ہمارے مستقبل کا اغوا ۔ اسمارا مرتضی

پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر دکھ

عبارت تو نہیں جو تجھے لکھ کر بھیجیں!

یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سُنائیں تُجھ کو

نہ کوئی با ت ہے ایسی کہ بتائیں تجھ کو

زخم گر ہوں تیرے ناخن کے حوالے کر دیں

آئینہ بھی تو نہیں ہے کہ دکھائیں تُجھ کو

(سلیم کوثر )

 پاکستان کے بعد آزاد ہونے والے ممالک ترقی اور خوشحالی کی بڑی منزلیں طے کر چکے ہیں جبکہ ہماری پسماندگی اور زبوں حالی اقوامِ عالم کا موضوعِ گفتگو بنی ہوئی ہے۔ بلاشبہ ہمارے ملک نے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں جبکہ پاکستانی قوم روز بہ روز زوال کی طرف مائل ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے حکمرانوں کی بے تدبیری اور اخلاقی گراوٹ کے علاوہ اُن کی بچوں کی سیکورٹی،تعلیم و تربیت کے بارے میں بے حسی اور مجرمانہ غفلت کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ اُنہیں ذرہ برابر احساس ہی نہیں کہ اُن کی یہ مجرمانہ غفلت اور بے حس رویہ نئی نسل کے مستقبل پر کس قدر زہر ناک اثرات مرتب کر رہا ہے۔ بچے جو پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں اور جن کو پاکستان کے  دفاع کے برابر اہمیت دی جانی چاہیے تھی، وہ آج قومی ترجیحات میں سب سے پیچھے ہیں۔ تحقیق و تفتیش کا اور منصوبہ بندی کا نہ ہونا ان معصوم پھولوں کا ایسے اغوا ہونا اور غلط ہاتھوں میں جانا  ریاست کے لیے  بہت بڑی شرمندگی ہے، بس شرط اتنی کہ احساسِ شرم باقی ہو۔

بقول بیدل حیدری

امیرِشہر کے کتوں کو گوشت ملتا ہے

مگر عوام کی فاقہ شماریاں ہیں وہی

وہی سماج ہے جاگیرداریاں ہیں وہی

کہیں سفر میں کہیں لاریوں کے اڈوں پر

یہ میری قوم کے بچے جو جیب کاٹتے ہیں

یہ سب قصور ہمارے اسی سماج کے ہیں

فضائے امن و محبت کی آرزو ہے اگر

تو آفتاب افق سے اچھا لنا ہو گا

سحر کے پاؤں سے کانٹا نکالنا ہو گا

 کسی بھی گھر کے بچے اس گھر کے آنگن کے پھول ہوتے ہیں جب تک یہ پھول آنگن میں نہیں کھلتے گھر بے رونق اور خوشیوں سے خالی ہوتا ہے_ اولاد اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر ان سے پوچھیے جن کے آنگن اس پھول کے نہ کھلنے کی وجہ سے ویران پڑے ہیں۔ اور اندھے بہرے صاحبان حَکم کے لیے تو اب ایسا لگتا ہے کہ میرا تنقیدی جملہ خود میری  زبان کی توہین کے مترادف ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ لوگ ہمارے آنگن کو تحفظ فراہم کرتے، اُلٹا ان ہی کی وجہ سے اس ملک کے آنگن کی ہریالی دن بدن ماند پڑتی جا  رہی ہے_

 کسی اعداوشمار میں پڑے بغیر سوال اتنا ہے کہ  کہاں جا رہے ہیں میرے وطن کے بچے اور کیوں جا رہے ہیں؟ کون لے جا رہا ہے؟کیا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟ یہ وہ سبھی سوال ہیں جو سب والدین کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں_ یہ سلسلہ ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور بد بختی کا یہ عالم کہ ڈی آئی جی  پنجاب صاحب اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے بیان داغ دیتے ہیں کہ یہ بچے اغوا نہیں ہوے گھر سے بھاگے ہیں۔ حکومت قومی خزانے  سے کروڑوں خرچ کر کے، بچوں کے متعلقہ کمرشلز چلا کر اپنے دفاع میں لگی ہے۔ ان عقل کے ولیوں کو کون سمجھائے کہ یہ معاملہ بیانات اور دفاع والا نہیں ایک حساس معاملہ ہے۔ کاش کہ حکومت اور ڈی آئی جی صاحب کو احساس ہو کہ ایک ماں کن کن پچیدہ مراحل سے گزر کر بچہ پیدا کرتی ہے اور جب یہ دل کے ٹکڑے راہ جاتے آٹھا لیے جائیں تو ان ماوں پہ کیا بیتتی ہے ؟  باپ کیسے ان ننھے پھولوں کے شجر بننے کی آرزو رکھتا ہے اور ان کے یوں توڑ لیے جانے سے کیسے اس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ کوئی مر جائے تو صبر آجاتا ہے کہ ایک دن سب نے جانا ہے، لیکن جو  ویسے جا کر بچہ واپس گھر نہ آئے تو ایسے میں ایک ماں روز مرتی روز جیتی ہے۔

آج سے کوئی تین سال پہلے میرا بیٹا ایک عزیز کی شادی میں دو گھنٹے، فقط دوگھنٹے غائب ہو گیا تھا۔ یہ دوگھنٹے جس اذیت اور کرب میں، میں نے گزارے اسکا اندازہ ایک ماں ہی لگا سکتی ہے کہ کیسے اوپر والی سانسیں نیچے آنے کا نام ہی نہیں لیتیں۔

 “سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف چلڈرن” کی سالانہ رپورٹ “دی اسٹیٹ آف پاکستان چلڈرن رپورٹ 2011” کے مطابق  پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ ہے جو اسکول نہیں جاتے، جب کہ ان میں ستّر لاکھ بچے ایسے ہیں جو پرائمری اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کی عمر کو پہنچ چکے۔ ایسے میں ان مستقبل کے معماروں اور پاکستان کے مستقبل کا جو منظر آپکی نظروں میں آ رہا ہے وہ تقریباّ ٹھیک ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ بھیانک سوچ حقیقت میں بدلے، خدارا ریاست اور ذمہ داروں سے اپیل ہے کہ وہ اپنی آنکھیں کھولیں، جاگیں۔  ایسے ملک دشمن گروہوں کا کوئی مستقل علاج اور پالیسی ڈھونڈیں جو ہمارے بچوں کی شکل میں ہماری مستقبل اغوا کر رہے ہیں۔ کیا پتہ کل کو ان ہی بچوں میں سے کوئی ایسے مجمعے میں پھٹے جہاں آپ کے بچے بھی موجود ہوں _ ہر دوسرے ہفتے قصور ، سیالکوٹ ، لاہور جیسے واقعات کو روکنا ہوگا تاکہ ہمارے بچے ایک اچھے ماحول میں پھَل پھول سکیں کہ کل کو انہوں نے ہی اس ملک کی بھاگ دوڑ کو سنبھالنا ہے۔ اللہ وطنِ عزیز اور اس کے بچوں کو غلیظ  اور دشمن عناصر کی پہنچ سے بہت دور رکھے۔ آئیے آواز اٹھائیں کہ ہمارے صاحبان اقتدار ایسی پالیسیاں مرتب کر سکیں جس سے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو سکے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ہمارے مستقبل کا اغوا ۔ اسمارا مرتضی

  1. مکالمہ کو اتنی مقبولیت پہ تہ دل سے مکارکباد۔انعام رانا سے زاتی اختلافات اپنی جگہ پر انکی کاوش پہ ان کے لئےتہ دل سے دعائیں خدا ان کو سنستا مسکراتا رکھے اور اتنا ہی پر امن رکھے جیسے مکالمہ میں نظر آ رہیں ۔ نیک تمنائیں مکالمہ کے لئے
    اریب سلطان

Leave a Reply to Arieb sultan khan Cancel reply