عینی آپا،کچھ یادیں ،کچھ باتیں ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

نومبر انیس سو چھہتر, بمبئی. عینی آپا سے پہلی ملاقات ان کے رسالے Imprint کے دفتر میں ہوئی. میں اپنے ہم زلف کے گھر سے (جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا)

تین بسیں بدل بدل کر بمشکل تمام پہنچا۔مجھے عینی آپا سے “ٹریبیون “چندی گڑھ کے لئے ان کےناول “آخر شب کے ہمسفر “پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملنے پر, انٹرویو لینا تھا۔ اور اس کے لیے انہوں نے مجھے ورکنگ لنچ پر ہی اپنے دفتر میں دعوت دی تھی۔ مجھے پہلی نظر میں وہ بے حد حسین اور sexy لگیں۔( تب تک انہیں آپا کہنے کا رواج ابھی “روش عام “نہیں ہوا تھا۔)کشادہ پیشانی لیکن آنکھوں تک پہنچتے پہنچتے ذرا سی خمیدہ ،تلوار کی سی کاٹ رکھتی ہوئی تیز زبان، باڈی لینگویج میں آنکھوں بھنوؤں اور پیشانی کے اتار چڑھاؤ ،لبوں کی سکڑن یا پھیلاؤ، ہاتھوں کی مضطرب حرکت،۔۔۔ میری گستاخ نظروں نے ان کے متناسب جسم کو ایک مرد کی آنکھوں سے دیکھا۔ “آپ ملک راج آنند کے کچھ لگتے ہیں؟”۔۔۔یکلخت یہ سوال پوچھ کر انہوں نے میری گستاخ نظروں کو جیسے وہیں روک دیا اور تب مجھے احساس ہوا کہ مجھ جیسے” دل پھینک” لوگوں کو ایک ہی سوال سے بوکھلا دینے کا فن انہیں آتا ہے۔”جی نہیں, لیکن میں انہیں ملک چچا کہہ کر بلاتا ہوں۔ ویسے بھی ہماری یونیورسٹی میں ٹیگور پروفیسر کے طور پر ان کے آنے کے بعد مجھ جیسے نوجوان ہی ملک ہی بلاتے ہیں”۔ پھر ان کے استفسار پر کہ مجھے ان سے کیا پوچھنا ہے, میں نے درجنوں سوال کیے ,لیکن بقول ان کے, ہر سوال گھوم پھر کر ایک ہی زمرے میں آجاتا تھا کہ ورجینیا وولف اور جیمز جوائس کے طرز تحریر میں لکھے ہوئے ان کے ناول کیا اردو ادب پر ایک مغربی پیوند کاری نہیں ہے”؟ اور ان کا جواب ہر بار ایسے ہی کانٹوں سے بھرا ہوا تھا جیسے کہ وہ مجھے یہ سمجھانے کا جتن کر رہی ہیں کہ” اے انگریزی کے پروفیسر, خدا کے لئے یہ بات سمجھ کہ  اسلوب ایک طرف اور موضوع مضمون اور متن دوسری طرف, کیا ایک ناولسٹ کو ان دو چیزوں کو الگ الگ نہ رکھ کر صرف یہ یقینی نہیں بنایا جا  سکتا کہ اس کا طرز تحریر ایسا ہو کہ اسے ایک کے لیے دوسرے کی قربانی نہ دینی پڑے لیکن اردو کا قاری تو کیا, ایک دو کو چھوڑ کر اردو کا نقاد بھی اس سے آگاہ نہیں ہے۔ “آگ کا دریا” کو عینی آپا کا magnum opus کیوں سمجھا جاتا ہے ،اس کا علم مجھے اس انٹرویو کے وقت ہی ہوا۔عینی نے کئی سوالوں کا جواب جھلا کر مجھے دیا لیکن بات میری سمجھ میں آگئی۔”آگ کا دریا” زمانوں بلکہ قرنوں پر محیط ہے۔ یہ تاریخ اور وقت کو برصغیر کے جغرافیہ سے منسلک کرتا ہوا ایک ایسا”fictional testament”ہےجو چوتھی صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے اور آزادی کے بعد یعنی ہندوستان اور پاکستان کے دو الگ الگ ملکوں کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے وقت تک آگے بڑھتا ہے۔زمان اور مکان کے اس پھیلاؤ کو سمیٹنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ ناولسٹ صدیوں پر محیط اس سفر کے راستوں پر آزادی کے ساتھ گھوم پھر سکے، آس پاس کی پگڈنڈیوں پر گامزن ہو، پیچھے مڑ کر دیکھے اور پھر اپنی کہانی کو سمیٹتا ہوا آگے بڑھ جائے۔ مجھے عینی آپا کا ایک جملہ آج تک نہیں بھولتا،” کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ کچھ لوگ آج بھی ہندوستان کی تاریخ کو میر قاسم کے سندھ پر حملے سے شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس سے پہلے کی تاریخ اور جاہلیت کی تاریخ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کا جملہ انگریزی میں تھا لیکن جب میں نے کہا کہ تاریخ ایک تسلسل ہے تو انہوں نے پھر کہا۔ Yes ,it is a continuum and the sooner we know this truth,the better it would be for all of us, and damn it,my novel encompasses four thousand years۔ آج جب میں باز آفرینی کے طور پر اس انٹرویو کو یاد کرتا ہوں تو مجھے عینی آپا کی بات یاد آتی ہے۔ میرے انگریزی کے پروفیسر ہونے کی وجہ سے یا میری ذہنی تربیت کو صیقل کرنے کے لیے انہوں نے ایک انگریزی نقاد کا جملہ دہرایا تھا۔ اس نقاد نے ورجینیا وولف اور جیمز جوائس کی شعوری رو کے بارے میں اور وقت کی رفتار کے نامنقسم ریلے کے آگے یا پیچھے ہٹنے کے بارے میں کہا تھا۔ You can stand still in time and move back and forth in space or stand still in space and move back and forth in time۔

بعینہ یہی فارمولا عینی آپا کے ناولوں پر  مطلق ہوتا ہے۔ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ نے اس کتاب کے انگریزی ترجمے River of fireپر تبصرے میں ایک ناقابلِ فراموش جملہ لکھا تھا ،جسے میں یہاں درج کررہا ہوں ،
River of Fire”is to urdu fiction what”A Hundred years of Solitude “is to Hispanic literature۔
یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ عالمی سطح پر عینی آپا کی وہی حیثیت ہے جو میلان کنڈیرا یا گارشیا کیبرئیل کی ہے۔”چھٹ بھئیے عینی آپا کی گرد کو بھی نہیں پہنچتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت بڑا جھمگھٹا تھا۔ کم از کم ایک سو سے اوپر لوگ تھے۔واشنگٹن ڈی سی امریکہ کے میرئ لینڈ کے نواحی بلدیاتی علاقے میں ڈاکٹر عطیہ کا گھر ایسا گھر نہیں تھا جسے صرف گھرکہا جائے۔یہ ایک بنگلہ نما محل تھا،بڑے کمرے میں،عین سامنے دیوار پر کوئی تین فٹ سائز میں ایک تصویر تھی،جس میں فیض احمد فیض اور احمد    فراز یک جان دو قالب والے محاورے کی زندہ مثال بنے بیٹھے ہوئے تھے۔ڈاکٹڑ عطیہ کے نفیس ذوق ا ور شاعر نوازی کی ایک مثال ،لیکن مجھ جیسے بت شکن محمود غزنوی کے لیے کوئی بھی سومنات ہو، میرا تیشہ ہمیشہ میرے ہاتھ میں رہتا تھا۔اس لیے جونہی ذرا سی مہلت ملی، سامنے صوفے پر بیٹھی ہوئی عینی آپا سے میں نے کہا”وہ تصویردیکھی ہے آپ نے”۔۔۔۔۔ مسکرائیں ،زیرِ لب۔۔۔۔ایک خمیدہ تبسم۔بولیں “تم کہیں بخشو گے بھی ان دونوں کو”۔۔۔
میں نے کہا”نہیں آپا،مجھے تو ساقی فاروقی کی ایک بات یاد آگئی”۔۔۔۔اس نے دونوں کو لندن میں اپنے  گھر میں اکٹھے بیٹھے دیکھ کر کہا تھا ،اب تم دونوں جڑواں تو لگتے نہیں ،لیکن فراز تم سے اتنا کم عمر ہوتا ہوا بھی تمہارا نقال،جسے تم پنجابی میں نقلچی کہتے ہو،اس حد تک ہے کہ اگر تم اپنی کسی نظم یا غزل میں ایک بار جاناں’لکھو گے تو یہ تمہارے تبّع میں ،لیکن تم سے بازی مار جانے کے لیے ،دو بار جاناں ‘ جاناں ‘ لکھے گا”۔۔۔
تم تو وہاں موجود نہیں تھے،تم نے کہاں سے سنی یہ بات؟۔۔۔عینی میں موقع واردات پر موجود نامہ نگار کی روح حلول کرآئی۔۔۔
آپا،خفا مت ہوں مجھ سے۔۔ ساقی نے ہی مجھے بتائی تھی۔اور اس سے بیشتر کہ وہ کچھ اور کہہ سکیں ،میں نے ایک اور لقمہ دیا تھا۔۔”ساقی نے فیض کو یہ بھی کہا تھا کہ ۔اس کا سگریٹ کی راکھ جھاڑنے کا انداز تمہاری نقل ہے۔اس طرح یہ فیض تو بننے سے رہا،فراز بننے کا نصب العین بھی کھو بیٹھے گا۔
بخش دو دونوں کو اب۔۔۔آپا نے حکم دیا ،کوئی اور بات کرو۔۔۔۔۔لیکن غزل کی مخالفت کی بات نہیں ۔پاس بیٹھے ہوئے کئی احباب (صغرا مہدی بھی اتفاقاً موجود تھیں )۔۔۔مسکرائے تھے ۔کیونکہ اب چھپنے کی میری باری تھی۔(سین۔میری لینڈ۔امریکہ۔ڈاکٹر عطیہ کا دولت کدہ۔1998)

چار پانچ برس بڑا ہونا تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔عینی آپا نے کہا تھا۔ اور پھر جب ہماری عمر ستر سے بڑھنے لگتی ہے تو چار پانچ تو کیا ،گیارہ بارہ بھی کسی گنتی میں نہیں آتے۔اور پھر وہ محاورہ بھی تو ہے “عمر بہ عقل است نہ بہ سال”۔۔۔۔پھر فوراً ہی تصحیح کردی۔۔عقل نہیں ،بزرگی،ہے یہاں ،لیکن دونوں کا مطلب تو ایک ہی ہے۔
میں نے کہیں غلطی سے یا جلدی یہ کہہ دیا تھا کہ میں ان سے چار پانچ برس چھوٹا ہوں ،
لیکن عینی آپا بخشنے والی نہیں تھیں ،اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ تم مجھ سے زیادہ عقلمند ہو۔۔۔اور پھر اسی سانس میں بولتی چلی گئیں ،اب خشونت مجھ سے کافی سینئر ہے لیکن میں نے کبھی اسے “تُو” کہہ کرنہیں مخاطب کیا۔پھر جیسے ایک خیال کی پیٹھ پر دوسرے کو لادتے ہوئے بولیں ۔۔۔لیکن خشونت سنگھ سے بات ہمیشہ انگریزی میں you is you,whether for one,or for two,or for all present۔
ایک لمحہ توقف کیا اور پھر مزید ایک پھلجھڑی میری طرف پھینکی ،یہ سمجھنا کہ صرف تم ہی انگلش کے پروفیسر ہو اورph.dہو اور اس کی grammarسے واقف ہو،بزرگی اور عقل اور عمر والے محاورے کے سلسلے میں مجھے بھی خوف رہا،کہ اگر تصحیح در تصحیح کروں تو برا نہ مان جائیں ،برا تو خیر نہیں مانتی تھیں لیکن موڈ بدل لیتی تھیں ۔
فون کی گھنٹی بجی۔۔۔۔دوسری طرف صغرا مہدی تھیں ۔۔چونگے پر ہاتھ رکھ کر بولیں اب لمبی بات چیت ہوگی،تم اپنے لیے ایک کپ چائے اور بنالو،میرے لیے مت بنانا۔
(سین۔ٹوئڈ ،ان کا اپارٹمنٹ ۔1991)

جن لوگوں نے”آگ کا دریا “اور اس کے بعد کے تین ناول پڑھے ہیں ،وہ مجھ سے اتفاق ریں گے کہ جہاں کئی حالتوں می ں”آگ کا دریا” عام قااری کے لیے ناقابلِ عبور ہوجاتا ہے ،وہاں “آخریِ شب کے ہمسفر” ،”گردشِ چمن “اور “آخری ناول “چاندنی بیگم” کا پڑھنا نسبتاً آسان ہے۔یہ شاید ایک لاشعوری عمل تھا، جس کے تحت انہیں اپنی تحریر میں عام فہم ،روزمرہ کی زبان کا استعمال (جو پہلے کم کم تھا) لے آنے کی ضرورت پیش آئی،امریکہ میں ہوئی بات چیت کے دوران میں تو ڈاکٹر عطیہ کے گھر میں درجنوں اشخاص ہمارے آس پاس موجود صوفوں پر بیٹھے تھے،اور وہاں سنجیدگی سے بات چیت ہو ہی نہیں سکتی تھی،خاص کر طر پر جب انہوں نے شروع سے ہی میرے ساتھ ایک تحکمانہ لہجہ اختیار کرلیا تھا.)اور میں نے اسے معصومیت سے قبول کرلیا تھا( ۔لیکن اب ان کے اپارٹمنٹ میں صرف ہم دونوں تھے۔۔۔اس لیے اپنے گستاخ لہجے میں یہ پوچھنے میں کچھ برا نہیں لگا کہ کیا وجہ ہے کہ “آگ کا دریا” کے ٹائٹل میں کوئی اضافت نہیں تھی۔۔۔یعنی اسے دریائے آتش یا جوئے آتش نہیں کہا جاسکتا تھا۔لیکن بعد کے ناولوں میں اضافتیں موجود تھیں ۔”آخر شب کے ماسفر” میں ایک اضافت ہے۔جب کہ “گردِشِ رنگ چمن “ میں دو ہیں ۔۔۔۔حیران سی رہ گئی تھیں عینی آپا،کہنے لگیں میں نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا تھا۔لیکن تم پروفیسر لوگ مین میخ نکالتے رہتے ہو۔۔۔اور تب میں نے وہ بات کہی جو میں بہت پہلے سے کہنا چاہتا تھا۔۔۔۔”برعکس اس کے ،ان کے ناولوں کے اسلوب کا ورزمرہ سے انسلاک ایک قدرتی بہاؤ کی طرح ہے “۔جو “آگ کے دریا “میں نہیں تھا۔
یعنی آپ کو لاشعوری طور پر ہی سہی یہ احساس ضرور ہوا ہے کہ ان ناولوں کے پڑھنے والے اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں اور وہ چاہے وقت اور فاصلے کی قلابازیوں کو برداشت کرلیں ،زبان کے سلسلے میں ناول نگارسے کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔
بہت بڑی بات کہہ گیا میں ۔۔وہ مسکرائی تھیں ،اور دیگر سننے والوں سے)بے نیاز نہیں بلکہ با نیاز(مجھے کہنے لگیں ۔۔تم اس پر ایک مضمون لکھو تو مجھے ایک نقل مجھے ضرور بھیجنا،اب چونکہ میں مختصر افسانے بہت کم لکھتی ہوں ،بلکہ لکھتی ہی نہیں ،اس لیے رسالے مجھ تک پہنچتے ،مجھے خوشی ہوگی۔
)سین ٹوئڈ،ان کا اپارٹمنٹ ،20000 عیسوی(
قراۃ العین حیدر،،یعنی عینی آپا کو انگریزی ہجوں میں Annie Apaبنا لیا گیا تھا۔اس لیے کہ انگریزی میں “A”doublسے الفاظ نہیں شروع ہوتے۔اور Annieلڑکیوں کا ایک عام نام ہے۔ایک معروف اہل قلم،سجاد حیدر یلدرم کی صاحبزادی ،بے نازو نعم میں پلی ہوئی،حسین و جمیل جاذبِ نظر ،متناسب خال و خد،جو انگریزی میں لکھتی تو اس کا نام اور کام عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا اور Booker prizeتو کیا ،شاید نوبل پرائز کی بھی حقدار مانی جاتی۔جب اردو یعنی”ایک نادار ملک کی نادار زبان “)فیض( کا پلو پکڑ کر یہ لڑکی جوان ہوتی تو یہ زبان شاعری میں تو نہیں لیکن فکشن کے تناظر میں ابھی ایامِ طفلی میں تھی۔یہ اس خاتون کی ہمت تھی کہ اس نے وہ راستہ اختیار کیا جو ترقی پسندی کا راستہ نہیں تھا۔”آخرِ شب کے ماسفر” اس کا منہ بولتا ثبوت ہے اور جسے ترقی پسند نقادوں نے سرمایہ دارانہ نظام کا camp followerکہہ کر مسترد کردیا تھا۔لکھنو کے isabella thorburn collage کا گریجویٹ ہونا خود میں ہی ایک بڑی بات تھی ،لیکن عینی آپا کی نظر تو دور اس افق پر اٹکی ہوئی تھی جسے اسے سر کرنا تھا،ہجرت کرکے پاکستان پہنشی ،کہ اس نئے ملک کو تو اس جیسے معماروں نے ہی تراش کر ایک نئے روپ میں سجانا تھا، لیکن مارشل لا کے بعد اور مقامی اہل قلم کا بدلتا ہوا وہ رجحان دیکھ کر جو ادب برائے اسلام کی طرف جھک گیا تھا،ہندوستان لوٹ آئی تھی۔یہاں آکر کھلی فضا میں سانس لیا۔imprintکی مدیر کے طور پر1962 سے 1967 تک کام کیا،پھر اپنی دلپسند ملازمت یعنی ہندو ویکلی انڈیا میں خشونت سنگھ کے ساتھ سات برسوں تک رہی۔وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر کئی یونیورسٹیوں ،اور شہروں ،مثلاً کیلی فورنیا ،شکاگو،وسکالسن اور ایریزونا میں تدریسی فرائض سرانجام دئیے۔جامعہ ملیہ اسلام ہ دہلی کی خان عبدالغفار خان چئیر کی پورفیسر امیریٹس professor emeritusرہی۔ناول لکھے افسانے لکھے ،لیکچر دئیے،سیمیناروں میں شرکت کی اور وہ سب کچھ کیا جو وہ کرنا چاہتی تھی۔،پاکستان میں رہ کر کیا کرتی؟ایک غیر شادی شدہ عورت اس معاشرے میں ایک فاضل پرزہ ہے،اور شک کی نظر سے بھی دیکھی جاتی ہے۔انعاموں اور ایوارڈوں کی ایک لمبی فہرست ہے میں پورے تو چیک نہیں کرپایا،مگر جو یاد آرہےہیں ،میں وہ لکھ رہا ہوں ۔ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ،بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ 1989 میں ان کے ناول”آخر شب کے مسافر”پر ملا تھا۔اس سے بہت پہلے اساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ 1967 میں مل چکا تھاسویزرلینڈ نہروایوارڈ 1969 میں دیا گیا۔1985 میں غالب ایوارڈ تفویض ہوا۔20105 میں سرکار ہند کی طرف سے پدم بھوشن دیا گیا۔کچھ برسوں بعد انہیں ،پدم بھوشن دیا گیا۔ جو ایک ہندوستانی شہری کے لیے تیسرے نمبر کا اعزاز ہے۔روپے تو ظاہر ہے استعمال میں لائے جاتے ہوں گے،مگر ان شیلڈوں اور plaquesکا آپ کرتی کیا ہیں ؟۔۔۔۔ میں نے پوچھا تھا۔
سجا کر رکھتی ہوں ۔۔۔۔تم ان کا کیا کرتے ہو؟۔۔۔۔ترکی بہ ترکی جواب تھا۔
عینی آپا نے ایک درجن ناول اور چار افسانوی مجموعے لکھے،بہت سا کام ایسا کیا جوترجمے کے زمرے میں آتا ہے۔1947 میں جب ان کی عمر صرف 22 برس کی تھی ،ان کا پہلا افسانوی مجموعہ”ستاروں سے آگے”چھپا تھا۔پھر اس کے بعد کتابوں کی فہرست  ہے۔”شیشے کے گھر” اور”میرے بھی صنم خانے” نے انہیں بام ِعروج پر پہنچایا۔”گردشِ رنگ چمن” میں ناول نگار نے سارے عالم کی مختلف النوع  تہذیبوں کو یکجا کرکے ایک jigsaw puzzle بنا کر پیش کیا ہے،اس ناول کی خوبصورتی یہ ہے کہ بغیر کسی نتیجے پر پہنچے یہ ناول ختم ہوبھی جاتا ہے اور نہیں بھی ہوتا۔ کیونکہ زندگی تو بہر حال کسی نقطہ ء اختتام تک پہنچ کر بھی ختم نہیں ہوتی۔

جو چار مختلف ناول  لکھے ان میں “سیتا ہرن”،”چائے کا باغ”،”دلربا”،”اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو”، شامل ہیں ۔مجھے ایک دوست نے بتایا تھا کہ ایک غیر رسمی بات چیت میں کسی داڑھی والے صاحب نے (مجھے نام کا علم ہے لیکن بہترہے کہ مخفی رہے) ان سے ایک بیہودہ سوال کیا تھا، سوال یہ تھا کہ “محترمہ آپ نے اس ناولٹ کے ٹائٹل میں اگلے جنم کی بات کی ہے تو کیا آپ ہندوؤں کے آواگون کے عقیدے میں یقین رکھتی ہیں۔
چشم دید گواہ کہتے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں شدید غصے کی ایک چمک آئی اور بدن کانپنے لگا پھر بسیار دقت سے انہوں نے خود پر کنٹرول کر لیا اور مسکرا کر بولیں ،”اگر میں اس عقیدے پر یقین رکھتی ہوں تو آپ میرے خلاف ایک فتویٰ صادر فرمادیں گے؟۔۔۔جب کھسیانا سا وہ شخص اٹھ گیا تو بولیں ۔۔خدا جانے کیسے کیسے لوگ بلوا لیے جاتے ہیں مجھ سے ملنے کو”۔۔۔
سیتا ہرن کے بارے میں ایک دلچسپ بات مجھے یاد آرہی ہے،یہ بات مجھے یاد نہیں ہے کہ کب ہوئی تھی، لیکن جب میں نے اس ناول میں سیتا کے علامتی معانی کے حوالے سے ان کی اجازت سے انہیں اپنی ایک مختصر نظم سنائی جس کا نفس مضمون یہ تھا کہ حیرت ہےرام،چند ر کے دربار میں اگنی پریکشا کے بعد جب سیتا نے دھرتی ماں سے فریاد کی اور زمین کا سینہ شق ہوگیا، اور وہ اس میں سما گئی،تو کیا ایک لمحے کے لیے رام نے کچھ سوچا بھی تھا کہ وہ )یعنی آکاش( اور سیتا)یعنی دھرتی( آپس میں کبھی مل بھی سکیں گے؟۔۔۔۔دولمحوں کے توقف کے بعد بولیں ۔”جب میری سیتا عرفان کو یہ پتا چلتا ہے کہ اس کے عرفان نے ایک گوری سے نار  منڈی میں شادی کرلی ،تو شاید اس نے بھی یہی سوچا ہوگا کہ کیوں کہ عرفان تو رام ہے اور دنیا میں ناریوں کی منڈیاں بہت ہیں ۔میں ہکا بکا رہا گیا تھا ،کیونکہ جغرافیائی نام نار منڈی کے علامتی معنی کی اہمیت پر کوئی غور نہیں کیا تھا اور عرفان کے لغوی حوالے کے ساتھ ساتھ اس لفظ کے  علامتی معنی کو بھی درگزر کرگیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہت کم لوگ ہنری  جیمز  کے ناولthe portrait of a lady”کے ترجمے ،”ہمیں چراغ،ہمیں پروانے” کا ذکر کرتے ہیں ،لیکن میں چونکہ ہنری جیمز کا نال ایم اے کے کورس میں پڑھاتا رہا ہوں ۔مجھے ان کے ترجمے کے ہنر کی بابت کچھ کہنا ہےشاعری کا ترجمہ تو لگ بھگ ناممکن ہے۔آپ لفظ بلفظ ترجمہ کریں تو شاعری کی روح عنقا ہوجائے گی۔اس لیے آپ کوtranscreateکرنا پڑتا ہے لیکن نثر کا ترجمہ ممکن ہے،بشرط یہ کہ آپ donor language اور recipient language دونوں میں مشاق ہوں ۔عینی آپا کے اس ترجمے کی خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ اس کے مکالمات میں استعمال کی گئی روزمرہ کی زبان یعنیjargonکا ترجمہ کرتی ہیں تو مجلہ اردو کے وہ الفاظ ڈھونڈ کر لاتی ہیں ،جو گھر یاہر،گلی محلے میں بولے تو بہت جاتے ییں لیکن اردو کے “ادبی ناولوں “ میں ان کا شاذ و نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply