دوسرا رُخ ۔۔۔ ماسٹر محمد فہیم امتیاز

موٹیوشن آپکے آگے ہوتی ہے آپ اس کو پکڑنا ہی نہیں چاہتے۔

کیونکہ آپ ان رخوں سے آشنا ہوتے ہوئے بھی ناآشنا رہتے ہیں، جن رخوں میں دریچے اور پھر دریچوں کی بھی پرتیں ہیں۔ ایک ایک پرت ایسی ہے جس پر پوری زندگی گزاری جا سکتی ہے، لیکن جب ہر ہر پرت سے شناسائی رکھیں گے، تو ہی صحیح معنوں میں زندگی جیئیں گے۔

سادہ طریقے پر آتا ہوں۔ ایک بندہ غریب ہے، اسے امیر ہونے کی چاہ ہے۔ ایک بندہ کمزور ہے اسے طاقت ور بننے کا جنون ہے۔ حتی کہ ایک کم طاقت والے کو زیادہ طاقت کی طلب ہے۔ چلیں یہیں کی مثال لے لیں۔ ایک بندہ سوشل میڈیا پر موجود ہے،اسے لائکس کمنٹس کی خواہش ہے۔

ذرا غور کریں کہ تینوں کی خواہشات کا محور جو ہے!! وہ ایک  رخ ہے۔ صرف ایک رخ، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

دیکھیے پہلے بندے کی جو بات کی وہ ایک رخ تھا۔ فنانشلی رخ، دوسرے کا فزیکلی،  تیسرے کا سوشلی ، اور یہ تین بندے اپنے اپنے اس ایک رخ کو سر پر سوار کیے ہوئے ہوں گے، سو جتن کریں گے بنا  یہ سوچے سمجھے کہ زندگی کے کچھ اور پہلو بھی ہیں،کئی اور رخ بھی ہیں۔

فنانشلی (معاشی)، فزیکلی (جسمانی)،  سپیرچویلی (روحانی) ، فیملی،  سوشلی (معاشرتی) ، مذہبی،علمی۔ یہ لسٹ بہت بڑی ہے۔ ایک بندے کی زندگی کے یہ تمام پہلو ہوتے ہیں یہ تمام رخ ہوتے ہیں۔ مگر یہ انسانی فطرت ہے یا جو بھی کہ تمام میں سے جس رخ میں کمی ہو گی، انسان اسکی محرومی پر ماتم کناں زندگی اجیرن کرے گا یا اس کی تلافی میں جاں مارتے ہوئے۔ اس کا اطلاق ایک گھڑی ایک دن سے لے کر مہینوں سالوں اور آگے پوری زندگی تک ہوتا ہے۔ کسی ایک بات کو، کسی ایک موڈ کو پکڑ کر سارا سارا دن خراب کرنے سے لے کر، کسی ایک پہلو کو پکڑ کر پوری پوری زندگی برباد کرنے تک۔

مجھے معاشی طور پر مضبوط ہونا ہے۔ تو میں زندگی کے دس سال اسی میں جھلسا دوں گا، اور ایک وقت آئے گا کہ میں وہ پا لوں گا مگر۔۔۔!اس ایک حاصل کے ساتھ ساتھ احساس محرومی کے بھی بہت سے پہلو ہوں گے۔

میرے نیچے مرسڈیز ہوگی مگر میں دس قدم چلنے سے بیزار ہوں گا۔

سنیئے میرے بھائی!!

زندگی کے تمام تر رخوں سے جینے کی کوشش کریں، ورنہ جو حاصل ہو گا وہ بھی لاحاصل ٹھہرے گا، کہ لاکھ کی اہمیت میرے نزدیک اسی وقت تک ہے جب میرے پاس نہیں ہے، جب لاکھوں آ جائیں گے تو میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھیں گے پھر کروڑوں کی طلب ہو گی۔ تو پھر کیوں میں اس لاکھ کے لیے جو حاصل کر کے بھی لاحاصل ہی رہنا، اپنی زندگی کے دوسرے رخ داو پر لگاوں، کیوں اس لاکھ کو پانے کی کوشش میں عمر گنوا دوں، رشتے کھو دوں، دوست بھلا دوں، اپنے شوق اور خواہشات تک قربان کر دوں، حتی کہ اپنے اصل تک سے غافل ہو جاؤں ؟؟

دیکھیے اگر امتحان میں چھ مضامین ہوں اور ان میں سے آپ کے ایک یا دو میں سو سو آ جائیں، لیکن باقیوں میں بیس بیس تو آپ پاس نہیں کہلائیں گے۔ پاس وہی ہے جس کے ساٹھ ستر ہیں مگر ہر مضمون میں،ہر کتاب میں ، لہذا ایک سو کے چکر میں باقیوں کو نہ گنوائیے۔۔آپ ستر ستر لیجیے مگر مطمئن رہیئے کہ آپ کسی بھی طرف سے محرومی کا شکار نہیں ہیں،آپ کسی بھی قسم کے پچھتاوے کو ساتھ نہیں لگائے ہوئے۔

چالیس سال تک کسی بھی پہلو پر کسی بھی چیز پر بہت زور مار کر جان مار کر اگر  اس کی انتہا تک پہنچ جائیں لیکن وہاں جا کر یہ حساب الجھ جائے کہ کیا کھویا کیا پایا!! تو کس کام آئی وہ عمر گنوائی؟؟

آخری مثال دے رہا ہوں

•ایک بندہ اربوں کا مالک مگر توند نکلی ہوئی، گھٹنوں میں اتنا بھی دم نہیں کہ چار قدم ہی چل سکے

•ایک بندہ لیول کا باکسر مگر جیب گھر کا چولہا چلانے سے بھی قاصر

•ایک بندہ علمی قدوقامت کی مثال مگر نزع کے عالم  میں پیچھے دیکھنے پر چار نمازیں بھی نہ دکھیں

•ایک بندے بہت بڑا سوشل میڈیا ایکٹوسٹ مگر حقیقی زندگی میں چارپائی اور روٹیاں توڑنے تک

•ایک بندہ فیسبک پر اوئے بھی لکھے تو ہزاروں لائکس،کمنٹ مگر گھر میں ماں باپ دو بول سننے کو ترسے بیٹھے ہوں۔

یہ سب وہ جن کا ایک ایک رخ آپکے لیے شاید رشک کا باعث ہو مگر دوسرا آپکی نظر سے اوجھل!

اب دوسری طرف آ جائیں

ایک بندہ جولاکھوں نہ سہی مگر ہزاروں کماتا، جس کی عمر 50 سال مگر وہ اب بھی میلوں دوڑ سکتا، جو اچھا پلیئر اور ہار جیت کو کھلے دل سے قبول کرتا، جو بہت زیادہ علم نہ سہی خاطر خواہ مطالعہ رکھتا، جو مطمئن کہ کبھی زندگی میں فرض نماز نہیں چھوٹی، جو بہت بڑا نہ سہی چھوٹا ایکٹویسٹ /لکھاری ہی سہی، جو ایک فیملی کے حقوق احسن انداز میں پورے کر رہا، جسں کی پوسٹ پر ہزار نہیں سو لائک ہی آتا، جو بوڑھے باپ کا سہارا، جو روز ماں کے پاوں چوم کے سوتا، جو کسی ایک رخ  کا سوپر مین نہ سہی مگر زندگی کے کسی بھی معاملے میں احساس محرومی کا شکار بھی نہیں، کہ ہر ہر رخ سے جیا ہے۔

یہ عمومی رویہ ہے کہ ہم کسی ایک رخ کو کوستے سوچتے زندگی گزار دیتے ہیں اور ان بے شمار پہلووں کو نظر انداز کر دیتے جن میں موٹیوشن ہوتی ہے، جو خود اپنے اندر بڑی وسعت رکھتے ہیں،مگر ہماری  آنکھوں کو وہ وسعت نظر نہیں آتی، میں چند لکھ رہا ہوں  جیسے مطالعہ کا، فزیکل فٹنس کا، مارشل آرٹ کا، تیراکی کا، ڈرائیونگ کا، ویپن ہینڈلنگ کا، زیادہ زبانیں سیکھنے کا، زیادہ پڑھنے/ تعلیم حاصل کرنے کا، مہینےمیں قران  پاک مکمل تلاوت کا، باڈی بلڈنگ کرنے کا، اچھا لیڈر بننے کا، اچھا لکھنے کا، اچھا بولنے کا، دوستوں سے ملاقات کرنے کا، پارٹی کرنے کا، سوشل ورک کرنے کا یہ تو چند مثالیں ہیں جن میں موٹیوشن ہے اس کو جتنا مرضی بڑھا لیں، یہاں بے شمار رخ ہیں تو کیوں ایک ادھ چیز سے نتھی کر کے خود کو محدود کر کے خود کو زندگی برباد کرنی۔

ایک نقطے اور اس پر دو رویوں کی نشاندہی کی گئی ہے، کسی ایک رخ کو/ محرومی کو پکڑ کر ماتم کناں رہنا، روتے دھوتے رہنا، چڑچڑے و غصیلے ہو جانا، احساس کمتری میں گھلنا یا جئےاسی ایک رخ کو محرومی کو پکڑ کر اس کی تلافی میں ہر دوسرا رخ بھول جانا، پہلا رویے میں زندگی عذاب اور دوسرے میں برباد کرنا۔ خدارا یہ نہ کیجئے کہ آپکے اصل آپکے حقیقی زادراہ کے بعد آپکی اپنی ذات ہی جو سب سے اہم ہے اور جو کچھ بھی آپ خود سے منسوب کیے ہوئے ہیں، جس جس رخ کے زیر اثر بھی اس ایک زندگی کی ناشکری و ناقدری کر رہے ہیں، آپ کے بغیر اس کی کوئی اہمیت نہیں، جب تک سانسیں ہیں اہمیت ہے جب ختم سب ختم!!

Advertisements
julia rana solicitors

تو نکلیے اس دائرے سے، توڑیے اس خول کو اور دیکھیے اپنے آگے پیچھے، زندگی کے کتنے رخ ہیں، ہر ہر رخ میں کتنے دریچے ہیں،اور ہر ہر دریچے کی زندگی سے بھرپور پرتیں ہیں ان کو کھنگالیے، جہاں جس رخ میں کمی ہے،اس پر اتنی توجہ دیجیے جو دوسرے رخ تو کیا ساتھ والی پرت کو بھی متاثر نہ کرے،اور اس کے بعد بھی اگر کہیں احساس محرومی ہو تو بچے بن جائیے اس احساس کو فٹبال بنائیے زمین پر رکھیے اور دو قدم پیچھے ہٹ کر زور کی کک لگاتے ہوئے دور پھینک دیں،اور پھر چھلانگیں لگاتے ہوئے،مسکراتے ہوئے، ان دوسرے رخوں کی طرف بڑھ جائیے جن میں زندگی ہی زندگی ہے، ان رخوں کی طرف جو پوری بانہیں کھولے آپکے منتظر ہیں۔

Facebook Comments

ماسٹر محمد فہیم امتیاز
پورا نام ماسٹر محمد فہیم امتیاز،،ماسٹر مارشل آرٹ کے جنون کا دیا ہوا ہے۔معروف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،سائبر ٹرینر،بلاگر اور ایک سائبر ٹیم سی ڈی سی کے کمانڈر ہیں،مطالعہ کا شوق بچپن سے،پرو اسلام،پرو پاکستان ہیں،مکالمہ سمیت بہت سی ویب سائٹس اور بلاگز کے مستقل لکھاری ہیں،اسلام و پاکستان کے لیے مسلسل علمی و قلمی اور ہر ممکن حد تک عملی جدوجہد بھی جاری رکھے ہوئے ہیں،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply