ناچ میری بُلبل کہ کچھ نہ ملے گا۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

عنوان میں جو لکھا ہے وہ ایک قیاس ہے آپ اِسے ایک دیوانے کی ذہنی اختراع سمجھ سکتے ہیں ایک ایسا جملہ جس کے معانی بظاہر تو واضح دکھائی دے رہے ہیں مگر جن وجوہات کی بنا پر یہ جملہ تخلیق کیا گیا اور جو چیز مُحرک بنی اِس جملے کی بنیاد رکھنے کے لئے وہ کچھ عجیب سا موضوع ہے جس پر بات کرنا یا اُسے دوسروں کے سامنے لانا میرے مطابق ایک اچھا فیصلہ ہوگا۔ آج کل کچھ مخصوص لوگ یا لابی ہم کہہ سکتے ہیں اِس انداز سے ہر شعبے پر تنقید کے عادی ہو چکے ہیں جیسے کہ وہ برسوں سے وزیر اعظم کے ساتھ ناشتہ وزیر خارجہ کے ساتھ لنچ اور وزیر دفاع کے ساتھ ڈنر کرتے آرہے ہوں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سربراہ کے ساتھ شکار کھیلنا اُس کے پسندیدہ مشغلے میں شمار ہوتا ہو، وزیر پانی و بجلی اُس کے ساتھ شطرنج کی بازی لگانے آتا ہو اور دیگر وزراء کے ساتھ اِس کے تعلق اِس بنیاد پر کچھ مخدوش ہو چلے ہوں کہ یہ مہان لوگ اُن کو وقت نہیں دے پاتے۔۔ ہاں ایک بات اور کہ حزبِ اختلاف والے جب تک اِن کے مشورے نہ سُن لیں مجال ہے جو حکومتی اقدامات پر اعتراض اُٹھاتے ہوں۔ ایسے ایسے اعتراضات اِن مہان گیانیوں کے ڈیجیٹل دماغوں میں آتے ہیں کہ اگر آئن سٹائن کو معلوم ہوتا اِن مہابلیوؤں کے بارے میں تو شاید اپنے دعوے سے دستبردار ہوجاتا اور اگر تھامس ایڈیسن نے اِس زمانے میں آنکھ کھولی ہوتی تو وہ بجائے بلب ایجاد کرنے کے اِن صاحبان کے دماغ کا ایکسرے کروا کر ہر گھر میں روشنی کروانے کی خاطر بھیج دیتے۔ اِن گیانیوں کے پاس بلا کا علم بدرجہ اَتم موجود ہے مجال ہے کسی ایسے مسئلے کی جِن کا حل اِن جٹادھاری دانشوروں اور عظیم ترین ذہنی قوتوں کے وارثوں کے پاس نہ ہوں۔ ایٹمی تنصیبات سے لیکر ابدالی اور غوری و شاہین کی رفتار تک، پاکستان کے پاس موجودہ ایف سیکسٹین F16 سے لیکر جے ایف تھنڈر سیونٹین JF17 تک کے پُرزہ جات اور اُس کی رفتار میں کمی و بیشی کو لیں یا پھر الخالد ٹینک کے سوراخ مطلب نالی کی تنگی و وسعت ہو، مجال ہے کسی دوسرے کی جو اِن کی موجودگی میں اپنی آراء پیش کر سکیں مذکورہ اشیاء پر۔ بات تو پکی تب ہوتی کہ ہم اُن کے مبارک چہروں کے ساتھ ساتھ قابل قدر زبانوں سے اور گراں قدر انگلیوں کی حرکتوں سے جو لکھنے میں کمال رکھتے ہیں کبھی تنقید کے علاوہ بھی کچھ دیکھ پاتے سن لیتے یا پڑھ لیتے مگر نہیں صاحبان جب بھی  بات کریں گے اپنی دانش کو بروئے کار لائیں گے تو منفی سوچ اور تنقید ہی نظر آئے  گی۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہو یا دفاعی بجٹ تعلیم کا شعبہ ہو یا پھر صحت کے مسائل بجلی آئی گئی والی بات ہو یا پھر گیس کی لوڈ شیڈنگ ہسپتالوں میں بچے اغوا ہو رہے ہوں یا پھر ایدھی سنٹر کو داغدار بنانا ہو، افواج پر زہر میں ڈوبے ہوئے نشتر چلانے ہوں کہ سیاستدانوں کو دو ٹکے کا ثابت کرنا ہو ،غرض وہ ہر ایک چیز جس کا تعلق پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ جڑا ہوا ہو وہ اِن مافوق الفطرت اذہان کی پہنچ سے دور نہیں۔ پاکستان میں لوگ کیسے جیتے ہیں کیسے زندہ رہتے ہیں کیا کھاتے ہیں کیا پیتے ہیں کون کس کا کھا رہا ہے کون کس کو کھلا رہا ہے پولیس کی بدنامی کی تاریخ نکالنی ہو کہ عوام کی جعل سازی کی سَند، معاشی زائچہ بنوانا  ہو یا کہ بچے کی ختنے کی مبارک تاریخ نکالنی ہو خواہ گدھے کے سر سے سینگ کے غائب ہونے کی رپورٹ ہی کیوں نہ کروانی ہو۔۔ اِن معزز احباب کے ساتھ ہر غم کی دوا موجود ہوتی ہے مگر ایسی جس میں تنقیدی زہر کی موجودگی لازم ہوگی۔ اِن گیانیوں میں سے کچھ اس قدر قابل ہیں کہ وہ پاکستان کے مستقبل میں بھی جھانک چکے ہیں اور پیشن گوئیاں کر چکے ہیں کچھ  اٙبلا  ناریاں بھی کمال کی نجم شناس ہوتی ہیں اِن میں کچھ تو پاکستان کو امریکہ سے بھی آگے لے کر جاچکی ہوتی ہیں مگر جیسے ہی عوام میں سے کوئی اُس خوشنما بظاہر سبزستان اصل میں تنقیدی گٹر میں جھانکتا ہے تو اُسے بھی یہی محسوس ہوتا ہے جو ایک گھر میں رہنے والے کو اُس کے گھر کی توہین کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔
حیران کن یہ ہے کہ یہ صاحبان دن رات پھلتے پھولتے ہیں زیر قلم و موضوع ملک میں مگر ایک دن بھی ایسا نہیں کہا کہ بہت ہوگئی دانشوری اور تنقیدی نشستیں اب جبکہ یہ قوم سنبھلنے والی  نہیں تو ہم اجازت چاہیں گے کسی دوسرے دیس میں جانے کے لئے جہاں کا ایک روپیہ ایک سو چالیس ڈالر کا ملا کرے گا مگر افسوس شاید وہ دن کبھی نہ آئے گا کیونکہ کوئی دوسرا ملک ایسے آستین کے سانپوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اِن کی مثال یہی ہے کہ ناچ میری بُلبل کہ کچھ نہ ملے گا اور ہم اور بھی کچھ اضافہ کرنا چاہیں گے کہ اسطرح خالی ہاتھ ناچ ناچنے سے کچھ نہیں ملنے والا کسی ڈھول طبلے کا بھی بندوبست ہو تو کچھ بات بنے کہ ہم کو بھی تو دیکھنے میں اور سننے میں مزہ تو آئے۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply