تخلص داغ ہے اورعاشقوں کے دل میں رہتے ہیں ۔ اویس قرنی

مرزا غالب کے بردارِ نسبتی اور ریاست فیروزپورجھرکہ کے حکمران نواب شمس الدین احمد خان کی آف شور کمپنیاں تو نہیں تھیں. مگر دولت کی حرص اس قدر تھی کہ غالب کی ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ آمدنی والی جاگیر کی پنشن پانچ ہزار سالانہ دیتے تھے. جبکہ اصل شقہ میں یہ رقم دس ہزار سالانہ درج تھی.

نواب احمد بخش خان اپنی زندگی میں ہی فیروزپور کی ریاست نواب شمس اور لوہارو دونوں چھوٹے بیٹوں کو دے گئے تھے. نواب شمس نے جیسے غالب کی جاگیر ہڑپ کی تھی. اسی طرح باپ کی وفات کے بعد چھوٹے بھائیوں کی جاگیر بھی ہڑپنے کیلئے دعویٰ دائر کیا کہ جاگیر میرے حوالے کی جائے. میں چھوٹے بھائیوں کو پنشن دوں گا. انگریزوں کے عدالتی کمیشن نے فیصلہ نواب شمس کے حق میں کیا. اور نواب شمس لوہارو کی کُل آمدنی پچیس ہزار ظاہر کرکے پندرہ ہزار انتظام کی مد میں رکھ کر دونوں بھائیوں کو پانچ پانچ ہزار سالانہ دینے لگے.

1832 میں دہلی کا نیا ریذیڈنٹ ولیم فریزر مقرر ہوا تو نواب صاحب نے حسبِ سابق اس سے بھی مک مکا والی دوستی گانٹھنا چاہی مگر وہ ذرا ایماندار قسم کا انگریز تھا. اور سونے پہ سہاگہ ادب پسند ہونے کے باعث مرزا غالب کا بہت گہرا دوست تھا. ادھر نواب شمس کے چھوٹے بھائی نواب ضیاءالدین خان غالب کے عزیز ترین شاگرد اور خلیفہ مجاز بھی تھے.
غالب نے اپنی اور اپنے شاگرد کی جاگیر کا مسئلہ ولیم فریزر کے سامنے رکھا تو اس نے کمپنی کو رپورٹ لکھ بھیجی کہ اگر جاگیر نواب شمس سے واپس لے لی جائے اور اس پر محنت کی جائے تو ساٹھ ہزار روپے سالانہ آمدنی ہو سکتی ہے. چھوٹے نوابوں نے کلکتہ میں مقدمہ دائر کیا اور فیصلہ ان کے حق میں ہوگیا.

کلکتہ سے عدالت کے فیصلے کی اطلاع ملتے ہی نواب شمس نے اپنے عسکری ونگ کے سربراہ + ٹارگٹ کلر کریم خان کو ولیم فریزر کے قتل کی سپاری دے دی. کریم خان 5 ماہ ریکی کرتا رہا. آَخر کار 22 مارچ 1835 کی رات ولیم فریزر کو گولی مار کر اس کا کام تمام کردیا اور فرار ہوگیا. لیکن جلد ہی گرفتار ہوا اور چھترول میں نواب کا نام بھی اگل دیا. 13 اپریل کو اسے پھانسی پہ لٹکا کر انگریزوں نے نواب شمس کی جاگیر ضبط کر لی اور مقدمہ چلا کر اکتوبر 1835 کو کشمیری دروازہ دہلی کے باہر پھانسی دے دی.

نواب صاحب خود تو دولت کی حرص میں ڈوبے ہی تھے. اپنے چار سال کے بچے کو یتیم اور بیگم کو بیوہ کر گئے. بیگم صاحبہ اپنے زمانے کی مس ورلڈ تھیں. اس لیے عدت گزرتے ہی بہادرشاہ ظفر کے ولی عہد مرزا فخرو نے ان سے نکاح کرلیا. بیگم صاحبہ اپنے کمسن فرزند “مرزا خاں” کے ساتھ لال قلعہ میں شفٹ ہوگئیں اور شوکت محل خطاب پایا.

قلعہ میں بچہ بچہ شاعری کا دلدادہ تھا. خود بادشاہ سلامت اور اکثر شہزادے استاد ذوق کے شاگرد تھے. اس ماحول میں مرزاخاں کو شاعری کا شوق ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی. مرزا فخرو نے انہیں استاد ذوق کی خدمت میں پیش کیا اور شاگردی میں لینے کی سفارش کی. شوکت محل کے حسن کے چرچے شہر بھر میں تھے اور مرزا فخرو بھی وجاہت میں کچھ کم نہ تھے. اس لیے اس کالے کلوٹے چیچک زدہ بچے کو دیکھ کر استاد ذوق نے ازراہِ مذاق مرزا فخرو سے کہا:- “میاں فخرو یہ تو آپ پر داغ ہے.” مرزا خاں کو یہ مذاق ایسا پسند آیا کہ تخلص “داغ” اختیار کیا اور شاعری کے میدان میں خوب پر پُرزے نکالے. لڑکپن میں ہی اتنے مقبول ہو گئے کہ شہر میں ان کی غزلیں گائی جانے لگیں.

1856 میں مرزا فخرو وفات پاگئے مربی باپ کا مرنا کیا کم تھا کہ اگلے سال یعنی 1857 میں ہندوستانی بغاوت پر اتر آئے. اور قلعہ کے سبھی باسیوں کی طرح داغ کو بھی دلی سے ہجرت کرنا پڑی اور چند سال ادھر ادھر بے مدعا پھرتے رہے. بالاخر 1866 میں خاندان سمیت یوپی کی مسلم ریاست رام پور میں ملازم ہو گئے.

ریاست رام پور کے نواب کلب علی خان مرزا غالب کے شاگرد تھے. اور انہوں نے 1857 کی جنگِ آزادی سے دربدر ہونے والے بہت سے اہلِ کمال کو پناہ اور فراغت مہیا کی. دلی اور لکھنؤ کے اجڑنے کے بعد رام پور ہندوستان کا ادبی مرکز بن گیا تھا. داغ وہاں داروغہ اصطبل مقرر ہوئے. اور اپنی عمر کے 24 سال نہایت عزت و آبرو اور عیش و آرام سے گزارے. رامپور میں ان کو اس قدر آرام تھا کہ اس کو “آرام پور” کہتے تھے. نواب کی ہمراہی میں حج و زیارات کا بھی موقع ملا. قیامِ رامپور کا یہ زمانہ داغ کی شاعری کا بہترین دور ہے.

نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد رام پور کا ادبی مرکز بھی اجڑ گیا اور داغ ایک مرتبہ پھر دربدر ہوگئے. دلی اور لکھنؤ سے ہوتے ہوئے کلکتہ پہنچے. جہاں ان کی بہت قدر ہوئی. کلکتہ میں تین چار ماہ قیام کے بعد حیدرآباد کا قصد کیا. راستے میں جے پور , امرتسر , لاہور , علی گڑھ , منگرول , متھرا میں کچھ دن قیام کرتے ہوئے گئے. ان سب مقامات پر بیسیوں شاگرد ہوئے. بالاخر ہندوستان میں اس وقت کی سب سے بڑی ریاست حیدرآباد دکن جا پہنچے اور میر محبوب علی خان کے استاد مقرر ہوئے. انعام و اکرام کے علاوہ “بلبلِ ہندوستان ناظم یارجنگ , دبیرالدولہ فصیح الملک” کا خطاب پایا. پہلے ساڑھے چار سو روپیہ ماہوار تنخواہ مقرر ہوئی جو چند روز بعد ایک ہزار ماہانہ اور جلد ہی 1500 روپے ماہانہ ہوگئی. یہ ایک شاعر کو اس زمانے کی سب سے زیادہ ماہوار تنخواہ تھی.

حیدرآباد میں تقریباً 18 سال زندگی گزاری. یہ داغ کی ترقی کے عروج کا زمانہ تھا. آسودگی اور امارت کے علاوہ ان کی شہرت اور مقبولیت پورے برصغیر میں پھیل گئی. ہزاروں کی تعداد میں شاگرد بنے. جن میں سے سر علامہ محمد اقبال , جگر مراد آبادی اور نوح ناروی جیسے مشہور شعرا بھی ہیں. آخر یہ خوش نصیب اور اردو شاعری کے مقبول ترین استاد 1905ء کو فالج کے عارضے میں وفات پاگئے. اور حیدرآباد میں دفن ہوئے.

چار دیوان (1) گلزارِ داغ (2)آفتابِ داغ (3) مہتابِ داغ (4) یادگارِ داغ اپنی یادگار چھوڑے. ان کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو.

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

آرزوئے وصال کرتے ہو
یار تم بھی کمال کرتے ہو

یہ کیا کہا کہ میری بلا بھی نہ آئے گی
کیا تم نہ آؤ گے تو قضا بھی نہ آئے گی

دی شبِ وصل مؤذن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا

غزل

بلا سے جو دشمن ہوا ہے کسی کا
وہ کافر صنم کیا خدا ہے کسی کا
ادھر آ کلیجے سے تجھ کو لگا لوں
تجھی پر تو دل آ گیا ہے کسی کا
ذرا ڈال دو اپنی زلفوں کا سایہ
مقدر بہت نارسا ہے کسی کا
مری بزم میں آ کے وہ پوچھتے ہیں
بُرا حال ہم نے سنا ہے کسی کا
ستم ہی کیے جاؤ ہم بھی حاضر ہیں
ہمیں حوصلہ دیکھنا ہے کسی کا
مری التجا پر بگڑا کہ وہ بولے
نہیں مانتے اس میں کیاہے کسی کا
سنا کرتے ہیں چھیڑ کر ہم گالیاں
وگرنہ کوئی سرپھرا ہے کسی کا
بظاہر نہ جانے , نہ جانے , نہ جانے
تجھے داغ دل جانتا ہے کسی کا

غزل

غیر کو منہ لگا کے دیکھ لیا
جھوٹ سچ آزما کے دیکھ لیا
ان کے گھر داغ جا کے دیکھ لیا
دل کے کہنے میں آ کے دیکھ لیا
ان کو خلوت سرا میں بےپردہ
صاف میدان پا کے دیکھ لیا
ادھر آئینہ ہے ادھر دل ہے
جس کو چاہا اٹھا کے دیکھ لیا
داغ نے خوب عاشقی کا مزہ
جل کے دیکھا جلا کے دیکھ لیا

غزل

جب جوانی کا مزہ جاتا رہا
زندگانی کا مزہ جاتا رہا
وہ قسم کھاتے ہیں اب ہر بات پر
بدگمانی کا مزہ جاتا رہا
خواب میں تیری تجلی دیکھ لی
لن ترانی کا مزہ جاتا رہا
درد نے اٹھ کر اٹھایا بزم سے
ناتوانی کا مزہ جاتا رہا
آپ وہ اپنے نگہبان بن گئے
پاسبانی کا مزہ جاتا رہا
دوسرا پورا پڑا قاتل کا ہاتھ
سخت جانی کا مزہ جاتا رہا
نامہ بر نے طے کیے سارے پیام
منہ زبانی کا مزہ جاتا رہا
کوئی دن کی ہوا کھاتے ہیں ہم
دانے پانی کا مزہ جاتا رہا

معلقاتِ جوگی

Advertisements
julia rana solicitors

(اویس قرنی کا ادب سے شغف اور اس پہ تحاریر قابل رشک ہیں۔ یہ وہ جوہر ہے جو کئی نقاد کو تمام عمر حاصل نہیں ہوتا۔ آپ “مکالمہ” کیلیے باقاعدہ ادبی تحاریر لکھیں گے۔)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 5 تبصرے برائے تحریر ”تخلص داغ ہے اورعاشقوں کے دل میں رہتے ہیں ۔ اویس قرنی

  1. بہت خوبصورت تحریر.
    ستم ہی کئے جاو ہم بھی حاظر ہیں.
    میری التجا پر بگڑا کہ وہ بولے.
    سنا کرتے ہیں چھیڑ کر ہم گالیاں.
    مندرجہ بالا مصرعے وزن کھو رہے ہیں. کیا یہ ایڈیٹنگ کی غلطی ہے

Leave a Reply to ہمایون خان Cancel reply