بُک ریویو:نربدہ سے مہران تک۔۔۔۔لیاقت علی ایڈووکیٹ

فتح اللہ عثمانی سندھ( سکھر ) میں بائیں بازو کی سیاست کا معروف نام تھے۔ وہ زندگی بھر نظریاتی اور تنظیمی طور پر بائیں بازو کی فکر و سیاست سے وابستہ رہے ۔انھوں نے نامساعد حالات میں بھی عوامی جدو جہد سے انحراف نہیں کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد سندھ میں بائیں بازو کی سیاست کے نہ صرف وہ عینی شاہد تھے بلکہ اس سیاست میں ان کا کردار انتہائی متحرک رہا تھا ۔ فتح اللہ عثمانی نے بائیں بازو کی سیاست کے حوالے سے اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنی خود نوشت ’نربدہ سے مہران تک‘ میں قلم بند کیا ہے۔ فتح اللہ عثمانی کی خو د نوشت اگر ایک طرف سندھ میں بائیں بازو کی سیاست کو درپیش سیاسی و سماجی مسائل ، اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا احاطہ کرتی ہے تودوسری طرف انھوں نے اپنے ہم عصر بائیں بازو کے کارکنوں کی خوبیوں ،خامیوں اور کم زوریوں کو بھی معروضی اور دل چسپ پیرائے میں بیان کیا ہے ۔
فتح اللہ عثمانی یو۔پی کے ضلع بارہ بنکی کی تحصیل فتح پور میں پید ا ہوئے تھے لیکن انھوں نے اپنا بچپن اور اوائل جوانی کے سال ریاست حیدر آباد دکن کے صوبہ گلبرگہ میں گذارے جہاں ان کے والد ناظم تعلیمات کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے ایک ایسے ماحول میں تربیت پائی’ جہاں ایک طر ف علمیت و مذہبیت تھی اور دوسری طرف رواداری اور بے تعصبی ۔شائد یہی وجہ ہے کہ مجھ میں عمر بھر ہندو مت کے خلاف کسی قسم کی نفرت پیدا نہ ہوسکی ۔ہندو مت کے دیومالائی مضمون سے میری دلچسپی بڑھی اور ہندو ازم کو ایک مذہب کی حیثیت سے پڑھنے اور سمجھنے کا احساس اجاگر ہوا ‘۔
ریاست حیدر آباد دکن کے عوام کی اکثریت تو ہندووں پر مشتمل تھی جب کہ حکمران مسلمان تھے۔ حیدر آباد کی بیورو کریسی مقامی آبادی کی بجائے’غیر ملکیوں‘ پر مشتمل تھی۔ریاست میں’ غیر ملکی ‘وہ لوگ کہلاتے تھے جو شمالی ہندوستان سے آکر بہ سلسلہ ملازمت ریاست میں رہا کرتے تھے اس کے برخلاف حید ر آباد اور جنوبی ہند کے رہنے والے ’ملکی‘ کہلاتے تھے۔تمام کلیدی عہدوں پر یو۔پی، سی۔پی اور کہیں کہیں پنجاب کے لوگ فائز تھے ملکی اسامیاں صرف نچلے درجے کی ملازمتوں تک محدود تھیں۔
فتح اللہ عثمانی اپنے فارسی کے استاد مولوی جہانگیر علی خان سے متاثر ہوئے جن سے انہوں نے وحدت الوجود کا سبق حاصل کیا تھا ۔ مولوی جہانگیر علی کی بدولت ’ مجھ میں ادب سے لگاؤ ،شعر سمجھنے کا سلیقہ اور تصوف سے دلچسپی اور عدم تشدد سے لگاو پیدا ہوا۔ میں ہمیشہ تضادات کا مجموعہ رہا ۔ایک طرف سماج کا باغی ،انقلاب پسند اور انقلاب دوست اور دوسری طرف عدم تشدد کا پرچارک۔ میں نے ہمیشہ گوتم،مسیح اور گاندھی کو امن و انصاف کا علم بردار سمجھا ۔ میں کبھی کسی چڑیا کو نہ مارسکا اور نہ ہی مرغی کو ذبح کرسکالیکن جمہوریت اور انسانی مساوات کے حصول کے لئے جنگ برائے امن کا حامی رہا ۔۔ میں نے اپنے کردار سے اپنے آپ کو ایک اچھا انسان بنانے کی کوشش کی اور ساتھ ہی ملاازم سے ہمیشہ نفرت کی۔ میں دن میں مخدوم محی الدین، کیفی اعظمی اور علی سردار جعفری کو پڑھتا تھا اور سوتے وقت ٹیگور اور میرا بائی کا مطالعہ کرتا۔ اسی تضاد کے سبب میرے ذہن کو ایک سوال پریشان کرتا رہتا ، و ہ حیات بعدالموت کا تھا ‘۔
حید ر آباد کی دنیا بھر میں شہرت کی ایک بڑی وجہ اس کے غار ہیں جنھیں دنیا اجنتا اور ایلورہ کے نام سے جانتی ہے۔ عثمانی نے ان غاروں کا احوال بہت دل چسپ انداز میں بیان کیا ہے۔’ ایلورہ کے غار پہاڑی کے نیچے بنائے گئے ہیں اور تقریبا ایک میل رقبے پر محیط ہیں۔پہاڑیوں کو کاٹ کر بڑے بڑے ہال اور روشن کوٹھریاں ہیں جہاں شائد راہب رہتے ہوں گے۔یہ کمرے اتنے روشن اور ہوا دار ہیں کہ یہ شک بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کہ یہ پہاڑیوں کو کاٹ کر بنائے گئے ہیں۔ان غاروں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بنانے میں جین ، ہندو اور بدھ مت کے راہبوں اور پیروکاروں نے حصہ لیا تھا۔کیلاش مندر ہندو مذہب کا شاہکار ہے ۔بدھ کے مجسمے اکثر غاروں میں ملتے ہیں اور بعض پہاڑوں میں جین مت کی تعلیمات کے اثرات بھی نظر آتے ہیں ۔ایلورہ اور اجنتا کا بنیادی فرق یہ ہے کہ ایلورہ سنگ تراشی کا شاہکار ہے جب کہ اجنتا مصوری کا‘۔
فروری 1949 میں فتح اللہ عثمانی نقل مکانی کرکے پاکستان آگئے ۔ پاکستان آمد کے بارے لکھتے ہیں کہ ’ہم ریاست(حیدر آبا دکن) کے لوگ پاکستان کے بارے میں اتنے زیادہ واقف کار نہ تھے۔مدراس،کلکتہ اور بمبئی ہم سے قریب تھے،ہندوستان ہمار ا ہمسایہ تھا ،جمہوریت اور انسانی مساوات پر میرا یمان تھا۔لہذا برصغیر کی سیاسی جنگ میں میری ہمدردی اکثریتی جماعت(کانگریس)کے ساتھ تھی لیکن جب حیدر آباد پر بھارتی فوج کا قبضہ ہوگیا تو حیدر آباد کے رضاکار، اتحاد المسلمین اور سابقہ ریاست حیدر آباد کے ملازمین کے گروہ بھی پاکستان کا رخ کررہے تھے ۔ چنانچہ ( خاندان کے افراد کے مابین ) طے پایا کہ ہراول دستہ کی حیثیت سے میں پہلے پاکستان جاوں گا‘۔
پاکستان آنے کے بعد کچھ عرصہ بے روزگار رہے پھر تلاش معاش میں بہاولپور کا رخ کیا ۔جلد ہی وہاں محکمہ تعلیم میں ملازمت تو مل گئی لیکن جائن نہ کیا کیونکہ ریاست بہاولپور میں ملازمین کی تنخواہیں بالعموم اور اساتذہ کی بالخصوص اس قدر کم تھیں کہ گذارہ ہونا مشکل تھا ۔ بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں بہاولپور چھوڑ کر آگے بڑھے اور ملتان پہنچ گئے ۔’ ان دنوں کا ملتان آج کے ملتان سے بہت مختلف تھا۔بازار مغلیہ دور کی نشانی،چھوٹے چھوٹے راستے جس میں سے سواری کا گذر بہ مشکل ہوتا تھا۔بازار کے اختتام پر مکان، مکان کے بعد کی سڑکیں کسی حد تک وسیع ‘۔
ملتان میں قیام کے دوران عثمانی کو عارف والا میں انگلش ٹیچر کی تقرری کا پروانہ مل گیا لیکن صرف دو ماہ بعد ہی وہ بوریا بستر سمیٹ کر واپس کراچی بہنچ گئے۔کراچی ان دنوں نہ صرف وفاقی دارالحکومت تھا بلکہ سندھ حکومت کے دفاتر بھی وہیں تھے۔ ایک دفعہ پھر نئے سرے سے ملازمت کی تلاش شروع ہوئی اور ایک یہودی کمشنر انکم ٹیکس تھامسن کی بدولت سکھر انکم ٹیکس آفس میں اپر ڈویژن کلرک کی ملازمت مل گئی ۔سکھر کی گرمی دیکھ کر احساس ہوا کہ گرمی دیکھ کر احساس ہوا کہ گرمی کیا ہوتی ہے ۔ معصوم شاہ کے مینار کے پاس ایک سی۔آئی ڈی کے ملازم کا فلیٹ تھا ۔وہ خود اوپر ی حصے میں رہتے تھے نچلے حصہ میں یہ ایک دوست کے ہمراہ رہنے لگے۔ان دنوں سکھر سی۔آئی۔ڈی میں اردو بولنے والوں کی اکثریت تھی خصوصا دہرہ دون کے کافی لوگ سکھر آگئے تھے۔
عثمانی نے عملی سیاست کا آغاز سکھر میں حسین شہید سہروردی کے اعزاز میں منعقد ہونے والے ایک جلسے سے کیا اور پھر جو سفر شروع ہوا وہ بغیر کسی وقفے کے زندگی بھر جاری رہا ۔ عثمانی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (جو ان دنوں زیر زمین تھی) نیشنل پارٹی ،نیشنل عوامی پارٹی ۔ ہاری کمیٹی ،ٹریڈ یونین موومنٹ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ رہے ۔انھوں نے سیاست کے ساتھ ساتھ علم و ادب کو بھی وسیلہ اظہار بنایا اور سکھر میں ترقی پسند شعر و ادب کی محافل کے انعقاد کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا جو ان کی وفات تک جاری رہا ۔
بائیں بازو کے نظریات سے ان کی شناسائی ایک مزدو کارکن کامریڈ کریم کی بدولت ہوئی ۔ عثمانی کے وکیل دوست شمس الدین شاہ کے آفس میں ایک کمزور بوڑھا اور بیمار آدمی ہر شام باہر سڑک پر پلنگ بچھائے پڑا ملتا تھا۔ یہ کامریڈ کریم تھا۔’کیرالہ کا بیڑی بنانے والا جو سکھر ٹریڈ یونین میں کام کرنے کے لئے کامریڈ زبیر کے ساتھ آیا تھا۔کامریڈ زبیر واپس کراچی چلے گئے لیکن یہ آدمی یہیں رہ گیالیکن انقلاب کی تاریخ کے ہرموڑ پر گفتگو اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگوں سے زیادہ خوبصورتی سے کر سکتا تھا۔حقیت یہ ہے کہ یہ کامریڈ کریم میر اپہلا استاد تھا جس نے پہلے مارکس ازم کے بارے میں مجھے ساینٹفک سوچ دی ‘ ۔
کامریڈ سوبھو گیان چندانی پاکستان کی کمیونسٹ تحریک کا ایک نمایا ں نام ہے ان کی جدو جہد کا احترام سبھی کرتے ہیں۔ عثمانی نے سوبھو سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال بہت دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔’ایک دن دوپہر کے وقت شاہ صاحب کے گھر گیا ۔صوفے پر ایک نوجوان قمیض اور شلوار میں ملبوس ،خوبرو ،سر پر گھنے بال،بیٹھا ہوا کسی مسئلے پر بحث کررہا تھا۔شاہ صاحب نے تعارف کرایا ۔کامریڈ ان سے ملو،جیل سے رہا ہوکر لاڑکانہ جاتے ہوئے مجھ سے ملنے سکھر رک گئے ہیں اور کامریڈ یہ کامریڈ عثمانی ہیں جن کا میں نے تم سے ذکر کیا تھا۔سوبھو اٹھے اور بھائیوں کی طرح اپنے پاس بٹھایا اور باتیں شروع کردیں۔سوبھو علم کا دریا تھے۔سیاست ،اقتصادیات،سماجیات اور ادب سب پر گہری نظر ۔ اردو بہت شائستہ اور تقریر میں بڑی روانی۔ لیوشاو چی نے لکھا تھا کہ ’ایک اچھا کمیونسٹ کیسے بنا جائے‘لیکن سوبھو نے ہمیں یہ بتایا کہ ایک اچھا انسان کس طرح بنا جاسکتا ہے‘۔
عثمانی کی خود نوشت میں بائیں بازو کے کارکنوں کے خاکے جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہاری لیڈرز جلسے کرتے ہاریوں کے ،دعوت کھاتے وڈیروں کی ،تبدیلی لانا چاہتے تھے دیہاتی معاشرے میں، خود رہتے بڑے شہروں میں لیکن اس کے باوجود یہ سب سے بڑے مجاہد تھے جو کم از کم علم بغاوت کے لئے کھڑے تھے گالیاں کھاتے،جیل جاتے لیکن کسی لمحے پر بھی کم زوری نہ دکھلاتے‘۔
سندھ میں قیام پاکستان کے بعد بائیں بازو کی سیاست کی نشو و نما اور بعد ازاں اس کے زوال کو سمجھنے کے لیے فتح اللہ عثمانی کی خود نوشت کا مطالعہ بہت اہم ہے۔**
نام کتاب: نربدہ سے مہران تک
مصنف: فتح اللہ عثمانی
پبلشرز: فکشن ہاوس ،مزنگ روڈ لاہور

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply