میں تصویر کیوں دوں ۔ لعلونہ خان

شاعر نے کبھی سادہ وقتوں میں فرمایا تھا کہ،

“وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ”

پر شاید حضرتِ شاعر کو اندازہ نہیں تھا کہ ایک دور آئیگا جب یہ رنگ کبھی کبھی بُہت ہی بے مزہ نفسیاتی بھنگ سے بھی آشنا کر دیا کریں گے۔

فیس بک پر ہمارے حلقہ قربت (فرینڈ لسٹ اور خاص طور پر انباکس) میں آج تک جو بھی آیا،ہمارے آباؤ اجداد تک پہنچنے کے باوجود تشکیک کا ہی شکار رہا، اس سوچ میں سگریٹ سلگاتا اور خم لنڈھاتا رہا کہ یہ  بے تصویر لعلُونہ واقعی ایک حسین و جمیل خاتون ہے، یا پھر کوئی حاجی عبدالغفور۔ فیس بُک پہ زنانیوں کی تصویر  ہمیشہ سے ایک مسئلہ ہی رہی ہے۔ہمارے فیس بُکی حلقے میں تو بُہت ہی قلیل بلکہ آٹے میں نمک سے بھی کم مقدار میں ایسی زنانیاں ہیں جو اپنی  “پروفائل پک” کے خانے میں اپنا اصل چہرہ لگاتی ہیں۔ ویسے ایسی خواتین قابل ستائش اور ثواب دارین کی مستحق ہیں کہ تصویر دیکھنے کے تجسس میں مُبتلا اپنے دینی بھائیوں کی اذیت میں کُچھ تو کمی کا باعث بن جاتی ہیں۔ مگر مُجھ جیسی سدا کی  گناہ گار خواتین، جو تصویر نہ لگا کر گُناہِ جاریہ کا باعث بنتی ہیں، خاصی تعداد میں فیس بُک پہ پائی جاتی ہیں؛ بالکل موسم بہار یا برساتی  خود رو پودوں کی طرح۔ فیس بک ہر دوسری زنانی کی یہ فریاد ہوتی ہے کہ اُسے تصویر دیکھنے کے لئے زچ کیا جاتا ہے۔اور مُجھے ہمیشہ اس بات پر حیرت ہی رہتی ہے کہ بھئی اگر کسی زنانی کی تصویر بندہ دیکھ بھی لے، تو ایسا کونسا لال قلعے پر جھنڈا لہرا لیا کہ کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے میرے مجاھد بھائیوں کے۔ خیر دلوں کے بھید اللہ ہی جانے، اور مرد کے دل کا تو فقط اللہ ہی جانے۔

اچھے خاصے حضرات جو دیکھنے اور بولنے میں خاصے تمیز و طریقے والے  دکھائی دیتے ہیں، تصویر کے معاملے میں مسخرے بننے تک اُتر آنے سے بھی گُریز نہیں کرتے۔ ویسے تو اکثر خواتین کو ہی بدنام کیا جاتا ہے کہ بے صبری ہوتی ہیں۔ مگر فیس بُک پہ تصویر مانگنے کے معاملے میں تو مرد ہی ساری حدیں( بے صبری کی)بپھلانگ جاتے ہیں۔اب کسی نے نا دینی ہو تو ٹھک سے انکار کرے۔ لیکن جو دل پسیج جائے ترلوں منتوں سے تو پھر زنانیوں کے لئے ایک کٹھن مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔زمانہ کم سِنی بلکہ ناسِنی تک سے لیکر تازہ ترین تصاویر میں تلاش شروع ہو جاتی ہے اُس تصویر کی جس میں وہ زنانی غلطی سے بھی اپنی اصل شکل میں نظر نہ آئے، بلکہ قطرینہ کیف یا کاجول ٹائپ کا کوئی حُسن لگے۔( مُجھے تو ساری ہندوستانی اداکاراوں میں یہ دو ہی نسوانی حسن کےمرقعےلگتی ہیں)۔ خیر تو اس چھان پھٹک میں گھنٹوں اور کبھی کبھی دن بھی بیت جاتے ہیں۔ اُدھر اُس بیچارے سوالی، جس نے انباکسی ناز و ادا والی گُفتگو سے جانے آن دیکھے حُسن کے کتنے ہی تاج محل تعمیر کئے ہوتے ہیں،کی جان پربنی  ہوتی ہے۔ ادھر خدا خدا کرکے ایک تصویر مل ہی جاتی ہے، جس میں ناک نقشہ اور باقی حدود اربعہ گُزارے کو کُچھ شرمانے لائق ہوتاہے۔

اب دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے یعنی اُس تصویر کو کمپوٹر پر تازہ ترین طرقوں سے ایڈٹ کرنے کا۔

سب سے پہلے تو چاند کے کھڈوں جیسے چہرے کی جلد پر، مختلف بٹن دبا کر دس قسم کے فاؤنڈیشن پھیرے جاتے ہیں۔ سو کچھ ہی لمحوں میں وہ رنگت میسر آ جاتی ہے کہ بندہ خود پہ بھی عاشق ہو جائے۔ سو دُودھ اور شہد جیسی ملیح رنگت حاصل کرنے کے بعد دوسرا نمبر چُنی مُنی آنکھوں کو  نشیلی بنانے کا آتا ہے۔ اب ان چنّی سی آنکھوں کو بھی ہرنی کی آنکھیں بنانے سے کم پر دل راضی ہی نہیں ہوتا۔ کھینچ تان کے جھیل جیسی گہرائیاں اُن آنکھوں میں لے ہی آئی جاتی ہیں اور جو دیدوں کا رنگ پسند نہ ہو تو کلر لینز کا آپشن تو ہے ہی۔ لیجیے جناب رنگ بھی بدل گیا اور وہ بھی اکثر فرنگی حسیناؤں کی آنکھوں سے متاثر ہوکر نیلا پیلا بکریوں جیسی آنکھوں والا۔ ابرو (بھنوؤں) کو تو جب تک خوب کمانی دار نہ بنایا جاوے، تو مغرور پنے کا تاثر آتا ہی نہیں چہرے پر۔پر ظاہر سی بات ہے کہ اُدھر سے ایک بندہ مرا جارہا ہو دیکھنے کی چاہ میں تو تھوڑا بُہت غرور آنا تو لازمی بنتا ہے۔ بس وہی بات کہ؛

“خدا جب حُسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے”

پکوڑے جیسی موٹی ناک کو کھینچ کھانچ کر ستواں ہونے کا نازک سا ٹچ دیا جاتا ہے۔موٹے موٹے بھدے ہونٹوں کے کونے محنت سے ادھر اُدھر کھسکا کر آخر کار مخروطی لب ہونے کا اعزاز وصول ہی لیا جاتا ہے۔ گردن جو خود کو یا کسی اور کبھی چہرے اور دھڑ کے بیچ دکھائی ہی نہیں دیتی، اس جادُو کی چھڑی سے فائدہ اُٹھا کر فورا صراحی دار ہونے کا شرف حاصل کرلیتی ہے۔ اور آخر میں جھاڑ جھنکار جیسے بالوں پر ڈھیر سارا نُور (مطلب روشنیاں) ڈال کر بال چمکدار ہو جاتے ہیں۔ لیجیے صاحبان، ایک انتظار میں بیٹھے مسکین بندے پر بجلیاں گرانے کے تمام انتظامات مکمل ہیں۔

مگر اتنی بھی کیا جلدی، عاشق نامُراد کی مجنوں جیسی بےچین و بے سکون حالت میں کچھ مزید اضافہ ہونا چاہیے۔ ابھی کچھ اور ناز نخرہ اور میں ایسی نہیں ہوں، وعدہ کرو کسی کو نہیں بتاؤ گے نا دکھا گے قسم کے جملے اور اس پر مسکین کی اپنی امی کی قسمیں باقی ہیں۔ خُداخُدا کرکے وہ  مرحلہ آ ہی جاتا ہے کہ اپنی تصویر بھیج کر مسکین سوالی کو “ڈھیر” کر ہی دیتی ہیں۔ اور جوں ہی سوالی تصویر دیکھ لیتا ہے، اُس کا شوق دُودھ کے اُبال کی طرح ایکدم سے بیٹھ جاتاہے۔ امی کی قسمیں بھول کر وہ “ماموں بنا ہوا بندہ” اب اس تصویر کو لے کر دس جگہ شوخیاں مارتا ہے، اُس تصویر والی کو اپنی گرل فرینڈ جیسے عزت و اعزاز والے مرتبے سے نواز  کر۔ جو تصویر دیتی ہے نخروں کے بعد، وہ بھی دھوکہ اور جو وصول کرتا ہے، وہ بھی فقط دھوکہ۔ اسی لیے اس ناچیز کے خیال میں تو اس تصویری کاروبار کا کوئی فائدہ ہی نہیں کہ دونوں کے ہاتھ فقط جھوٹ ہی آتا ہے۔

اکثر خواتین اپنیے پروفائل پر کسی بُہت ہی خوبصورت “سلیبریٹی” یا کسی بُہت ہی خوبصورت و حسین چہرے کو سجا لیتی ہیں۔ اب مطلب اُن کا معصوم و بے ضرر سا ہی ہوتا ہے کہ وہ اداکارہ اُن کو اچھی لگتی ہے۔ اب اس سے کوئی یہ مطلب تھوڑی ناں کہ ہمارے نین و نقش اس تصویر والی جیسے قاتل اور ہوش آڑا لینے والے ہیں۔ مگر یہ بھی دھوکے کی ایک بُہت ہی مُہذب سی قسم ہے۔ مطلب معصوم دلوں سے کھیلنا۔لعلُونہ خان معصوم  تو خود عورت ذات ہو کر جب کسی خاتون کی خوبصورت پروفائل پک دیکھ لیتی ہے تو ذھن میں اُس چہرے کے حوالے سے ہی اُس پروفائل والی کا خاکہ سا بن جاتا ہے۔ سوچیے تو باقی اشرف المخلوقات (یعنی مرد برادری) کے تصورات کا تو خدا ہی حافظ ہو گا۔ سو مدیر مکالمہ، انعام رانا صاحب، کا ہم کو بھی ایک مُخلصانہ مشورہ یہی تھا کہ ہمیں بھی تحریر بھیجتے وقت اپنی ایک ہوش رُبا قسم کی تصویر لگا لینی چاہیئے بطور شناخت تاکہ ان جیسے شرفاء کو یقین رہے کہ تحریر کی مصنفہ ایک “اصلی عورت” ہے ناکہ کوئی حاجی عبد الغفور۔ ہمارا جواب یہی تھا کہ مدیر صاحب جب گلُاب کو کوئی بھی دوسرا نام دینے سے اُس کی “گُلابیت” پر کوئی فرق نہیں پڑتا، تو لعلُونہ چاہے اپنی تصویر دے یا نہ دے، وہ بھی بس لعلونہ ہی رہے گی، آھو۔

ہم نے تو روز اول سے پروفائل ان  تین بچوں کی تصویر سے سجا رکھی ہے جنکا وجود ہمکو بہت پیارا ہے، گو ہمارے کئی دوستوں کو ان بچوں کا وجود کھٹکتا ہے۔ پر کیا کریں، ان کی جگہ تو صرف ہماری تصویر ہی لے سکتی ہے، جو باوجوہ اس جنم میں تو نامُمکن ہے۔

سنیے، فیس بک پر واقعی بہت سے مردوں نے عورتوں کے نام سے اکاونٹ بنا رکھے ہیں۔ شاید کچھ نفسیاتی مسائل ہوں گے۔ بہت سی لڑکیوں نے جھوٹی تصویریں لگا رکھی ہیں، جذباتی مسائل ہوں گے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان جھوٹے ناموں اور تصویروں سے مردوں کے دلوں سے کھیل کھیلے جاتے ہیں اور بیچاروں کے دل ٹوٹ جاتے ہیں۔ مگر سوچیئے تو قصوروار خود آپ ہیں۔ آخر آپ کا تجسس آپ کو انباکس لے کر ہی کیوں جاتا ہے۔ اگر کسی کی تحریر پسند ہے تو اسکی تحریر پسند کیجیے، تصویر کی طلب کیوں ہے۔ اور پھر تصویر کی طلب کوئی گل کھلائے تو منہ بسورتے ہر عورت پہ انگلی نہ اٹھا دیجیے۔ ہم اس معاشرے میں ہیں جہاں علم کی جستجو ہم کو بہت مشکلوں کے بعد بس اکاونٹ بنانے کی اجازت دلا سکی ہے۔ تصویروں کی جستجو کر کے ہمیں مشکل میں نہ ڈالیے۔  سو میں تو بس تحریر دوں گی، تصویر نہیں۔ اچھی ہے تو خواہ لعلونہ کے پیچھے لعل خان ہو، تحریر پسند کر لیجیے۔ میں اپنی تصویر کیوں دکھاؤں بھلا؟ ہیں جی؟؟؟

ویسے رانا صاحب کو انباکس تصویر نہ دینے کی اصل وجہ بتا رکھی ہے، مگر یہ آپ کو بتائیں گے نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

لعلونہ خان خیبر پختونخواہ کے ایک عزت دار اور تعلیم یافتہ گھرانے کی بہادر خاتون ہیں۔ انکی بہادری کا یہی ثبوت کافی ہے کہ ہردلعزیز عارف خٹک کی دوستی کا دعوی کرتی ہیں۔ “مکالمہ” لعلونہ کو، بغیر تصویر بھی، اپنا ساتھی بننے پر شکریہ ادا کرتا ہے، ایڈیٹر

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 5 تبصرے برائے تحریر ”میں تصویر کیوں دوں ۔ لعلونہ خان

  1. تحریر آپکی جو تصویر دکھا رہی ہے، وہ ہی بہت خوبصورت ہے، اللہ اس خوبصورتی کو اور بڑھائے۔

Leave a Reply to Muhammad Saleem Cancel reply