سکیورٹی ایشوز ، کی دنیا۔۔۔محمد اسد شاہ

جانے کب یہ دنیا تقسیم ہو گئی – اللّٰہ نے تو زمین ساری انسانیت کے لیے بنائی – لیکن انسان تقسیم ہوتے گئے تو ان کی دنیا بھی تقسیم ہوتی چلی گئی – زمین کی موجودہ تقسیم کا بیشتر حصہ شاید ہزاروں سال گزار چکا ہے – البتہ وہ “سخت سرحدیں” جو ہمارے عہد میں ہیں ، شاید بہت پرانی نہیں ہیں – قصے کہانیوں اور تاریخی کتب کے مطالعے سے میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سخت پہرے زدہ سرحدیں ، ویزے اور پاسپورٹ وغیرہ جیسی گھٹیا اور نفرت انگیز چیزیں شاید زیادہ سے زیادہ ایک یا دوصدیاں پہلے کی ایجاد ہوں –

بہت خوش نصیب تھے وہ لوگ جو ان چیزوں سے نا آشنا تھے – مثال کے طور پر کوئی یمن کا رہنے والا تھا ، عراق یا سپین چلا گیا ، یا کوئی کسی مغربی ملک کا باشندہ اردن یا مصر منتقل ہو جائے ، اپنے اہل خانہ کو ساتھ لے گیا اور وہیں مستقل رہائش اختیار کر لی – وہاں کی حکومت یا پہلے سے موجود مقامی باشندوں کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا – کوئی ایسا قانون یا پابندی نہیں ہوا کرتی تھی ، جو اس شخص کی اس خواہش کی تکمیل کے راستے میں رکاوٹ بن سکے – یوں بھی ہوتا تھا ، کہ کوئی شخص کسی دوسرے ملک جاتا ، وہیں کہیں شادی بھی کر لیتا اور یوں وہیں اس کو اہل خانہ میسر آ جاتے – بس یہی ہوتا تھا کہ جہاں رہنا ہوتا ، وہاں کے مقامی قانون کا احترام کرنا آپ پہ لازم تھا – اس کے علاوہ آپ سے کسی خاص بات کا تقاضا نہیں کیا جاتا تھا –

اللّٰہ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق میں پیدا ہوئے ، اور عراق سمیت ارد گرد کے ممالک میں بھی اللہ کے پیغام کی تبلیغ کرتے رہے – یقیناً یہ شدید مشقت طلب اور صبر آزما مراحل تھے – لیکن انھوں نے اللہ کا پیغام عراق کے علاوہ موجودہ مصر ، اردن ، فلسطین اور (سعودی) عرب تک پہنچا دیا – آج دنیا کے تینوں  بڑے مذاہب ، اسلام ، عیسائیت اور یہودیت ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں –

گزرے وقتوں میں سفری سہولیات نہ ہونے کے باوجود لوگ دور دراز سفر کرتے تھے – ملکوں ملکوں جاتے تھے – مہنگے ہوٹلز اور پرتعیش ریسٹورنٹس کا تو تصور ہی نہ تھا – جیبوں میں اے ٹی ایم اور کریڈٹ کارڈز نہیں ہوا کرتے تھے – تب ، دوران سفر جس کو ، جہاں رات پڑ جاتی ، وہیں قریب کہیں آبادی میں آرام کیا جاتا تھا – مسافر کسی بھی گھر کے دورازے پر آواز دیتے ، اندر سے تعارف پوچھا جاتا – مسافر بے دھڑک ، بنا شرمائے بتا دیتا کہ وہ مسافر ہے اور شب بسری چاہتا ہے – لوگ اسے ٹھہرا لیتے ، کھانا بھی دیتے اور اپنی استطاعت کے مطابق بستر بھی مہیا کرتے – میزبان اگر بہت نادار نہ ہوتے تو اس ساری خدمت کا کوئی معاوضہ بھی نہ مانگتے – ملک یا مذہب کی بنیاد پر کسی نفرت یا بغض کا اظہار نہ کیا جاتا – اگر ایسا ہوتا بھی تو مجھ ناچیز کی ناقص فہم اس خیال کو ہضم نہیں کر پا رہی –

آج انسانیت کا وہ معیار باقی نہیں رہا – اب ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہمارے کسی پڑوسی ملک کا کوئی شہری صرف سیر کرنے کے بہانے گھومتا ہوا آ جائے اور راول پنڈی کے کسی ڈھابے پر چائے پیتا ہوا پایا جائے یا لاہور کی گلیوں میں بے مقصد گھومتا پھرے اور ہم اس کی نیت پر شک نہ کریں – ہمارے پڑوس میں چین ، روس، افغانستان ، ایران ، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک ہیں جن کے ساتھ ہماری حکومتوں کے تعلقات ہمارے معاشروں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں – ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ ہمارے ملک کا کوئی شہری مثلاً بھارت کے شہر آگرہ یا لکھنؤ کی تہذیب کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہو ، اور بھارتی جاسوس اس کے  پیچھے نہ لگے رہیں ، یا جب وہ واپس اپنے ملک پہنچے تو یہاں کے لوگ اسے غدار یا مشکوک نہ سمجھیں – کوئی عرب شہری کسی امریکی ریاست میں ، یا کوئی امریکی شہری چین کے کسی گاؤں میں بے جھجک سیر کرنے نہیں جا سکتا –

Advertisements
julia rana solicitors

دنیا اب انسانیت کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ  “سیکورٹی ایشوز” کی بنیاد پر چل رہی ہے – تصور کی آنکھ سے دیکھوں تو ایسا لگتا ہے کہ جنگیں ماضی میں بھی ہوتی تھیں اور اب بھی ہوتی ہیں ، لیکن شاید ماضی کے لوگ زندگی سے زیادہ لطف اندوز ہوتے تھے –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply