اردو، ادب، اردو ادب اور سائبریت ۔ حافظ صفوان محمد چوہان

 آج لکھنے کے لیے قلم اور کاغذ کی حاجت نہیں رہی۔ کتاب پرانی چیز ہوگئی ہے۔ ایک عالمی گاؤں کے رہائشی ہم لوگ سائبر دور میں جی رہے ہیں۔ ہم میں سے جن لوگوں کا تعلق ادب سے ہے وہ ادب کے سائبر دور میں جی رہے ہیں۔

 اردو ہمارے علاقوں میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والی زبان ہے جس میں کم و بیش 46 زبانوں اور بولیوں کے الفاظ شامل ہیں۔ اردو ادب بھی قدیم الایام ہے تاہم اس میں جدید دور کے امکانات کی باقاعدہ سمائی کا آغاز اردو ادب کے عناصرِ خمسہ سے ہوا۔ برِ عظیم پاک و ہند میں جب یہ واقعہ ہوا اس وقت عالمی دنیا صنعتی ترقی کا دور دیکھ رہی تھی۔ صنعتی ترقی نے دنیا کو وسائلِ دنیا کے افادی پہلوؤں کی نئی اور وسیع تر جہات سے آشنا کیا اور دیکھتے دیکھتے دنیا میں خالص مادی بنیاد پر جیو اور جینے دو کا اصول جاری ہوگیا۔ ادب برائے ادب کا دور لد گیا اور ادب برائے زندگی کا ڈنکہ بجنے لگا۔ سر سید احمد خاں اور ان کے رفقا نے ادب کی افادیت کے اس اعلانِ عام کو غور سے سنا، ادب اور زندگی کے مستقبل کے بارے میں سوچ بچار کی، اور اپنی قوم کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے جو بن پڑا اس میں لگ گئے۔ اردو ادب کو زندگیوں میں فعال اور افادیت کا حامل بنانے کا آغاز ہوگیا۔

آج ڈیڑھ سو سال کے بعد اردو جہاں کھڑی ہے اس کے راستے میں پتھر کی چھپائی کے بجائے نیا چھاپہ خانہ، ٹائپ رائٹر، کاتبوں کے دور کا خاتمہ، کمپیوٹر کمپوزنگ اور مشین ریڈ ایبلٹی کے بڑے بڑے سنگہائے میل آتے ہیں۔ اردو مشین ریڈ ایبل ہوکر ان زبانوں میں شامل ہوگئی جن کے لیے سائبر دنیا کی چھوٹی بڑی مشینیوں اور آلات میں سہولت مہیا ہے۔ ادب زبان کے ساتھ جڑا ہے چنانچہ اردو ادب آج اس جدید ترین دور میں اپنی مایا کے ساتھ موجود ہے۔

سائبر دور نے جہاں زندگی کی بیشتر ترجیحات کو بدل کر رکھ دیا ہے وہاں افادیت کے لفظ میں بھی نئے معنی بھر دیے ہیں۔ نظم ہو یا نثر، قبولِ عام صرف اس تحریر کو ملتا ہے جس کی کمرشل ویلو ہو۔ مطلب یہ کہ ادبی جنس کی پیشکش اس طرح ہو کہ اسے زیادہ سے زیادہ گاہک مل سکیں۔ پہلے ادب کا ہدف صرف قاری ہوتا تھا، آج ادبی جنس کا گاہک پڑھنے سے پہلے اسے دیکھتا ہے۔ چنانچہ یہ پیشکش جتنی صارف دوست، شوخ رنگ اور توجہ مبذول کرنے والی ہوگی، اس کا دائرہ افادیت اسی قدر وسیع ہوگا۔ ادب کتاب سے نکل کر معاشرے اور میڈیا میں بکھر گیا ہے۔ سائبریت ہمارے زبان و ادب کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے۔

یہ سوالات کہ ادب کیا ہے، ادب کیوں ضروری ہے، ادب سماج کے لیے کیسے کارآمد ہوسکتا ہے یعنی ادب کی افادیت کیا ہے، ادب کن موضوعات پر بحث کر سکتا اور کن مسائل کو موثر طور پر بیان کر سکتا ہے، زبان و ادب کہاں ایک دوسرے کے مرادف ہوتے ہیں اور کہاں الگ ہو جاتے ہیں، سائبر دور میں ادب کے روایتی سانچوں کی کیا قدر و قیمت اور افادیت ہے اور یہ کب تک موثر رہیں گے، ادبی جرائد اور کتب کی اشاعت کی روز افزوں گرتی تعداد کو ادب کی نامقبولیت کا معیار مانا جا سکتا ہے یا نہیں، وغیرہ، اب بھی باقی رہیں گے لیکن شاید ان کا ہدف بالکل بدل جائے۔ افادیت کو بنیادی قدر ماننے کے بعد یہ جائز سوال ہوگا کہ جیسے شیکسپیئر، ورڈزورتھ اور کیٹس کی ایک سطر پڑھے بغیر لوگ بہترین انگریزی بول اور لکھ سکتے اور دنیا بھر میں اعلیٰ پائے کے کام کر سکتے ہیں تو اردو والوں کو اپنے ادب کے آثار الصنادید کو کب تک پڑھنا پڑھانا چاہیے۔ تنقیدِ ادب کے معیارات کی قدیم کسوٹیاں سائبر دور کے ادب کی جانچ کے لیے کیسے استعمال ہوں گی یا اس ادب کو قاری کے صرف لائک یا کمنٹ کرنے کی سادہ تعداد پر ادبِ عالیہ تسلیم کر لیا جائے۔ یہ اور اس قسم کے ڈھیروں ڈھیر سوالات سنجیدہ اور فوری توجہ کے منتظر ہیں۔ آئندہ ادوار میں ان سوالات کے جواب دینے والے بھی عام انسان نہیں ہوں گے بلکہ سائبر دور کے انسان ہوں گے۔ بطورِ خالص انسان یعنی غیر ملاوٹ شدہ انسان یہ ہماری آخری نسل چل رہی ہے۔ انسانوں کی جو نسل اب پیدا ہوگی اس میں مختلف حیوانات کی پیوند کاری ہوگی اور انسان کو پیدا کرنے کے لیے دنیا بھر کے حیوانات اپنا اپنا کارگزار اور مفید حصہ جسم پیش کریں گے۔ مختلف جانور انسانوں کی اور انسان مختلف جانوروں کی بولیاں بولیں اور سمجھیں گے۔ انسان کی تخلیق کے اس نئے دور میں ادب جو کام کرے گا اس کی بنیاد آج تخلیق کیا جانے والا سائبر ادب ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارا سماج جو زبان بول رہا ہے اور زبان کو جس رسم الخط میں لکھ رہا ہے، وہی اردو ادب کی زبان بن رہی ہے۔ اردو ادب مشرف بہ سائبریت ہوگیا ہے۔ آج کی سائبر اردو کل کی کلاسیکل سائبر اردو کہلائے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”اردو، ادب، اردو ادب اور سائبریت ۔ حافظ صفوان محمد چوہان

  1. بہت عمدہ، معلوماتی، اور مفید تحریر ہے. اردو ایک خوبصورت زبان ہے. لیکن دور حاضر کے اکثر لکھاری اس میں جابجا انگریزی الفاظ کی پیوندکاری کرکے اس کی شکل مسخ کرتے جا رہے ہیں. ایک دفعہ میں نے محترم جاوید چودھری صاحب کے ایک کالم میں انگریزی کے ایسے ١٨ الفاظ دیکھے جن کے متبادل اردو الفاظ موجود تھے. پاکستانیوں شاعروں اور ادیبوں نے شعرو ادب کے میدان میں تو خوب کام کیا ہے لیکن سائنسی علوم و فنون کے میدان میں کام نہ ہونے کے برابر ہے. نتیجہ یہ کہ اردو دوسری زبانوں سے بہت پیچھے رہ گئی ہے.
    برادرم حافظ صفوان صاحب کی باتوں سے اتفاق ہے. سائنسدان دوسرے جانوروں کے طاقتور اور بہتر جین انسانوں میں منتقل کرنے کے تجربات کر رہے ہیں. وہ ایسے تجربات حیوانات پر کامیابی سے کر چکے ہیں. ایک ایسے انسان کا تصور کریں جس کی نظر عقاب سے زندہ تیز، جسم گوریلا سے زیادہ مظبوط، اور وہ دوڑنے میں چیتے کو بھی پیچھے چھوڑ جاتا ہے. انسان کی آنکھوں میں ایک نقص ہے جسے بلائنڈ سپاٹ کہتے ہیں. آکٹپس کی آنکھیں اس نقص سے پاک ہیں. اگر آکٹپس کا یہ جین انسان کو لگا دیا جائے تو اس کی آنکھوں کا نقص ختم ہو جائے گا. نیز سمندر میں ایسے کئی جانور دریافت ہو چکے ہیں جو موت کی آنکھوں میں دھول جھونک دیتے ہیں. یعنی قدرتی موت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی. سائنسدان ان جانوروں کی حیات جدوانی کے راز سے پردہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں. قصہ مختصر اگلی صدی کے انسان اور آج کے انسان میں وہی فرق ہو گا جو آج ہم انسان اور بندر کے درمیان دیکھ رہے ہیں.

    1. ہاہاہا۔ انسان اور بندر جتنا اختلاف۔۔۔ بہت اچھی بات کہی۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس ہائبرڈ انسان نے جس کا دماغ اور دیگر اعضا پری پروگرامڈ ہوں گے، ادب کا کرنا کیا ہے؟

Leave a Reply