صدارتی نظام اور اس کے سپورٹر۔۔۔۔عبدالحنان ارشد

جو بات ڈاکٹر عطاالرحمن بہت عرصہ سے کرتے آ رہے ہیں- ڈاکٹر عطا الرحمن کی اس نظام کو سپورٹ کرنے کی سمجھ بھی آتی ہے کہ ویسے تو انہیں کابینہ میں کوئی عہدہ نہیں مل سکتا شاید ایسے انہیں بھی کوئی عہدہ مل جائے۔ اب کچھ دنوں سے عمران خان کے قریبی حلقوں نے بھی صدارتی نظام کی خوبیوں اور اُس کے فضائل کی رنگا رنگ بولیاں عوام کے سامنے لگانی شروع کر دی ہیں ۔ معصوم عوام سے کچھ ان آوازوں پر آمناً  صدقناً  اس پر ایمان بھی لے آئے ہیں۔ لگی بولیوں میں کچھ اور نابغوں کی آوازیں بھی شامل ہو گئی ہیں، جو مل کر باجماعت عوام کو پارلیمانی نظام میں پائے جانے والے سقم اور صدارتی نظام کی خوبیوں سے آگاہ کر رہے ہیں۔ جن میں حمزہ علی عباسی، میر محمد علی خان پیش پیش ہیں۔ میر محمد علی خان مشرف کے انتخابی اور آئینی ریفارمز پر مشیر بھی رہ چکے ہیں۔ اور جن کے متلق ۲۰۱۷ میں سیکورٹی اینڈ ایکسینج کمیشن آف پاکستان(SECP) کے چیئرمین پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا جو لوگوں کو بیوقوف بنانے اور دھوکا دہی میں ملوث ہے۔مختلف کمپنیوں کے شئیر خرید کرکے اپنے فالورز کو اس کے متلق یہ تاثر دیتا تھا کہ یہ کمپنی اوپر جائے گی۔ اس کے لیے  کمپنی کے متعلق جھوٹی خبریں دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا تھا۔ پھر جب لوگ اُس کمپنی کے شئیر خریدنے کو دوڑتے تو اپنے ہی خریدے گئے شئیر انہیں مہنگے دام بیچ کر منافع کما کر سائید پر ہو جاتا تھا۔ غنی اس شئے  کو عرف عام میں ان سائیڈ  ٹریڈنگ کہا جاتا ہے۔ میر محمد علی خان کے اوپر امریکہ کی عدالت میں بھی کیس چل چکا ہے۔ کیسے کم از کم ۵۵ لوگوں کے ساتھ ۲۷ لاکھ ڈالر کا فراڈ کیا ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا میں اسے بھگوڑے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ میر محمد علی خان پر تفصیل سے کسی اور  وقت  لکھیں گے ۔۔اب واپس آتے ہیں صدارتی نظام کی طرف۔ اب صدارتی نظام کا ہر جانب ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے  رہی۔ اور یہاں تک کہ خان صاحب کا دل بھی صدارتی نظام کی طرف مائل ہونا شروع ہو گیا ہے۔ کیونکہ یہاں پارلیمانی نظام میں اُن کے پاس صرف ۶ ووٹوں کی برتری ہے جس کو کبھی بھی بدلا  جا سکتا ہے۔ وقت کے  ایک وزیراعظم کو مستقبل کے اپوزیشن لیڈر میں بدلا  جا سکتا ہے۔ بھاری اکثریت نہ ہونے کے سبب خان صاحب کو دوسری جماعتوں سے ہاتھ ملانا پڑا ہے اور جو خان صاحب کو بلیک میل کرنے میں پیش پیش ہیں۔ جیسے پچھلے دنوں چوہدری شجاعت حسین خان صاحب کو یہ یاد کروانے پہنچے تھے کہ حضور آپ نے ہم سے اتنی وزارتوں کا وعدہ کیا تھا ابھی ہمیں ایک مزید وزارت ملنا باقی ہے تو برائے مہربانی مونس  الہی کو وزیر بنا کر ہم سے کیا گیا وعدہ پورا کریں۔ چوہدری صاحب کو فی الحال مونس الہی کا نیب میں نام ہونے کا کہہ کر ٹال دیا گیا ہے۔ خان صاحب کی اپنی جماعت کے لوگ بھی وزارت نہ ملنے پر پہلے سے نالہ ہیں۔ اس لیے خان صاحب کو شاید کسی نابغے نے سمجھایا ہے کہ آپ کے لیے صدارتی نظام سب سے بہتر نظام رہے گا۔ کیونکہ پھر آپ ہوں گے اور آپ کے فیصلوں کے آگے سرتسلیمِ خم کرنے والے ٹیکنوکریٹ ہوں گے۔ آپ ہر میدان کے بہترین اور اعلی ماہر چن چن کر اپنی کابینہ کا حصہ بنا سکیں گے جو آپ کو اعلی پائے کی کارگردگی دینے کے مجاز ہوں گے اور اُن کی ناکامی کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہو گی کیونکہ وہ پہلے ہی اپنا آپ اپنے میدان میں منوا چکے ہیں۔ اور وہ لوگ جی حضوری میں بھی کمی نہیں آنے دیں گے۔

لیکن یہ بات نہیں سمجھتے ٹیکنوکریٹ عوام کے ووٹوں سے جیت کر نہیں آیا ہوتا۔ وہ کھٹن اور مشکل کام کرنے سے نہیں گبھراتا۔ نہ اُسے اپنے حلقے کی فکر ہوتی ہے۔ نہ اسے لوگوں کے ووٹوں کی فکر ہوتی ہے۔ کیونکہ اسے کون سا پانچ سال بعد عوام میں جانا ہوتا ہے۔ جبکہ عوام کے ووٹوں سے ایوان میں آیا ہوا نمائندہ فیصلے کرتے ہوئے عوام کے بارے میں لازمی سوچتا ہے۔ اگر اسے مشکل فیصلے کرنے بھی ہوں تو اس کی پہلی کوشش ہوتی ہے عوام پر ان فیصلوں کا بوجھ کم سے کم ڈالا جائے۔ جس قدر ہو سکے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی جائے جبکہ ٹیکنوکریٹ ایسی سوچ سے ماورہ ہو کر کام کرتا ہے۔
عوامی نمائندوں کے ساتھ عوام کی ایک طرح کی اپنائیت ہوتی ہے اور وہ اُن سے مل سکتے ہیں اپنے مسائل سے انہیں آگاہ کرسکتے ہیں۔ ٹیکنوکریٹ کا کوئی حلقہ نہیں ہوتا اُس کی عوام سے یا عوام کو اُس سے کسی طرح کی اپنائیت نہیں ہوتی۔ نہ  ہی عوام اسے جانتے ہوتے ہیں۔ جس سے تعلق اور رابطے کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

۱۸ اپریل کو آرمی چیف کی وزیراعظم سے ملاقات ہوئی ہے۔ شنید ہے جس میں انہوں نے وزیراعظم پاکستان کو بتایا ہے کہ کون کون سے پھول اُن کی وقوفی کابینہ کے گلدستے میں سجیں گے۔ ساتھ ساتھ خزانہ، صحت اور پٹرولیم کے تین ٹیکنوکریٹ کو بھی اپنی کابینہ کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔ خزانہ کا مشیر اسی پیپلزپارٹی کے وزیرِ خزانہ رہنے والے حفیظ شیخ کو لگایا گیا ہے جس پیپلزپارٹی کے بارے میں خان صاحب کہتے آئے  ہیں کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے مل کر اس  کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور ہم ابھی تک اسی   نقصان کی تلافی کررہے ہیں۔ اب اسی پیپلزپارٹی کے دور کے وزیر کو مشیرِ خزانہ لگا کر خان صاحب کیا یہ تسلیم کر چکے ہیں، کہ گزشتہ جماعتیں جنہیں خان صاحب موردِالزام ٹھہراتے آئیں ہیں، ان کی طرف سے اپنائی جانے والی پالیسیوں کو درست مان کر اُن پر اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔ جس بیانیے پر تحریک انصاف سیاست کرتی آئی ہے اُس بیانیے کی بھی اس تقرری کے بعد خان صاحب اور تحریک انصاف نے نفی کردی ہے۔

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply