف کیوں نہ گیا؟ دوسری جانب “لٹیرا بیانیہ” اس کی وضاحت نہیں کرتا کہ بالآخر جب وہ راجپوتوں کی مزاحمت توڑ چکا تھا تو باقی مندروں کے سونا چاندی کی طرف دھیان کیوں چوک گیا؟ البتہ اس میں شک نہیں کہ ہندو مسلم نفرت کا باقاعدہ آغاز محمود کے دور سے ہی ہوا۔ جبھی ہندو مت نے مسلمانوں پہ اپنے علوم کے دروازے بند کردیے جبکہ اس سے قبل ایسا ماحول نہ تھا۔ شاید اس کی وجہ سومنات کی تباہی نہیں بلکہ محمود کی ملک بدری کی پالیسی تھی۔ یہ پالیسی بہت ظالمانہ تھی اور صرف ہندو آبادی کو شدید نشانہ بناتے ہوئے ان کے مال اسباب ضبط کرکے ان کے گھروں کو آگ لگا کے انہیں جلاوطن کردیا گیا۔ مغربی ایشیا اور مشرق وسطی میں تو یہ ہوتا آیا تھا لیکن برصغیر میں یہ پہلی مرتبہ ہوا۔ اسی نے ہندو آبادی میں ایک نفرت اور بد اعتمادی کو جنم دیا۔ محمود نے آخر ایسا کیوں کیا؟ بادی النظر میں محسوس یہی ہوتا ہے کہ اس دور میں افغانستان اور موجودہ پاکستان میں بدھ آبادی کثیر تعداد میں موجود تھی اور محمود نے اپنے والد کے تجربے سے یہ سیکھا تھا کہ بدھ لوگ آسانی سے تبدیلی مذہب کی طرف مائل ہوجاتے ہیں بہ نسبت ہندوؤں کے، جن میں جاتی اور چھوت چھات کا تصور اتنا گہرا ہے کہ جڑ سے اکھاڑنا بہت مشکل ہے۔ جس کے باعث اس نے ہندوؤں کے خلاف جبری جلاوطنی کی پالیسی اختیار کی۔ بہرحال یہ چند ایک مثالیں تھیں اس امر کو واضح کرنے کے لئے کہ ہماری تاریخ کے ضمن میں ہندو، مسلم دونوں بیانیہ جات اپنی اصل میں بہت حد تک مذہبی بیانیے ہیں جو طرز معیشت اور معاشرت کا کردار سرے سے بیان ہی نہیں کرتے۔

تقسیم کے ضمن میں ہمارے اشتراکی دوست معاشی وجوہات کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ البتہ اپنی نظریاتی مجبوریوں کے باعث وہ اس کو مسلمانوں کے ایک طبقے کے مفاد تک محدود کردیتے ہیں۔ لیکن جب یہ سوال سامنے رکھا جائے کہ اگر ایسا ہی تھا تو کیمونسٹوں نےتقسیم  پاکستان کی حمایت کیوں کی؟ اس کے جواب میں اشتراکی دوست ایک طویل ڈبکی لگا کے آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

 ہم نے اپنی تاریخ کو بہت زیادہ “مذہبیا” بھی لیا ہے۔ ہم ہندو اور مسلم طرز تعمیر کا فرق تو اجاگر کرتے ہیں لیکن اس بابت خاموش ہیں کہ سکھ طرز تعمیر بھی خالصتاً مغل، مسلم وسط ایشیائی ہے جو ان کے گردواروں سے بھی جھلکتا ہے۔ اسی طرح موجودہ پاکستان یا وادی سندھ بہت لمبا عرصہ ایرانی سلطنت کا حصہ بھی رہی جس کا کم ہی ذکر ہمارے ہاں نظر آتا ہے کیونکہ ہم اپنی تاریخ کی ابتدا محمد بن قاسم سے قبل کرنا ہی نہیں چاہتے۔ دوسری جانب ہندو ماہرین سیاسی وجوہات کی بنا پہ اس میں دلچسپی نہیں لیتے کیونکہ یہ اکھنڈ بھارت کے تصور کےخلاف ہے۔ تقسیم کے بعد یہ ضروری تھا کہ اپنی تاریخ کا نئے سرے سے جائزہ لیا جاتا۔ پرانے بیانیہ جات نے ہندو مسلم تنازعہ کے پس منظر میں جنم لیا تھا جس کی تقسیم کے بعد پاکستان میں ضرورت ہی نہ تھی۔ اور نئے سرے سے وادی سندھ سے تاحال اپنی تاریخ کے معاشی اور سماجی عوامل کو بھی جاننے کی ضرورت تھی، اور اب تو اشد ضرورت ہے۔ موجودہ بیانیہ جات تاریخ کی دو ابعادی تصویر پیش کرتے ہیں۔ معاشی اور سماجی عوامل کو شامل کئے بغیر تاریخ کی سہ ابعادی تصویر ممکن نہیں جو ہر پہلو کو اجاگر کرتی ہوئی چلے۔ لیکن ابھی تصویر بہت دھندلی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply