ہمارا کائناتی سفر۔۔۔محمد شاہزیب صدیقی/حصہ اول

یہ داستان اتنی مختصر بھی نہیں، اس کہانی کو سمجھنے کےلئے ہمیں 14ارب سال کا انتھک سفر کرنا پڑے گا۔کہتے ہیں کہ آج سے 14 ارب سال پہلے کچھ نہیں تھا، یہ ستارے، یہ سیارے، یہ چاند، یہ سورج، ہمارے جسم میں موجود ایٹمز حتیٰ کہ کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن پھر اچانک سے کوانٹم سطح پہ بننے والی fluctuations کو کسی inflaton نامی ذرے نے ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے میں اس قدر پھیلا دیا کہ یہ fluctuationsواپس عدم میں لوٹ نہ سکیں، بس یہی آغازِ داستان ہے، یہی ہمارے یہاں ہونے کی وجہ بھی۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کیا تھا؟ سائنس یہ بتانے سے قاصر ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی واقعے کو جاننے کےلئے ہمیں وقت کی domain میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے، جہاں وقت نہیں ہوگا وہاں ہم کچھ بھی جاننے سے قاصر رہیں گے، لہٰذا جب وقت کا آغاز ہی 14 ارب سال پہلے ہوا تو اس سے پہلے کیا تھا، اس کا جواب سائنس سے مانگنا دانشمندی ہرگز نہیں۔۔۔۔ دُور دَراز کائناتی مُحلوں میں جھانک کر کائناتی ساخت معلوم کرنے کے بعد ہمیں اندازہ ہوا کہ بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے اربویں حصے میں کائنات روشنی سے لاکھوں گنا تیز رفتاری سے پھیلی،اس قلیل وقت کو ہم inflation eraبھی کہتے ہیں، یہ بھی کیوں ہوا؟ ہمیں نہیں معلوم۔۔۔۔ لیکن کائناتی ہئیت بتاتی ہے کہ ایسا ہوا ہے، بعد میں کی جانے والی کمپیوٹرsimulations بھی انفلیشن کے دور کی تصدیق کرتی ہیں۔۔۔۔ اندازہ ہے کہ بگ بینگ کے وقت ہماری کائنات کا درجہ حرارت اربوں کھربوں (10^32)ڈگری سینٹی گریڈ تھا لیکن اتنے یکدم پھیلاؤ کے باعث یہ درجہ حرارت ایک سیکنڈ بعد اچانک گر کرایک ارب (10^10)ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا اُس وقت ہماری کائنات کا سائز تقریباً ملکی وے جتنا بڑا ہوچکا تھا، اس سے پہلے کائنات کافی ہیجانی کیفیت میں تھی ، اب آکر کائنات اس حد تک ٹھنڈی ہوگئی تھی کہ subatomic particles بن سکیں،لہٰذا کوراکس اور لیپٹانز کے ذریعے نیوٹران، پروٹان، الیکٹران، اینٹی الیکٹران، فوٹانز اور نیوٹرینوز نے جنم لیا۔اس کے تقریباً 3 منٹ بعد کائنات کا درجہ حرارت جب مزید کم ہوا تو انہی الیکٹرانز، پروٹانز اور نیوٹرانز نے پہلے عنصر یعنی ہائیڈروجن کو جنم دیا ، جس کے کچھ وقت بعد ہیلئیم اور لیتھیم کے بھی عناصر وجود میں آئے،آج کائنات میں پھیلی ہائیڈروجن اور ہیلئیم کی تعداد دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تناسب کے لحاظ سے اُس نومولود کائنات میں 75فیصد ہائیڈروجن اور 25 فیصد ہیلئیم موجود تھی۔۔۔۔ آگے تقریباً 3 لاکھ 80 ہزار سال تک کائنات بھر میں ہائیڈروجن اور ہیلئیم بننے کا عمل جاری رہا،اس دوران کائنات آہستہ رفتار سے پھیلتی بھی رہی جس وجہ سے کائنات کا درجہ حرارت 4 ہزار ڈگری سینٹی گریڈ تک آچکا تھا، اب جا کر ہائیڈروجن ایٹم stable ہونا شروع ہوگئے ،ہائیڈورجن اور ہیلئیم کے گہرے بادل چھٹنا شروع ہوگئے اور فوٹانز یعنی روشنی کی کرنوں کو کائنات میں پھیلنے کا موقع ملا جنہوں نے کائنات کو روشن کردیا۔۔۔۔۔۔ آج ہم اُن روشنی کی کرنو ں کو انتہائی حساس آلات سے detect کرسکتے ہیں، جب کبھی آپ کا ریڈیو یا ٹی وی خراب ہوتا ہے تو آپ کو جو شور سنائی دیتا ہےوہ انہی روشنیوں (ریڈیشنز) کا ہے، جو پوری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں، اِنہیں بگ بینگ کی گونج بھی کہاجاتا ہے اور یہ Cosmic Microwave Background Radiationsبگ بینگ واقعے کا واضح ثبوت بھی ہیں۔۔۔۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ بگ بینگ کے 20 کروڑ سال بعد کائنات اس حد تک مستحکم اور ٹھنڈی ہوچکی تھی کہ جگہ جگہ ہائیڈروجن کے بادل موجود تھے، جہاں ہائیڈروجن کے ایٹمز نے اکٹھا ہونا شروع کیا، یوں کائنات میں پہلا ستارہ وجود میں آیا، اور اس نے نئے عہد کی نوید سنائی،اگلے کروڑوں سال تک ستارے بننے کا یہ سلسلہ جاری رہا، ہماری کہکشاں ملکی وے میں بھی وہ ستارہ مل چکا ہے جو بگ بینگ کے 30 کروڑ سال بعد بنا تھا، یہ ستارہ کائنات کے اولین ستاروں میں سے ایک تھا۔۔۔ چونکہ اب تک سب سے پُرانا بلیک ہول 13 ارب نوری سال کے فاصلے پہ ملا ہے جس کے باعث ہم کہہ سکتے ہیں، بگ بینگ کے 65کروڑ سال بعد کائنات میں ستارے جہاں بن رہے تھے وہیں کائنات کا آغاز کرنے والے ستارے اپنی طبعی عمر پوری کرکے مر بھی رہے تھے۔۔۔۔ جب کوئی ستارہ اپنی طبعی عمر پوری کرکے مرنے لگتا ہے تو اس میں نیوکلئیر فیوژن کے باعث ہائیڈروجن اور ہیلئیم دیگر بھاری عناصر میں تبدیل ہوجاتی ہیں (مثلاً کاربن، آکسیجن، نائٹروجن، سیلیکون، آئرن وغیرہ)، جب کبھی کسی ستارے میں یہ عناصر پیدا ہونا شروع ہوجائیں تو اُس ستارے کی موت قریب ہی ہوتی ہے۔۔۔۔ لہٰذا جب بگ بینگ کے65کروڑ سال بعد ستارے مرنے سے پہلے supernova کے ذریعے پھٹے تو یہ بھاری عناصر کائنات میں پھیلنا شروع ہوگئے،آج آپ کے جسم میں ، ہوا میں ، پانی میں الغرض زمین پہ موجود تمام ایٹمز اربوں سال پہلے کسی ستارے کے مرنے کے دوران بنے تھے۔۔۔۔ بہرحال بڑے ستاروں کے پھٹنے سے بلیک ہولز وجود میں آئے اور جن سے کہکشائیں بنیں۔۔۔۔ وقت گزرتا رہا، کائنات پھیلتی رہی، نئے ستارے بنتے رہے، پُرانے مٹتے رہے۔۔۔۔ بگ بینگ کے تقریباً 9 ارب سال بعد کسی کہکشاں کے نُکڑپہ ایک گرد کابادل (Nebula)موجود تھا، نیبولا وہ گرد کے بادل ہوتے ہیں جن میں نئے ستارے جنم لیتے ہیں۔۔۔۔ اُس گرد کے بادل (Solar Nebula)کے آس پاس کچھ ستارے مرنے سے پہلے سپرنووا ہوکر پھٹے، اِن ستاروں کے پھٹنے سے شدید قسم کی shockwave پیدا ہوئیں جنہوں نے اُس گرد کے بادل میں ہلچل مچا دی اور ذرات کو ایک دوسرے کے نزدیک آنے کا موقع ملا، یہی وہ لمحہ تھا جب ایٹمز آہستہ آہستہ اکٹھے ہونا شروع ہوئے، اس گرد کے بادل میں جس مقام پہ زیادہ ایٹمز اکٹھے ہوگئے تھے وہ علاقہ dense ہوگیا لہٰذا دیگر علاقوں سے ایٹم اس کا رخ کرنے لگے(یعنی gravitational collapse کا عمل شروع ہوگیا)، وقت کے ساتھ ساتھ اُس مقام پہ کشش ثقل اس قدر شدید ہوگئی کہ گرد کے بادل میں موجود تمام ذرات اس مقام کے گرد چکر لگانا شروع ہوگئے۔۔۔۔ تقریباً 5 کروڑ سال تک یہ سلسلہ جاری رہا اور اُس مقام پہ اس قدر مادہ اکٹھا ہوگیا کہ نیوکلئیر فیوژن ریکشن شروع ہوگیا،یوں بگ بینگ کے 9۔5 ارب سال بعد ہمارا سورج وجود میں آچکا تھا۔۔۔۔ سورج کے گِرد موجود گَرد کے بادل ایک flat diskکی شکل میں چکر لگانا شروع ہوگئے، جسے ہم accretion disk یا protoplanetary diskبھی کہتے ہیں،اس ڈسک میں وہ دھاتیں بھی موجود تھیں جو دیگر ستاروں کے پھٹنے کی وجہ سے یہاں تک پہنچی تھیں، سورج کے قریب چونکہ درجہ حرارت کافی زیادہ تھا جس وجہ سے دھاتوں کے علاوہ دیگر عناصر گیسی شکل میں ہی موجود رہے، انہی گیسوں کو سورج کی ریڈیشنز نے دھکا دے کر پَرے دھکیل دیا اور یہ سب مشتری اور اس سے آگے والے سیاروں کے مدار میں اکٹھی ہوگئیں، سورج کے نزدیک رہ جانے والی دھاتوں کے ذرات نے اکٹھے ہونا شروع کردیا اور یوں گِرداربوں کی تعداد میں چھوٹے پتھر(شہابیے) بننا شروع ہوگئے، اگلے لاکھوں سال تک سورج کے نزدیکی حصے میں شدید جنگ اور گھمسان کا رَن پڑا رہا ، اربوں شہابیے مختلف رفتار اور مختلف زاویوں میں سورج کے گرد گردش کررہے تھے جس وجہ سے اِن کا آپس میں شدید ٹکراؤ ہورہا تھا، سورج کے بننے کے تقریباً 10 کروڑ سال بعد مطلع تھوڑا شفاف ہونا شروع ہوگیا کیونکہ اُنہی اربوں شہابیوں سے ملکر اب چار دیوہیکل سیارے بن چکے تھے (عطارد، زہرہ، زمین، مریخ)،کوئی بھی بچا کُچا پتھر جو ان کے راستے میں آرہا تھا یہ اس کو ہڑپ کرکے مزید بڑے ہوتے جارہے تھے۔۔۔۔۔ یاد رہے کہ جس دوران سورج کے نزدیکی علاقے میں یہ طوفانی کیفیت چل رہی تھی، اسی دوران سورج سے دُور بھی یہی مناظر چل رہے تھے وہاں بھی چار سیارے وجود میں آچکے تھے (مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون) مگر یہاں معاملہ تھوڑا سا مختلف تھا،جن گیسز کو سورج کی ریڈیشنز نے پَرے دھکیلا تھا ، اِن سیاروں نے اُن گیسز کو بھی اپنی جانب کھینچنا شروع کردیا یوں یہ چاروں سیارے نظام شمسی کے سب سے بڑے اور شدید کشش ثقل والے سیارے بن گئے ، آج بھی ان کے گرد گیسز کا بہت ہی dense غلاف موجود ہے، جبکہ شدید دباؤ کے باعث ان کا core ٹھوس کی بجائے مائع گیسز پہ مشتمل ہے۔ نظام شمسی کے بنتے وقت ہماری زمین اور سیارہ زہرہ بالکل ہمشکل سیارے تھے، کیونکہ اِن دونوں کا سائزاور کشش ثقل ایک جیسی ہے، لیکن پھر ایسا کیا بھیانک واقعہ رُونما ہوا جنہوں نے اِن دونوں سیاروں کی راہیں جُدا کردیں۔۔۔۔؟ ایسا کیا ہوا جس کی وجہ سے آج زمین زندگی سے بھرپور سیارہ بن چکا ہےجبکہ زُہرہ جہنم کی مانند تباہ کن۔۔۔۔؟ اگلے حصے میں ہم اس متعلق تفصیلی بحث کریں گے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply