مجھے مت مارو ۔ حبیبہ طلعت

یہ کیسی آگ ہے کیا شعلے ہیں؟ جو مجھے جلا رہے ہیں جو سوچ تک کو جھلسا رہے ہیں خوف آرہا ہے مجھے ،ڈر لگتا ہے ان شعلوں سے

غزلوں ، لفظوں اور پھولوں پر مرنے والی تخیل پرست لڑکی جو خواب دیکھتی ہے ، بچپن سے ہی گڑیوں کا گھروندا بناتے بناتے اپنے لئے ایک چھوٹے سے گھر کا خواب دیکھتی پروان چڑھتی ہے ۔۔یہ وہ رومان انگیز تصور ہے جو زندگی بھر اس کے خوابوں کا نگر آباد رکھتا ہے ان خوشبو دار لفظوں اور فسانوں سے نکل کر عجب وحشت انگیز خیالات جکڑ لیتے ہیں .کرب اور بے بسی کی انتہا پر محسوس کرنا کیا ہوتا ہے .کس زبان میں ملیں گے وہ الفاظ جو کرب اور بے بسی کو بیان کر سکیں

میں وہی خواب دیکھنے والی خوشبو اور بہاروں کے سنگم ،زندگی کی سنگلاخ حقیقتیں دیکھ کے بھی جینے والی ، آج تھک گئی ہار گئی ان جلتے انسانوں کے جلتے دکھوں پر جو معاشرے کو خاکستر کر رہے ہیں

میرے باغوں، پھولوں کے شہر لاہور میں ایک ماں نے اپنی لخت جگر زینت کو خاندان کی غیرت کے نام پر شعلوں کی نذر کر دیا وہ لاڈلی جس کو نو ماہ کے تکلیف دہ حمل کے بعد جنم دیا ہو ، مدتوں پرورش کی صعوبتیں برداشت کی ہوں اور جب وہ چھوٹی گڑیا، دو پونیوں والی معصوم، گڑیا سے کھیلنے والی جوان ہو گئی تو اس کے پھول سے جسم کو چارپائی سے باندھ کر آگ کے شعلوں سے جھلسا دیا ؟ سترہ اٹھارہ برس کی زینت سے زرا پہلے ہی ایبٹ آباد کے حسین مرغزاروں میں سولہ سترہ برس کی عنبرین بھی نام نہاد جرگہ کی سزا کی بھینٹ چڑھ گئی۔سوزوکی میں باندھ کر جلتے شعلوں میں راکھ کر دیا گیا

جب بدن ہی سارا جلتا ہو دامن دل کو بچائیں کیا

معلوم نہیں جل مرنے میں کتنی دیر لگتی ہوگی۔پتا نہیں آگ پہلے جسم کو جلاتی ہوگی کہ خرمن جاں کو پہلےراکھ کرتی ہوگی جلتے جسم کیا مزاحمت کر سکتے ہوں گے جب ان کو باندھ بھی دیا جائے . کیسے ٹرپتے ہونگے وہ دل جب سب کو پکار پکار کر تھک جاتے ہوں گے اس کرب و اذیت کے شکار مظلوموں کو دیکھنے سے پہلے سورج نے آنکھیں کیوں نہ موند لیں ؟ یہ ستارے ٹکرا کیوں نہیں گئے؟ چاند اس دنیا سے روٹھ کیوں نہیں گیا ؟ قیامت کیوں نہ آگئی؟

جب حسن و شباب کو جھلسا دیا جائے تو لازم ہے کہ عقل و خرد بھی کہیں جا کے ڈوب مریں . بے ہنر لوگ کہاں حرف کی سچائی کہاں اب کتابیں کسی دریا میں بہا دی جائیں ے سلیم کوثر

کیا ہو رہا ہے یہ سب ؟کیوں وحشتیں اپنا مقدر ہو چکی ہیں؟ تھک ہار کرقیامت بھی رخصت ہوئ اتنی سفاکیت ! اتنا ظلم ! کون ہیں یہ لوگ ، کیوں یہ غیرت کے نام پر اپنے مذموم مقاصد کے لئے صنف نازک کو مارنے ، برباد کرنے ،جلانے یا ونی کی بھینٹ چڑھانے میں ملوث ہیں ؟ کتنے ہی برسوں سے کتنی ہی کلیاں نوچ کے پھینکی جا چکی ہیں ۔۔ ہیں کوئی اعداد و شمار ؟

یہ نام نہاد غیرت کے نام پہ قتل ، ناموس کے نام پر قتل یا خاندان کے نام پہ قتل، ہے تو قتل نا ! کون دیتا ہے اس کی اجازت ؟

غیرت کے نام پہ قتل جسے سندھ میں کاروکاری، پنجاب میں کالا کالی ، کے پی کے میں طورہ طوری اور بلوچستاں میں سیاہ کاری کہا جاتا ہے ۔ دنیا کے اکثر ممالک میں کسی نہ کسی حوالے سے یہ مذموم کاروائی جاری ہے ۔ہم اپنے ملک کا جائزہ لیں تو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک پاکستان ،اسلامی دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے ۔جہاں 96.7 فیصد مسلمان شہری آباد ہیں۔وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام موجود ہے ۔انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی اپنی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سال دو ہزار پندرہ میں 1100 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جا چکا ہے ۔

ریاست پاکستان میں ایسے درجنوں ادارے اور کمیشن موجود ہیں جو کہ معاشرتی عوامل کا تجزیہ کرنے ، اسباب بیان کرنے ، اثرات کا جائزہ لینے کے بعد مناسب حد تک قابل عمل لائحہء عمل تشکیل دینے کے پابند ہیں۔مگر ان کی تعداد ، اجلاس ، فنڈنگ اور اشاعتوں سے ہٹ کر معاشرے کا یہ گھمبیر بگاڑ بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔اب تو یہ عفریت ماوں کی لازوال محبتیں بھی نگل رہا ہے ۔ محتاط اندازے کے مطابق سالانہ پانچ سو خواتین کو غیرت کے نام پر مختلف طریقے سے قتل کیا جاتا ہے ۔ جبکہ مبشر زیدی کا کہنا ہے کہ : دو سال میں 300 لڑکیوں کو زندہ جلایا جا چکا ہے ۔غیرت کے نام پر دو ہزار قتل الگ ہیں۔افراد کو نہیں ، معاشرے کو نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔

ہم اور ہمارا معاشرہ کس درجے کی تباہی کے کنارے آن لگا ہے اس کے متعدد اسباب ہیں ۔ مثلا سماجی اداروں کی عدم مطابقت ،خاندانی نظام میں ٹوٹ پھوٹ ، مذہبی اشتعال ، اندھی عقیدت ، چند گروہوں کی اجارہ داری ،نئی نسل کی تربیت نہ کرنا ، تعلیم و تربیت کے محدود مواقع ، تفریح کے مواقع نہ ہونا ، زرائع ابلاغ کی غیر محتاط روش ، خاص طور سے صنفی امتیاز جو مرد کو تمام جائز اور ناجائز حقوق دیتا ہے لیکن عورتوں کو جائز آئینی اور شرعی حقوق سے بھی محروم رکھتا ہے ۔۔۔وغیرہ وغیرہ

”غیرت کے نام پہ قتل” کے بھیانک عنوان تلے کسی بھی عمر کی کسی بھی عورت یا لڑکی کو پسند کی شادی ، حقوق کی جنگ اور سب سے بڑھ کر اظہار کی آزادی مہنگی پڑتی ہے اور اس کو باپ، بھائی یا علاقے کے جرگے اپنے ہی ضابطوں کے تحت وحشیانہ سزائیں دیتے ہیں۔ کبھی سچے ،کبھی جھوٹے الزامات کے تحت پسند کی شادی کرنے والے جوڑوں اور زیادہ تر عورت کو ہی روایات کے تقدس کے نام کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔ ایسے کسی الزام کی تحقیق کی ضرورت بھی نہیں سمجھی جاتی ۔کبھی باپ فائرنگ کر کے کمسن کنواری بیٹی کو مارتا ہے کبھی سہاگن بیٹی کو ، کبھی بھائی غیرت کے نام اپنی دو بہنوں کا قتل کر دیتا ہے اور کبھی عورت کو ونی کے نام پر عمر قید دے دی جاتی ہے .

وہ رشتے ناتے جنہیں خاندان کا تقدس یاد رہتا ہے انہیں یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ وہ کسی انسان کی جان لینے کا حق نہیں رکھتے ۔جب ریاست موجود ہے ۔عدالتیں کام کر رہی ہیں ،تو خود ہی ہتھیار اٹھا کے یا یونہی آگ کے شعلے بھڑکانے سے وہ بہادری نہیں بزدلی کا دامن تھام لیتے ہیں۔ ایک عورت کا درد جب خاندان اس کو تنہا کر دیتا ہے ۔ مار دیتا ہے . یہ کرب چند الفاظ میں ڈھل گیا ہے۔

وہ رشتے جو عورت کا فخر اور مان ہیں۔

_اپنے رشتوں کو پکارتی عورت _

مجھے مت مارو مجھے مت مارو اے میرے بابا میں تیری بیٹی میں تیری عزت میں تیری محبت

اے میرے بھیا میں تیری بہنا تیرے ساتھ کھیلی تیری ہم جولی

اے میری امی میں تیری رانی تیرے ہاتھوں کی پالی دیکھ کہاں ہوں کھڑی شعلوں میں ہوں گھری

اے میرے چاچا اے میرے ماموں آئے کیوں نہ مجھے بچانے میں معصوم اک پری ہوں

مجھے پتا ہی کیا تھا ؟ رنگ ہی رنگ تھے سپنوں کے سنگ تھے .

میرا جرم تھا کیا ؟ ہوئی مجھ سے خطا کیا ؟ کس لئے دی ہے سزا؟

آو میرے بابا آو میرے بھیا مجھے بچا لو

میں تیری غیرت میں تیری عزت میں تیری محبت ؟

Advertisements
julia rana solicitors

حبیبہ طلعت دھیمے اور پر اثر لہجے میں لکھتی ہیں۔ آپ کے الفاظ دل کو چھو لیتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”مجھے مت مارو ۔ حبیبہ طلعت

  1. چبھتے ہوئے موضوع کا انتخاب اوراس کی مناسبت سے بہترین الفاظ کے چنائو نےاس تحریر کو لا جواب بنا دیا ہے. اس سے زیادہ میرے پاس تعریف کیلئے میری اردو سے نابلد ہونے کی وجہ سے میرے الفاظ کی VOCUBLARY نے جواب دے دیا ہے

  2. افففففف کیا کمااااال لکھا آپ نے حبیبہ طلعت . ایک تلخ موضوع پر بہت جامع تحریر .اور اس پر بے مثال شاعری .ایسے ہی لکھتے رہییے انشاءااللہ ایک دن اس جہالت کا خاتمہ ضرور ہوگا . اور اگر کسی ایک پر بھی آپ کی تحریر کا اثر ہو گیا تو سمجھیے گا آپ کے لکھنے کا حق ادا ہوگیا ……………..

Leave a Reply