مکالمے کا آغاز ۔ عمار مسعود

مکالمہ نہ ہو تو جنگ ہو تی ہے۔اختلاف بڑھتا ہے۔ شدت پیدا ہوتی ہے۔ نظریات دفن ہوتے ہیں۔عقائد ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ ہیجان میں اضافہ ہوتا ہے۔ بات گالی سے گولی تک پہنچتی ہے۔ احساسات کا قتل ہوتا ہے۔ اقدار ذبح ہوتی ہیں۔تمدن ، تنزل کا شکار بنتا ہے۔ ثقافت دم تورٹی ہے۔ ادب ، اخلاقیات کی حدیں پار کرتا ہے۔ سماج وحشی ہو معاشرہ ذہنی مریض بن جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں مکالمے کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب بندوق کی گولی تھک جاتی ہے۔ جب ہم لڑتے لڑتے بے دم ہو جاتے ہیں۔ جب فریقین کی سانس اکھڑنے لگتی ہے۔جب دہشت سب کچھ چاٹ چکی ہوتی ہے۔ جب نفرت زور پکڑ چکی ہوتی ہے۔ جب حالات بگڑ چکے ہوتے ہیں۔ جب زمانے کی رفتار بدل چکی ہوتی ہے۔

مکالمے کا فعل انسانی فطرت سے متصادم نہیں بلکہ انسانی سرشت کا حسہ ہے۔ یہ خواہش بھی ہے اور امید بھی۔ یہ راستہ بھی ہے اور روشنی بھی۔ یہ واسطہ بھی ہے اور ضابطہ بھی۔ یہ خواب بھی ہے اور حقیقت بھی۔ یہ آسرا بھی ہے اور امکان بھی ۔ یہ دشت بھی ہے اور چمن بھی ۔ اور یاد رکھیں مکالمہ ممکن بھی ہے اور نا ممکن بھی۔

مکالمہ اس وقت ہوتا ہے جب دونوں فریق اس کے لیئے راضی ہوں۔ بات کہنے والا تیار ہو اور بات سننے والا ہمہ تن گوش ہو۔منزل دکھانے والا بھی میسر ہو اور راستے پر چلنے والا بھی دستیاب ہو۔ جلسے سے خطاب کرنے والا بھی حاضر ہو اور نعرہ مستانہ لگانے والا بھی موجود ہو۔ درس دینے والا بھی راضی ہو اور زانوئے تلمذ باندھ لینے والا بھی بات کو سمجھنے کی قدرت رکھتا ہو۔

یک طرفہ ٹریفک مکالمہ نہیں کہلاتی۔ خود کلامی مکالمہ نہیں بنتی۔ صرف خواب مکالمہ نہیں کہلاتے۔ صرف امکان مکالمہ نہیں بنتا ۔ صرف التزام مکالمے کی فہرست میں نہیں آتا۔ ا ایک، اکیلا مکالمہ نہیں کر سکتا ۔ ایک آواز کچھ نہیں کر سکتی۔ آوازوں کا اجتماع ضروری ہے۔ ابلاغ لازمی ہے۔ اظہار انسانی سرشت ہے۔

یہاں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ مکالمہ کس بات پرکیا جائے۔ یہ طبقوں کے درمیان ہو سکتا ہے۔ فرقوں کے درمیان اس کی گنجائش بنتی ہے۔ تہذیبوں پر بات ہو سکتی ہے۔ سیاسیات کو موضوع بنایا جا سکتا ہے۔ سماجی پہلو سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ ثقافتی بنیادیں زیر بحث لائی جا سکتی ہیں۔ سلامتی بر بحث ہو سکتی ہے۔ تعمیر اور تخریب کے رویئے سامنے لائے جا سکتی ہے۔ مکافات عمل موضوع ہو سکتا ہے۔ قلبی واردات کے پہلو سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ ملکوں کی تاریخ جدید جغرافیائی تناظر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ملکی مسائل پر بات ہو سکتی ہے۔

مکالمے کس سے کیا جائے یہ بحث کی بات نہیں ہے۔ یہ ہر کسی کا حق ہے۔ یہ ہرکسی کی ضرورت ہے۔

مکالمے کا اآغاز ہی کامیابی کی نشانی ہے۔ یہ فتح کی دلیل ہے۔ یہی امید کا نشان ہے۔ یہی تاریکی کی شکست ہے۔ یہی حوصلے کا ثبوت ہے۔ یہی امید کی کرن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری طرف سے مکالمے کے آغاز پر مبارکباد

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply