اقبال اور جرمن فلسفہ (2) ۔ عمران شاہد بھنڈر

ایک نکتہ یہاں پر ذہن نشین رہنا بہت ضروری ہے کہ علمیات اور مابعد الطبیعات میں تعقل کے محدود کردار کو صرف اس لیے اجاگر کیا جاسکا کہ تعقل، مظہر اور جوہر اور بعد ازاں حسیات اور فہم کے درمیان تضادات کی تحلیل کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ لہذا تعقل کا کردار تضاد کے تصور کے تحت محدود ہوتا ہے، لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہے کہ کانٹ فہمِ محض کے مابعد الطبیعاتی تصورات کا تجربے پر اطلاق نہیں کرتا۔ کانٹ صرف تجربے سے باہر علم کے حصول کے حوالے سے ان کے کردار کو محدود کرتا ہے، لیکن ان مابعد الطبیعاتی تصورات کا حسیاتی مدرکات پر اطلاق لازمی کرتا ہے۔یہ اس کا پہلا استعمال ہے، اس کا دوسرا استعمال یہ ہے کہ تعقل حسیاتی ادراک کے بغیر خدا، روح اور ارادے کے تصورات قائم کرتی ہے، اور انہیں اخلاقی عمل سے جوڑ دیتی ہے۔اس کی تفصیل بعد میں پیش کرتا ہوں، فی الوقت یہ ذہن میں رہے کہ فہمِ محض کے تصورات جب حسیات سے منقطع ہوجاتے ہیں ، اس وقت ان کا تصور تو کیا جاسکتا ہے، لیکن ان کو جان کر علم میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔علم میں اضافے کے لیے ’مظہر‘ سے موصول حسیاتی ادراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں پر کانٹ پر یہ تنقید کی جاسکتی ہے کہ علم کے حصول کے لیے اس نے حسیات سے موصول معروض کو ضروری گردانا ہے۔ وہی معروض تعقل اور فہم کے درمیان تضاد کو دکھاتا ہے۔ اب اگر حسیات سے موصول معروض کو لازمی سمجھا جائے تو تعقل کا تضادات میں پھنسنا ضروری ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کانٹ عملی تنقید میں تعقل سے فہمِ محض کے مقولات کا علم حاصل کرنے کا کام نہیں لیتا بلکہ ان کو صرف تصور کرنے کا کام لیتا ہے۔ یہ کانٹ کا ایک اور عظیم کارنامہ ہے کہ اس نے منطقی، تعقلی طور پر یہ ثابت کیا کہ علم حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہمارے حواس ہی ہوتے ہیں۔ ماورائے حواس کسی حقیقت کا تصور تو کیا جاسکتا ہے، لیکن اسے جانا نہیں جاسکتا۔ کانٹ جب یہ کہتا ہے کہ ماورائے حواس کچھ تصورات کے بارے میں خیال کیا جاسکتا ہے تو اس وقت وہ مابعد الطبیعات کا اثبات ہی کررہا ہوتا ہے۔ اور انسان کی تجربی زندگی میں ان تصورات کے اطلاق کا مطلب ہی یہ نکلتا ہے کہ کانٹ نے مابعد الطبیعاتی کو مقرونی شکل دی ہے۔ہیگل کہتا ہے کہ تعقل کی فوق تجربی انکوائری کانٹ کا عظیم کام ہے۔ فوق تجربیت کی بحالی صرف اور صرف حسیات سے نجات پانے کے لیے تھی، تاکہ تجربیت کی نفی کی جائے۔ جرمن فلسفی نے کانٹ کے موضوعی فوق تجربی میتھڈ کو اختیار کرلیا اور دلیل یہ پیش کی کہ نفی کے عمل سے حسیات کو مکمل طور پر تباہ کیا جاسکتا ہے۔ لہذا واضح رہے کہ کانٹ کے بعد فختے ایسا فلسفی تھا جس نے فوق تجربیت کی گہرائی میں انکوائری کی اور کانٹین مابعد الطبیعات جو کہ جدلیاتی نفی سے تشکیل پارہی تھی اسے مزید ترقی دی، اسی میتھڈ کو ہیگل نے اختیار کیا، اس دعوے کے ساتھ مابعد الطبیعات کو بغیر حسیات میں الجھے ’’تعقلِ محض‘‘ سے جدلیاتی طریقہ کار کے تحت تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ ہیگل ’’منطق کی سائنس ‘‘ میں اس کا اظہار کرتا ہے۔
اقبال کو کانٹ کے فلسفے کے صرف ان قضایا کا علم تھا جن کی وجہ سے کانٹ کی مابعد الطبیعات کیِ نظری جہت محدود ہوجاتی ہے۔ تاہم تعقل نظری جہت کو محدود کرنے کا مقصد اس تعقلی الٰہیات کا دروازہ بند کرنا تھا جس کے نمائندوں میں لائبنیز اور وولف شامل ہیں۔ اقبال جب یہ کہتے ہیں کہ تعقلی الٰہیات کے لیے اتنے حالات خراب نہیں جتنے کانٹ کو دکھائی دیتے تھے،تو اس وقت اقبال، کانٹ کی وولف اور لائبنز پر تنقید کو یکسر نظر انداز کردینے کے علاوہ اقبال کی تعقل عملی کی ساری بحث سے یکسر نابلد ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ اقبال پر لازم تھا کہ اس موقع پر وہ جرمنی میں پہلے سے تشکیل شدہ تعقلی الٰہیات پر کانٹ کے منطقی اعتراضات کا جواب فراہم کرتے۔تاہم اقبال نے ایسا کچھ نہ کیا۔یہاں پر یہ واضح رہے کہ کانٹ نے اس مابعد الطبیعات کی نفی کی جسے جرمن فلسفے میں تشکیل دیا جاچکا تھا۔ ان کے برعکس کانٹ اپنی مابعد الطبیعات تشکیل دیتا ہے۔ مابعد الطبیعات کے محض ایک تصور کی نفی کو کل مابعد الطبیعات کی نفی نہیں کہا جاسکتا۔اور نہ ہی نفی کا کوئی سطحی مفہوم قائم کیا جاسکتا ہے، جو کہ اقبال نے تشکیل دے رکھا ہے۔
اقبال لکھتے ہیں کہ ’’کانٹ کا نظریہ شے حقیقی اور مظہر کے باعث اس کی مابعد الطبیعات کے امکان کا سوال محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔‘‘ یہاں اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ شے حقیقی اور مظہر کے باعث نہیں بلکہ ان کے درمیان حتمی’ تفریق‘ کی وجہ سے مابعد الطبیعات کے لیے نظری تعقل تک محدود ہوتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی تفریق کے باعث تعقل نظری کے محدود استعمال کی بنیاد پر نکالے گئے نتیجے کو اقبال قبول کرلیتے ہیں،یعنی اگر تجربے کی کوئی اور سطح ہو تو کانٹ درست ہے! یہ انتہائی اہم نکتہ ذہن نشین رہنا بہت ضروری ہے کہ مابعد الطبیعات کی تحدید کا قضیہ صرف تعقل نظری میں تعقل کے ذریعے ہی پیدا ہوتا ہے۔ کانٹ مابعد الطبیعات کو ایک باقاعدہ علم کی حیثیت سے تشکیل دینا چاہتا تھا۔ ایک ایسا علم جو کسی وجدانی فعلیت کے تابع نہیں بلکہ ہر طرح کی منطقی ، تعقلی بے قاعدگیوں سے پاک ہو۔ ’’تنقید عقل محض‘‘ کے طبع ثانی کے دیباچے اور اس کے آخری باب میں انتہائی باریکی سے تعقل کے نظری اور عملی استعمال کو واضح کیا گیا ہے۔ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے تو انہوں نے باطل نتائج نکالنے میں تو بہت جلدی کی ہے، مگر کہیں بھی کانٹین مقولات یعنی ’’شے فی الذات‘‘ اور ’مظہر‘ کے درمیان تفریق کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی ہے اور نہ ہی تعقل عملی کے تحت مابعد الطبیعات کے فعال کردار کی تفہیم کا ہی کہیں ثبوت دیا ہے۔
تعقل کے عملی استعمال کی فلسفیانہ اساس کو تشکیل دینے سے مابعد الطبیعات کا وہ اثباتی کردار بھی عیاں ہوجاتا ہے جس کو خود کانٹ اس طریقے سے بیان کرتا ہے کہ ’’جب ہم پر یہ واضح ہوجائے کہ تعقل نظری ماورائے حواس کسی عالم کا علم حاصل کرنے سے قاصر ہے تو پھر ہماری توجہ تعقل کے عملی علم کے حصول کی طرف رہنی چاہیے ، اس طرح امکانی تجربے کی حدود سے ماورا ہوکر مابعد الطبیعات کے حتمی نتیجے کے طور پرغیر متعین شدہ فوق تجربی تصور کو متعین کیا جاسکتا ہے‘‘ (ص، ۱۷)۔ مابعد الطبیعات کے حوالے سے فلسفے کی تاریخ میں یہی وہ طریقہ کار تھا جس کی تشکیل کانٹ نے کی تھی اور روایتی مابعد الطبیعاتی طریقہ کار کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ کانٹ کو اس بات کا خدشہ تھا کہ اس کی کتاب کے سطحی مطالعے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرلیا جائے گا کہ تعقل یا مابعد الطبیعات کا کوئی’ مثبت‘ استعمال نہیں ہے۔ اس بات کو اس نے واضح طور پر محسوس کیا اور اس کا باقاعدہ ان الفاظ میں اظہار بھی کیا تھا کہ ’’اس کتاب کا سرسری مطالعہ اس نتیجے کی جانب لے جائے گا کہ اس کا استعمال صرف منفی ہے، اور وہ یہ کہ یہ تعقل نظری کو تجربے کی حدود سے باہر جانے سے روکتی ہے۔ اس کا پہلا استعمال یہی ہے، مگر یہ استعمال فوراََ مثبت بن جاتا ہے، جب ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ اصول جن کے تحت تعقل نظری تجربے کی حدود سے آگے بڑھنا چاہتی ہے، اس کا ناگزیر نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس سے تعقل کی حدود میں وسعت نہیں آتی بلکہ وہ محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔ ۔۔۔۔جہاں تک تنقید تعقل نظری کے استعمال کو محدود کرتی ہے، وہ منفی ہے، لیکن جونہی وہ اس مشکل اور رکاوٹ کو دور کردیتی ہے جس سے تعقل عملی کے استعمال کے ختم ہوجانے کا خطرہ ہو، وہ ایک مثبت اور بہت اہم استعمال رکھتی ہے‘‘ (ص،۸ا۔۱۹)۔جب تک کانٹین میتھڈ کا علم نہ ہو، اس وقت تک کانٹین مابعد الطبیعات کو بھی سمجھا نہیں جاسکتا۔اقبال کو کانٹ کی مابعد الطبیعات سے متعلق غلط فہمی صرف اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ اقبال نے ’’تنقید عقلِ محض‘‘ میں ’نفی‘ کے مقولے کو حتمی تصور کرلیا ہے۔ جدید مغربی فلسفے میں سپائنیوزا وہ پہلا فلسفی ہے جس نے یہ کہا کہ پہلی تعیین نفی سے ہوگی۔ نفی کا یہ مقولہ کانٹین علمیات کا لازمی جزو ہے۔تعقل کا مابعد الطبیعات کی نفی کا عمل اس کی اپنی نفی کا عمل بھی ہے، محض اس لیے کہ اگلے مرحلے پر نہ صرف خود کو بلکہ مابعد الطبیعات کو بھی بحال کرسکے۔ کانٹین مابعد الطبیعات چونکہ اس کی جدلیات کے تابع ہے، اس لیے اس کی جدلیات کو سمجھے بغیر اس کی مابعد الطبیعات کو بھی نہیں سمجھا جاسکتا۔
واضح رہے کہ تعقل اپنے راستے کی رکاوٹ کو خود ہی دور کرتی ہے، کسی اور قوت کو خود سے برتر تصور کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیمِ خم نہیں کرتی۔منطقی، تعقلی مباحث میں وجدان کے ذریعے ماورائے تعقل کسی سچائی کی تلاش ایک غیر تعقلی اور غیر منطقی عمل ہے، عہدِ حاضر میں کسی ایسے طریقہ کار کی حوصلہ افزائی قدامت میں پناہ لینے کے مترادف ہے۔ کانٹین مابعد الطبیعات میں تعقل کی یہ تحدید اس کے کل فلسفیانہ پروجیکٹ کا ایک مرحلہ ہے، جسے وہ ’’تنقید عقل محض‘‘ کے آخری باب میں عبور کرلیتا ہے۔کیا فلسفیانہ مباحث میں ایسا ممکن ہے کہ کسی فلسفی کی آدھی بات پر اپنے مؤقف کی بنیاد رکھ دی جائے؟ بجائے اس کے کہ موصوف کانٹ کے فلسفے کے بنیادی خیال تک رسائی حاصل کرتے، انہوں نے کانٹ کے متعلق ابتدا میں ہی ایسے نتائج اخذکر لیے کہ جن سے ایک طرف تو وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور اپنے قارئین کو بھی اسی گمراہی میں دھکیل دیا۔
تھوڑا آگے چل کر وہ ابنِ عربی کی یہ دلیل پیش کردیتے ہیں کہ ’’ممکن ہے کہ جس شے کو ہم خارجی دنیا کہتے ہیں محض ایک ذہنی تشکیل ہو اور انسانی تجربے کی اور بھی ایسی سطحیں موجود ہوں جن کا تعلق زمان و مکاں کی کسی اور سطح سے ہو۔‘‘اس فقرے کی ماہیت پر غور کرنے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ اقبال جو نتیجہ اخذ کررہے ہیں اس کے بارے میں وہ خود بھی یقین سے کچھ کہنے سے گریزاں ہیں۔یہاں دیکھیں کہ ’’ممکن ہے‘‘ کا استعمال ان کی اپنی تشکیک کو عیاں کررہا ہے۔جس کے بارے میں انہیں خود بھی یقین نہیں ہے اس کی بنیاد پر کسی دوسرے کے فلسفے کو چیلنج کیسے کیا جاسکتا ہے؟علمی مباحث میں ایسے رویے ناقابلِ قبول ہوتے ہیں۔ ان رویوں کی شعری قدر تو ہوسکتی ہے، لیکن ان کی فلسفیانہ اہمیت کچھ نہیں ہوتی۔تعقلی فلسفوں میں ایسے غیر منطقی طریقہ کار کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ اس طرح تو ہر اس بات کا امکان پیدا کیا جاسکتا ہے جس سے اپنی ہی باتوں کی نفی ہوتی ہو۔یہاں پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ کیا اقبال کو ایسی دنیا کا تجربہ ہوا تھا؟ اگر وہ اس تجربے سے گزرے تھے، تو اس تجربے کے علم سے آگاہ کیوں نہیں کیا؟ انہیں ’’زمان و مکاں کی کسی اور سطح‘‘ سے تعلق رکھنے والے علم پر ایک مقالہ تحریر کرنا چاہیے تھا، پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس علم کی صداقت کو ضبطِ تحریر میں کیسے لایا جاتا؟ کیا اس کے لیے کسی منطقی طریقہ کار کی ضرورت تھی ؟ اگر منطقی طریقہ کار اختیار کرلیا جاتا، تو اس طریقہ کار کی صداقت کو بھی منطقی طریقہ کار کے تحت ہی پرکھا جانا تھا۔یہ ایک ایسا خیال ہے جسے جدید مغربی فلسفہ مکمل طور پر رد کردیتا ہے۔جدید مغربی معاشروں کا تمام ارتقا اسی قدامت پسندانہ خیال کے انہدام پر کھڑا ہے، جسے اقبال نے بحال کرنے کی کوشش کی تھی اور یہی ایسا خیال ہے جو اقبال کو جدید فلسفے سے خارج کرتا ہوا انہیں قدامت کی اتھاہ گہرائیوں میں لے جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے آخری عشروں کے مباحث میں اس خیال کو ایک دفعہ پھر فنا کردیا گیا ہے۔ ژاک دریدا نے ایڈمنڈ ہسرل کے متصوفانہ افکار کی تنقید پیش کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’تقریر اور مظہر‘‘ میں لسانیات کی بنیاد پر ہر طرح کی فوق تجربیت کاانتہائی گہری منطقی بنیادوں پر ابطال کیا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا کانٹ کسی ایسے فلسفے کا قائل ہے کہ جس کے تحت حسیاتی تجربے کے علاوہ کسی اور ’تجربے‘ کا امکان ہو۔ البتہ اقبال کی اس غیر منطقی بات کا کانٹین خیال کی تعقلی و منطقی تشکیل سے تقابل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کانٹین دلائل کو رد ہی کیا جاسکتا ہے۔ کانٹ کا نومینا جو کہ فہم محض کے مقولات پر مشتمل تھا ،تعقل نے جسے بطورِ تصور تسلیم کرلیا تھا، محض اس لیے کہ اخلاقی اصولوں کی پاسداری کے ’’ارادے‘‘ کا بااختیار ہونا ضروری ہے۔ اس تصور کے بارے میں خیال تو کیاجاسکتا ہے، لیکن تعقلِ محض سے جانا نہیں جاسکتا۔ لہذا اگر اس ’سطح‘ کو کانٹین علمیات کی داخلی سطح کہا جائے جس میں تصورات کا ایک سلسلہ بدیہی طور پر موجود رہتا ہے، تو پھر اقبال کی دلیل کا کانٹ پر اطلاق نہیں کیا جاسکتا۔ انتقاد کی دوسری کتاب کے دیباچے میں کانٹ واضح طور پر لکھتا ہے کہ وہ مظہر جس کا تصور ’وجدانی‘ طور پر کیا جاسکتا ہے، اس کی مکمل تصدیق تعقل عملی میں ہوتی ہے۔ کانٹ کا نقص یہ تھا کہ اس نے داخلی اور خارجی میں حتمی تفریق قائم کرلی، جس کا اسے احساس تھا، اسی تفریق کی تحلیل انتقاد کی دوسری اور تیسری کتاب کا مرکزی قضیہ ہے۔
اقبال مابعد الطبیعات کے تعلق سے تعقل عملی کے تفاعل کی تفہیم میں ناکام رہے ہیں۔ خارجی تجربے کے برعکس فہمِ محض داخلی تجربے کی ایسی ہی صورت تھی، جس میں تعقل نظری کے محدود کردار کو عیاں کرنے کے بعد تعقل عملی کے کردار میں توسیع لانا تھا۔ یہاں یہ اہم بات ایک بار پھر ذہن میں رہے کہ تعقل مابعد الطبیعات کے کھوج میں خود کی نفی کرتی ہے، جس سے مابعد الطبیعات کی نفی بھی ہوتی ہے، مگر اگلے ہی لمحے جہاں مابعد الطبیعات کا اثبات کرتی ہے تو وہاں اپنا بھی اثبات کرتی ہے۔ عملی کردار کی تشکیل تعقلی رہنمائی میں ہوتی ہے ،جو خارجی تجربے سے موصول معروضات سے منقطع ہو جاتی ہے۔ خارجی مظاہر سے مکمل کٹ کر تعقل خود پر منعکس ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی اس طاقت کا اندازہ کرسکے کہ کیا تعقل حسیاتی ادراک کے بغیر ان فوق تجربی تصورات کا خاکہ تیار کرسکتی ہے کہ جن کا عملی استعمال ممکن ہوسکے؟ اس کوشش میں کانٹ کامیاب تو رہتا ہے مگر اس ثنویت کو ختم نہیں کرپاتا جو نظری اور عملی تعقل کے درمیان موجود ہے۔
تعقل نظری میں وہ’ مطلق‘ جو ماورائے حواس ہونے کی وجہ سے ’غیر متعین‘ رہتا ہے،نظری تعقل ایک لازمی ’تصور‘ کے طور پر اس کے ’مطلق‘ ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔یہی الٰہیات کی روح تھی جس کے تحت انسان کو بطورِ ایک اخلاقی وجود کے بااختیار کرنا تھا۔ خدا، روح اور ارادہ جیسے تصورات کا تعلق اخلاقیات سے قائم کرنے کے لیے ضروری تھا کہ علمیاتی مابعد الطبیعات کے کردار کو محدود کردیا جائے۔لیکن یہاں یہ بھی واضح رہے کہ کانٹ ’’تنقید عمل محض‘‘ کے دیباچے میں خدا اور لافانیت جیسے تصورات کواخلاقیات کی شرائط نہیں سمجھتا، بلکہ ارادے کے معروض کی شرط گردانتا ہے، جسے اخلاقی قانون متعین کرتا ہے۔ یہی انسان کی مرکزیت کا تصور ہے جو جدید ’تنقیدی فلسفے‘ کی بنیاد ہے۔ اس کے مطابق خود انسان اپنے افعال کا ذمہ دار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عمران شاھد بھنڈر، برطانیہ میں مقیم دانشور، استاد اور بائیں بازو کے نمائندہ اردو لکھاری ہیں۔ آپ کی دانش قاری کے ذہن کی تاریکیوں میں دئیے ٹمٹماتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply